Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 28, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔۔٢٣ ویں قسط۔

*بریلی کے بازار میں*
قسط (23)
✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت
=========================
*بانئ بریلویت کو علمائے ندوہ کا جواب*
خان صاحب کی ناراضگی ختم تو کیا ہوتی، بلکہ بڑھتی اور زور پکڑتی چلی گئی۔ خان صاحب کے ایک خلیفہ مولوی محمود جان کاٹھیا واڑی نے ان کی ایک منظوم سوانح عمری *ذکرِ رضا* کے نام سے لکھی ہے۔ اس میں ان کے سب سے بڑے اور درخشاں کارنامے کی حیثيت سے اس بات کو ذکر کیا ہے کہ:
*اعلیٰ حضرت نے ندوہ اور ندوہ والوں کے رد میں بے گنتی اشتہار کے علاوہ 100 کے قریب رسالے لکھے اور ندوہ کا نام و نشان مٹا دیا* [ذکرِ رضا، ص 11] ۔
اس مقام پر محاضرہ ردِ رضاخانیت میں یہ بھی لکھا ہے کہ:
*مولوی احمد رضا خاں صاحب نے ندوۃ العلماء کے خلاف یہ تکفیری مہم 1311 ھ سے چلانی شروع کی تھی، برسوں تک پورے زور و شور سے یہ گولہ باری ہوتی رہی، یہاں تک کہ حرمین شریفین کے علما سے بھی ان کے کفر کا فتویٰ مولوی احمد رضا خاں صاحب نے حاصل کیا اور فتاوی الحرمین بر جفِ ندوۃ المین کے نام سے چھپوا کر ہزاروں کی تعداد میں شائع کیا* (ص 27)
خان صاحب کی دیدہ دلیری اور ترش مزاجی نے جب بات آگے، بلکہ بہت آگے بڑھا دی ۔ پانی روز بہ روز سر سے اونچا ہونے لگا۔ عوام میں علمائے ندوہ کے تئیں غلط فہمیاں پھیلنے لگیں تو انہوں نے بھی جوابی کار روائی میں رسالے اور کتابیں لکھیں۔ مولانا حفیظ اللہ صاحب نے *ارشاد الکملا*، حکیم محمد ایوب پھلواروی نے *القول الفاصل بین الحق و الباطل*، مولانا حکیم سید عبدالحی نے *اتمام الحجۃ علی مخالفی الندوۃ*، مولانا محمد علی نے *ھدایۃ الالباء* اور مرزا حیرت دہلوی نے *مقاصدِ ندوۃ العلماء اور اس کی مخالفت* نامی تحریریں قلم بند کیں۔
*مولانا عبد الحی کا بریلویوں کے مشنِ تکفیر پر تبصرہ*
جب کسی اچھے کام پر بد قماشوں کو مرچی لگے اور اضطراب و کرب کی صورتِ حال سے یہ لوگ دو چار ہو جائیں تو یہ اس کام کے عنداللہ مقبول ہونے کی دلیل ہے۔ مفکرِ اسلام مولانا علی میاں ندویؒ کے والدِ ماجد مولانا حکیم عبدالحی نے بھی خان صاحب کی ان ہرزہ سرائیوں کو فالِ نیک سمجھا اور برا ماننے کی بجائے یہ تبصرہ فرمایا:
*جب سے ہم کو یہ خبر معلوم ہوئی کہ ایک عالم بریلوی (مولانا احمد رضا خاں) اور دوسرے فاضل بدایونی مخالف ہو گئے ہیں، اس وقت سے ہم کو ندوۃ العلماء کی قبولیت میں کوئی شبہ باقی نہ رہا* (اتمام الحجۃ علی مخالفی الندوۃ، ص 
4)

*بریلویوں کی تیز زبانیوں پر ایک اہم ریمارک*
مولانا عبدالحی صاحب نے صرف دفاعِ ندوہ پر زور صرف نہیں کیا، بلکہ بانئ بریلویت اور ان کے ہم نواؤں کے خلاف کھل کر اپنا ریمارک بھی دیا۔ اسی کتاب میں لکھا ہے کہ:
