Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 31, 2019

بریلی کے بازار میں ......24 ویں قسط۔

*بریلی کے بازار میں*
قسط (24)
✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
========================
*حسام الحرمین کیا ہے؟*
حسام الحرمین بانئ بریلویت کی اہم ترین تصنیف مانی جاتی ہے۔ بریلوی حلقے میں اس کی اہمیت کسی آسمانی کتاب سے کم نہیں۔ اسے سمجھنا ہو تو ایک تازہ مراسلے سے اندازہ لگا سکتے ہیں، یہ مراسلہ اسی جولائی 2019 کا ہے، جسے مجلسِ علمائے اسلام مغربی بنگال کی طرف سے جاری کیا گیا ہے ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے بعض ذمے داروں کی طرف سے ملی اتحاد کی دعوت اور عملی کوششوں کے جواب میں دو صفحات پر مشتمل جو مایوس کن مراسلہ نشر کیا گیا ہے، اس کا ابتدائیہ ملاحظہ فرمائیں:
*الحمدللہ مجلسِ علمائے اسلام مغربی بنگال جماعتِ اہلِ سنت کی ایک ملی،  سماجی اور مذہبی تنظیم ہے۔ ترجمانِ مسلکِ اعلیٰ حضرت اور مبلغِ فکرِ تاج الشریعہ ہے۔ اس تنظیم کے تمام ممبران کے عقائد و نظریات گستاخانِ رسول: یعنی دیوبندی، وہابی، مودودی، قادیانی، رافضی وغیرہ کے تعلق سے وہی ہیں، جن کی صراحتیں حسام الحرمین میں موجود ہیں* ۔
دارالعلوم اشرفیہ مبارک پور نے اپنا دستورِ اساسی شائع کیا تو *سنی* ہونے کی علامت اس طرح بیان کی:
*کتابِ مستطاب: حسام الحرمین مصنفہ اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کو حرف بہ حرف مانتا ہو* ۔ (دستورِ اساسی، ص 3)
رضاخانیوں کی ملی تنظیم: آل انڈیا سنی تبلیغی جماعت نے اپنا دستورِ اساسی طبع کیا تو اس کے صفحہ 12 پر *سنی* ہونے کی نشانی اس طرح قلم بند کی گئی:
*سنی سے مراد وہ افراد ہیں جو مسلکِ اعلی حضرت سیدنا امام احمد رضا رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور فتاویٰ حسام الحرمین سے کلیۃً متفق ہو کر اس کی عملاً تائید و حمایت کرتے ہوں* ۔
*حسام الحرمین کی مختصر تاریخ*
یہ بات میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ خان صاحب علمائے امت کے خلاف اگرچہ اوٹ پٹانگ تبصرے مسلسل کیے جا رہے تھے اور علمائے ندوہ کے خلاف تو گویا معرکہ آرا ہی تھے، مگر تفسیق و تفجیر سے آگے کبھی نہیں بڑھے تھے۔ 1320 میں لکھی کتاب: المعتمد المستند ان کی وہ پہلی قلمی کاوش ہے، جس میں انہوں نے علمائے دیوبند کی چنیدہ شخصیات پر باقاعدہ کفر کے فتوے داغے۔ لیکن خان صاحب کی حیثیت ابھی ایسی نہ ہوئی تھی کہ عوام ان کے دامِ فریب میں آ جائیں۔ ان کا فتوئ تکفیر *پھس* ہو کر رہ گیا۔ اپنے دستی بم کا یہ حشر دیکھا تو اب علمائے حرمین شریفین کے کندھوں کا سہارا لینے کے لیے حجازِ مقدس پہونچ گئے ۔ یہ 1325ھ، 1906 کا دور تھا۔
*اکابرِ دیوبند پر جھوٹے الزامات*
