Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, July 28, 2019

ہاں ! میں دارالعلوم دیوبند ہوں !!!


نازش ہما قاسمی/صداٸے وقت
=========================
جی عالمی ادارہ، عظیم دینی واسلامی مرکز، قاسم العلوم والخیرات مولانا محمد قاسم نانوتوی کا شجر سایہ دار، رشید احمد گنگوہی کا مسکن، حاجی عابد  کے اخلاص کا تاج محل، حاجی امداداللہ مہاجر مکی کے خوابوں کی تعبیر، مولانا یعقوب نانوتوی  کی جدوجہد کا ثمرہ، مولانا ذوالفقار علی دیوبندی کا شاہکار، اشرف علی تھانوی کے علوم و فنون  کا مخزن، انور شاہ کشمیری جیسا عظیم محدث پیدا کرنے والا، شیخ الہند محمود حسن دیوبندی کے پروانہ آزادی کی تعبیر، حسین احمد مدنی کے عزم واستقلال کا مرکز، قاری محمد طیب قاسمی کے صبر و تحمل، اعتدال و حلم وبردباری کا ترجمان، عبیداللہ سندھی کو مجاہد بنانے والا ادارہ، تبلیغی جماعت کے محرک مولانا الیاس کاندھلوی کی درسگاہ، مفتی اعظم ہند مفتی کفایت اللہ کی آماجگاہ، محدث جلیل خلیل احمد سہارنپوری کو متعارف کرانے والا، علامہ شبیر احمد عثمانی کو مشہور کرنے والا، علامہ ابراہیم بلیاوی کو پروان چڑھانے والا، اعزاز علی امروہوی کو ادیب دوراں بنانے والا، مناظر احسن گیلانی کو مورخ بنانے والا، محمد شفیع عثمانی کو مفتی اعظم بنانے والا، حفظ الرحمن سیوہاروی کو طاقت وقوت بخشنے والا، علامہ یوسف بنوری کو حدیث کا امام بنانے والا، منت اللہ رحمانی کو روحانیت بخشنے والا، ابوالحسن علی میاں ندوی کو مفکر اسلام بنانے والا، وحیدالزماں کیرانوی کو زبان وادب میں دسترس بخشنے والا، اسعد مدنی کو فدائے ملت بنانے والا،علامہ خورشید عالم عثمانی کو حدیث کا علم دینے والا، علامہ حسن باندوی کو بہترین مدرس بنانے والا، علامہ نعیم کو مفسر بنانے والا، محمد سالم قاسمی کو خطیب الاسلام کا لقب دینے والا، انظر شاہ کشمیری کو فخر المحدثین بنانے والا، قاضی مجاہدالاسلام قاسمی کو بے مثال فقیہ بنانے والا، مولانا جمیل احمد سکروڈوی کوبہترین فقیہ اور عظیم شارح بنانے والا، ترانۂ دارالعلوم دیوبند کے خالق مولانا ریاست علی بجنوری کو شاعر اسلام بنانے والا، قوم مسلم کو مولانا مرغوب الرحمن بجنوری جیسا درویش صفت مہتمم دینے والا، فن حدیث میں ید طولیٰ رکھنے والے مفتی ابوالقاسم نعمانی بنارسی جیسے ہزاروں چوٹی کے علماء کرام کو علوم ومعارف کی سند دے کر حضور اقدس ﷺ کے قول ’ماانا علیہ و اصحابی‘ کی کسوٹی پر پورا اترنے اور فکر ولی اللہی پر قائم عالمی 
ادارہ ہوں۔ 