*حضرت فاضل بدایونی و بریلوی وہی بزرگ ہیں جن کی تیز زبانی سے بہت سے سلفِ صالحین بھی محفوظ نہیں رہ سکے، ہمارے شیخ المشائخ حضرت شاہ عبدالعزیز صاحب اور حضرت شاہ ولی اللہ اور حضرت امام ربانی مجدد الفِ ثانی کی شان میں جو کچھ انہوں نے گستاخیاں کی ہیں، ان سے سب واقف ہیں، اور خود اس زمانہ میں مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا محمد قاسم اور مولانا عبد الحی لکھنوی کی تکفیر انہیں حضرات کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اس واسطے ان کی تحریر و تقریر کی طرف مسلمانوں کو بالکل اعتبار نہ کرنا چاہیے* ۔ (تاریخِ ندوہ، 177،178)
*اکابرِ دیوبند پر خان صاحب کا پہلا تکفیری گولہ*
بانئ بریلویت ندوہ کے پیچھے دس سال پڑے رہے۔ علمائے ندوہ بھی جواب اور دفاع در دفاع سے تھک تھکا گئے تو اب نظرِ عنایت دارالعلوم دیوبند پر دے ماری، چناں چہ 1320 میں ان کی پہلی کتاب اس مد میں *المعتمد المستند* کے نام سے منظرِ عام پر آئی، جس میں پہلی بار اکابرِ جماعتِ دیوبند: حضرت مولانا نانوتوی، حضرت گنگوہی وغیرہ کی قطعی تکفیر کی، اور لکھا کہ: *یہ ایسے کافر اکفر ہیں کہ جو کوئی ان کے کفر میں شک و شبہ کرے وہ بھی قطعی کافر اور جہنمی ہے* ۔ (محاضرہ ردِ رضاخانیت، ص 29)
*علمائے دیوبند کی خاموشی*
یہ کتاب آنے کو تو آگئی، مگر چوں کہ عربی میں تھی، اس لیے اس کا شہرہ نہ ہو سکا۔ علمائے دیوبند کو تو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔ کتاب کی اشاعت کے تین سال بعد 1323 ھ میں مناظرِ اسلام مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری کو کہیں سے اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے جواب لکھنے کی اجازت شیخ الہند سے طلب کی، انہوں نے منع کر دیا۔ جب اصرار حد سے بڑھا تو شیخ الہند انہیں لے کر حضرت گنگوہی کی خدمت میں چلے گئے، مگر وہاں سے بھی اجازت نہ ملی، حضرت گنگوہی کا جواب یہ تھا کہ:
*ارے بھئی! تم کہاں تک اس شخص کی باتوں کا جواب دو گے؟ اور کہاں تک کتابیں لکھو گے؟ وہ تو روز روز نئے الزام گھڑے گا، کتابوں پر کتابیں لکھے گا اور اشتہاروں پر اشتہار چھاپے گا، اس کو دنیا میں بس یہی کام ہے، شاید یہی اللہ نے اس کے لیے مقدر کر دیا ہے۔ ندوہ والوں کے ساتھ جو کچھ اس نے کیا ہے وہ سامنے ہے، اس لیے میری رائے تو یہی ہے کہ اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو اور دینی خدمت کے لیے اپنے کام میں لگے رہو* ۔ (ایضاً، ص 28)
اولاً کتاب ہی عربی زبان میں تھی، اس پر علمائے دیوبند نے بھی خاموشی سادھ لی تو کتاب *خطب ھوائیۃ* سے زیادہ ثابت نہ ہوئی۔ مجددِ بدعات بہت سٹپٹائے اور آتشِ غیظ و غضب کو سرد کرنے کے لیے اب سفرِ حج کا خوب صورت عنوان تراشا۔ خان صاحب 1323 کے اخیر میں اس مہم کے لیے حج پر روانہ ہوئے اور علمائے حرمین شریفین کے سامنے اپنے قلم سے تیار کردہ ایک استفتا رکھا، اسی کا جواب 1325 ھ میں *حسام الحرمین* کے نام سے ہندوستان میں شائع ہوا۔ یہی حسام الحرمین ہے جس کے بعد ہندوستان کے احناف باقاعدہ دو فرقوں میں تقسیم ہو گئے۔ بریلویت کی تاریخِ ولادت یہی 1325ھ ہے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: حسام الحرمین کی اشاعت کا تفصیلی پس منظر، وغیرہ]