Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 31, 2019

جمو کشمیر میں دس ہزار اضافی فوجی دستہ کی تعیناتی۔۔۔۔۔۔اسمبلی الیکشن کی تیاری یا دفعہ 35 A پر کارواٸی۔؟؟؟

: اداریہ۔۔۔صداٸے وقت۔
=======================
سورش زدہ ہندوستانی ریاست جمو کشمیر میں تقریباً ٨ لاکھ فوجی و نیم فوجی دستہ پہلے سے ہی تیار ہے مگر اب بی جے پی کی مرکزی حکومت نے مزید دس ہزار فوجی /نیم فوجی دستہ مزید بھیجنا شروع کردیا ہے. ان مزید دستوں کی کیونکر ضرورت آن پڑی جبکہ وہاں پر پہلے سے ہی بہت زیادہ فوجی و نیم فوجی دستے تیار ہیں۔۔اس سلسلے میں دو طرح کی قیاس آراٸیاں لگاٸی جارہی ہیں۔

اول یہ کہ جمو کشمیر میں اسمبلی الیکشن ہوں گے ۔پرامن طریقے سے الیکشن کرانے کے لٸیے مزید فورس کی ضروت ہے کیونکہ موجودہ فورس کا ایک بڑا حصہ دہشت گردوں اور علاحدگی پسند  طاقتوں کو کچلنے میں لگی ہے۔بارڈر پر بھی کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔
بی جے پی نے اپنی مقامی و ریاستی یونٹ کو بھی اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ وہ الیکشن کے لٸیے تیار رہیں۔

دوسرا جو خدشہ و کشمیریوں کے لٸیے تشویس کا باعث ہے وہ دفعہ ٣٥ اے کو ہٹانے کا ہے۔اسی خدشات کے مد نظر کشمیر کی سیاست میں بھونچال سا ہے۔۔سابق وزیر اعلیٰ مفتی محبوبہ و عمر عبد اللہ دونوں کے تیور سخت ہو گٸے ہیں۔فوجیوں کی بڑھتی تعداد کے علاوہ سیاسی مبصرین و سوشل میڈیا کی خبروں کو مانا جاٸے تو ایسا لگتا ہے کہ آٸندہ دنوں میں کشمیر کے حالات مزید خراب ہوں گے ۔ چار ماہ کے لٸیے راشن پانی اکٹھا کر لینے کی بات ہورہی ہے۔سرکاری اہل کاروں ، فوجی و نیم فوجی دستوں سےکہا گیا ہے کہ اپنی فیملی کو ریاست سے باہر بھیج دیں۔
بی جے پی نے پارلیمانی الیکشن کے دوران اپنے منشور میں یہ وعدہ کیا ہے کہ کشمیر سے دفعہ ٣٥ اے اور دفعہ 370 کو ہٹا لیا جاٸے گا۔اسی وجہ سے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے حالانکہ مرکزی سرکار کی جانب سے اس طرح کا کوٸی عندیہ ابھی تک نہیں ملا ہے۔
کشمیر میں دفعہ ٣٥ اے کو 14 مٸی 1954 کو آٸین میں شامل کیا گیا تھا اور یہ ایک صدارتی حکم کے ذریعہ ہوا تھا۔اس کی رو سے کشمیر میں مستقل یا وہاں کے اصلی باشندوں کی شناخت کرنا ہے۔کشمیر کے اصل باشندےہی وہاں پر زمین جاٸداد خرید سکتے ہیں غیر کشمیریوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔اس دفعہ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ وقتی ہے اور اس کو جمو کشمیر اسمبلی کی سفارش یا قرارداد پر ہٹایا جا سکتا ہے۔۔۔اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب جمو کشمیر میں صدر راج نافذ ہے وہاں کی اسمبلی تحلیل ہے تو پھر ٣٥ اے کو کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔مگر کچھ ماہر قانون کا ماننا ہے کی ٣٥ اے ایک صدارتی فرمان کے ذریعہ  آٸین میں شامل ہوا تھا پارلیمنٹکے ذریعہ قانون نہیں بنایا گیا تھا لہذا اس کو صدارتی فرمان کے ذریعہ معطل کیا جا سکتا ہے۔
بحر حال کشمیر اور کشمیریوں کے حالات کو لیکر ملک میں بڑی  چہ میگوٸیاں ہیں اگلے کچھ دنوں میں حالات صاف ہوسکتے ہیں کہ مرکزی حکمت کی منشإ کیا ہے ۔۔۔اسمبلی الیکشن یا دفع ٣٥ اے۔
ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