میری بنیاد ۱۸۵۷ کی جنگ آزادی میں ناکامی کے بعد انگریزوں کے تعلیمی نظام ’ایک ایسی جماعت تیار کی جائے جو رنگ ونسل کے لحاظ سے تو ہندوستانی ہو؛ مگر فکر وعمل کے لحاظ سے عیسائیت کے سانچے میں ڈھلی ہو‘‘ کے حربے کے بعد ۳۰؍مئی ۱۸۶۶ میں اسلامی تعلیمی نظام ’’جو رنگ ونسل سے تو ہندوستانی ہوں؛ لیکن قول وعمل کے لحاظ سے خالص اسلامی ہوں‘‘ کے تحت دیوبند میں قاسم العلوم والخیرات مولانا قاسم نانوتوی، حاجی عابد حسین اور دیگر رفقا کے ہاتھوں مسجد چھتہ میں انار کے درخت  کے نیچے رکھی گئی ۔میری بنیاد صرف اس لیے رکھی گئی کہ یہا ں سے جنگ آزادی کے لیے لڑنے والوں کی ایک ٹیم تیار کی جائے جو ہندوستان سے قابض انگریزوں کو اکھاڑ پھینکے، جس کے تحت ’’ریشمی رومال تحریک‘‘ سامنے آئی۔ اے کاش! ریشمی رومال تحریک کامیاب ہوگئی ہوتی تو نقشہ کچھ اور ہوتا؛ لیکن ریشمی رومال کی تحریک ناکام ہوگئی اور برسوں آزادی کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔ اور مسلسل تگ ودو کے بعد آخر کار ہندوستانی عوام  کے لیے وہ سنہری دور بھی آیاکہ ہندوستان آزادہوگیا؛ لیکن آزادی کے ساتھ ہی تقسیم ہند کا المناک سانحہ رونما ہوا، ہندوستانی مسلمانوں کو ’مملکت خدا داد‘ کا جھانسہ دیاگیا اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا ۔ خیر! یہ دور بھی گزرا اور میں قاطع بدعت بن کر کام کرتا رہا، پوری دنیا میں اسلامی علوم وفنون کے مرکز کے طور پر میری پہچان ہوئی، وقت کے بڑے بڑے شاعروں، ادیبوں، نثر نگاروں  نے مجھ پر کلام کہے، تبصرے کیے، اور میری خدمات کو سراہا، میں نے  کسی ایک میدان عمل میں کام نہیں کیا، اسلامی علوم وفنون کے تمام میدانوں کو اپنے احاطے میں داخل کیا اور آج میں ہندوستان سمیت دنیا کے مسلمانوں کا مرجع ہوں ، میری باتوں کو اہمیت دی جاتی ہے، میرے یہاں سے جاری قول وعمل پر عمل کرنے کو فخر سمجھاجاتا ہے۔ میری خدمات کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اس کے لیے ملک کی لائبریریاں بھر جائیں؛ لیکن احاطہ ممکن نہیں۔ 


ہاں میں وہی دارالعلوم دیوبند ہوں جس کے ساتھ عظیم سانحہ رونما ہوا، آزادی کے فوراً بعد آزادی میں نمایاں رول ادا کرنے کی وجہ سے میری  تلاشی لی گئی، مجھے مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی؛ لیکن میں ڈرا نہیں، جھکا نہیں، سہما نہیں، انتہائی بے باکی سے ہندوستانی مسلمانوں کی رہنمائی کرتا رہا، لیکن حالات نے کروٹ بدلی ۱۹۸۰ میں میرا صدسالہ اجلاس رکھا گیا، اس اجلاس میں دنیائے اسلام کی نامور شخصیات نے شرکت کی، میرا یہ صد سالہ عالمی اجلاس انتہائی کامیاب اور تاریخی تھا؛ لیکن صدسالہ اجلاس میں اس وقت کی خاتون وزیراعظم اندرا گاندھی میری دعوت کے بغیر اجلاس میں شریک ہوئیں، ان کی یہ  شرکت میرے لیے درست ثابت نہیں ہوئی ۔ صد سالہ جشن میں خاتون وزیراعظم کی شرکت  کے بعد سے ہی  دارالعلوم پر اختلافات کے بادل منڈلانے لگے اور اختلاف میں شدت آتی گئی،  پوری دنیا میں مجھے متعارف کرانے والے اور  مجھے عالمی ادارہ بنانے میں اہم رول ادا کرنے والے قاری محمد طیب صاحب اس وقت میری باگ ڈور سنبھال رہے تھے، پوری دنیا میں انہوں نے علوم قاسمی کی ترجمانی کی اور دارالعلوم دیوبند کو متعارف کرایا، تقریباً ۵۸ سال تک میری آبیاری کرتے رہے اور مجھے شہرتوں کے بام عروج تک پہنچایا؛ لیکن۲۲؍۲۳؍مارچ  ۱۹۸۲ کی درمیانی رات میں قضیہ نامرضیہ پیش آیا، دارالعلوم دیوبند دوحصوں میں بٹ گیا، یہ قضیہ نامرضیہ تاریخ دارالعلوم دیوبند کا ایک المناک باب ہے ۔ دارالعلوم وقف کی بنیاد رکھی گئی اور اختلاف العلماء رحمت ثابت ہوا، اب  دونوں اداروں سے ہرسال ہزاروں کی تعداد میں علوم نبوی کے وارث پیدا ہورہے ہیں جو پوری دنیا میں اسلامی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ قضیہ نا مرضیہ کے پیش آنے کے بعد اختلافات چلتے رہے، مقدمات ہوتے رہے، لیکن اخیر عمر میں فدائے ملت جانشین شیخ الاسلام مولانا سید اسعد مدنیؒ اور علوم قاسمی کے وارث خطیب الاسلام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی نے اختلافات کی طوالت پر قدغن لگاتے ہوئے فروری ۲۰۰۵ میں تمام گلے شکوے کو ختم کرکے آپسی اخوت و محبت اور صلہ رحمی کا عظیم پیغام دیا۔ 