بانئ بریلویت نے حجاز کا یہ سفر حج کے عنوان سے کیا اور اندر اندر علمائے دیوبند کے خلاف میدان سازی میں سرگرم رہے۔ اکابرِ دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی، حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی  کی کتابوں سے عبارتیں کتربیونت کے ساتھ نقل کیں اور انہیں حرمین شریفین کے علما کے سامنے بطور استفتا پیش کیا۔ استفتا نامہ کچھ اس دجل و تلبیس اور مکر و فریب کے ساتھ تیار کیا گیا تھا کہ علمائے حرمین دھوکہ کھا گئے اور انہوں نے اکابرِ دیوبند پر کفر کا فتویٰ لگا دیا۔ علمائے حق فتویٰ دیتے وقت بڑی احتیاط سے کام لیتے ہیں۔ خان صاحب کے گرما گرم استفتا نامے پر انہوں نے فتویٰ تو دیا، مگر شرط لگا کر۔ ایک نمونہ آپ بھی دیکھیے:
*من قال بھذہ الاقوال معتقداً لھا کما ھی مبسوط فی ھذہ الرسالۃ انہ من الکفرۃ من الضالین*
یعنی جو شخص ان باتوں کا قائل ہو، اور جس تفصیل سے اس رسالہ میں لکھا ہے، اسی تفصیل سے اعتقاد رکھتا ہو وہ بلاشبہ کافر و گمراہ ہے۔ (حسام الحرمین، تقریظ، ص 2) ۔
فتوے پر جن علمائے حرمین نے دستخط کیا تھا ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:
مولانا تاج الدین، مولانا الیاس، شیخ محمد سعید، سید عباس رضوان، شیخ عمر حمدان، شیخ محمد عمری، سید احمد جزائری وغیرہم۔
خان صاحب فتویٰ لے کر ہندوستان آ گئے اور اسے *حسام الحرمین* کے نام سے اردو ترجمے کے ساتھ چھاپ دیا تو ایک شور مچ گیا۔ علمائے حرمین کو اندیشہ پہلے سے ہی تھا کہ خان صاحب نے ان کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ حسام الحرمین چھپ کر آئی اور ایک ہنگامے کی شکل بن گئی تو انہیں علمائے حرمین نے چند سوالات لکھ کر علمائے دیوبند کی خدمت میں بھیجے کہ آپ ان کا تفصیلی جواب لکھیں، چناں چہ حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے جوابات لکھے اور علمائے دیوبند کی تصدیقات کے ساتھ حرمین شریفین کے علما کی خدمت میں انہیں روانہ کیا۔ انہوں نے جوابات پڑھے تو بڑے اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ خان صاحب نے ہمیں اندھیرے میں رکھا تھا، علمائے دیوبند کے عقائد تو اہلِ سنت و الجماعت کے مطابق ہیں اور حسام الحرمین پر اپنے فتوے سے رجوع کرتے ہوئے علمائے دیوبند کے جوابات پر اپنے تائیدی دستخط بھی کیے ۔ یہ جوابات *التصدیقات لدفع التلبیسات* کے نام سے چھپے۔ یہی کتاب *المہند علی المفند* اور اردو میں *عقائد علمائے دیوبند* کے نام سے مسلسل چھپ رہی ہے۔
*خان صاحب گرفتاری سے بال بال بچے*
حسام الحرمین کی فائل لے کر خان صاحب حجاز پہونچنے کو تو پہونچ گئے، مگر ان کا فراڈ بعض علما پر اسی وقت کھل گیا۔ حالات ایسے خراب ہوئے کہ ان کی گرفتاری بھی ہو سکتی تھی، مگر مولانا منور علی رامپوری اور ان کے ساتھی کی کوششوں سے بچ گئے، تاہم مکہ سے ان کا اخراج تو کر ہی دیا گیا۔ اس سلسلے کی تفصیلات کے لیے *مطالعۂ بریلویت* کی طرف رجوع کیجیے۔
[اگلی اور آخری قسط میں پڑھیں: دیوبندیوں کو چوبیس نمبر اور بریلویوں کو چھبیس نمبر کیوں کہا جاتا ہے؟ ]