ہاں میں وہی دارالعلوم دیوبند ہوں جس کی عظمت بیان کرتے ہوئے شاعر اسلام مولانا ریاست علی بجنوری (استاد دارالعلوم ) نے کہا تھا "خود ساقی کوثر نے رکھی میخانے کی بنیاد یہاں، تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں" ، ہاں میں وہی ہوں جہاں مہتاب ہر رات یہاں کے ذروں کو منانے آتا ہے، میں وہی ہوں جہاں شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں، میں وہی ہوں جہاں محمود بہت تیار ہوئے، میں وہی ہوں جہاں دارالحدیث کی عظیم عمارت قال اللہ وقال الرسول سے مسلسل گونجتی رہتی ہے، جہاں مسجد رشید کے بلندوبالا مینارے اپنی عظمت وسطوت کا پیغام دیتے ہیں، جہاں  مسجد چھتہ  اور مسجد قدیم  میں روحانیت کی بارش ہوتی ہے، جہاں دارجدید کی عمارتیں اپنے اسلاف کی کہانیاں بیان کرتی ہیں، جہاں باب قاسم سے مدنی گیٹ تک اور باب الظاہر سے معراج گیٹ تک، اعظمی منزل سے لے کر دارالقرآن تک ، اور شیخ الہند لائبری سے لے کر نودرہ و احاطہ مولسری تک اسلامی علوم وفنون کی بارش ہوتی ہے، جہاں ہندوستان میں رہتے ہوئے اسلامی علوم پر دسترس رکھنے اور محب وطن ہونے کی بے باکی سے تعلیم دی جاتی ہے۔
ہاں میں سیاسی دباو کے بغیر  خاندانی اجارہ داری سے دور مجلس شوری کا پابند عوامی ادارہ ہوں ۔ ہاں میں وہی دارالعلوم دیوبند ہوں جس نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا، جو ہر فتنہ کی سرکوبی کےلیے سب سے پہلے سینہ سپر ہوا، جس نے ہر مقام اور ہر موقع پر ہندوستانی مسلمانوں کی رہنمائی کی، جس نے دہشت گردی کے خلاف سب سے پہلے کانفرنس کی اور یہ ثابت کردیا کہ دہشت گردی کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں ہے؛ لیکن مجھے پھر بھی بدنام کرنے کی کوشش کی گئی، دہشت گردی سے جوڑنے کی ناپاک کوشش کی گئی، مجھ پر سب وشتم کے تیر برسائے گئے، مجھے بند کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، آئے دن مجھ پر نت نئے الزامات واتہامات لگائے جارہے ہیں، اصلی دارالعلوم دیوبند اور نقلی دارالعلوم دیوبند کا شوشہ چھوڑ کر امت کو تقسیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؛ لیکن میں ان سب باتوں سے دور رہ کر اپنے مشن پر گامزن ہوں؛ کیوں کہ میری بنیاد ہی اس لیے رکھی گئی تھی کہ میں ہندوستانی مسلمانوں کی سربراہی کروں، میرے فرزند جس طرح سابق میں کوئی شیخ الہند بنا، کوئی شیخ الاسلام بنا، کوئی خطیب الاسلام بنا، کوئی مفکر ا سلام بنا، کوئی محدث وقت بنا، کوئی علامہ بنا، کوئی مبلغ اسلام بنا، اسی طرح آج بھی عظیم محدث مفتی ابوالقاسم نعمانی، مرد دانا مولانا سید ارشد مدنی، شیخ الحدیث مفتی سعید احمد پالنپوری، امیر المومنین فی الحدیث قاری محمد عثمان منصورپوری، بحرالعلوم علامہ نعمت اللہ اعظمی ، فن حدیث کے امام مولانا حبیب الرحمن اعظمی، حکیم محمد احمد فیض آبادی، تصوف کے امام علامہ قمر گورکھپوری ، مسجد رشید کے معمار مولانا عبدالخالق مدراسی، بہترین ادیب وانشاپرداز مولانا عبد الخالق سنبھلی، جامع المعقول والمنقول مولانا مجیب اللہ گونڈوی، مفسر قرآن مولانا شوکت علی بستوی، امام المنطق و الفلسفہ مفتی خورشید انور گیاوی، ادیب العصر مولانا نور عالم خلیل امینی، ترجمان دارالعلوم مفتی امین پالنپوری وغیرہ پر دنیا ناز کرتی ہے اور انہیں اپنا قائد ورہبر تسلیم کرتے ہوئے اپنی جبین نیاز خم کرتی ہے۔ اور ان شاء اللہ جب تک میں ہوں اسی فکر ولی اللہی پر گامزن رہتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کے عقائد کی حفاظت، اخلاق وکردارکو سنبھالنے، قومی دھارے سے جوڑنے اور محب وطن شہری بنانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