Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 16, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔١٩ ویں قسط۔


✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*فرقۂ نیازیہ کے خط و خال*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بریلی میں جن فرقوں کو مضبوطی حاصل ہے، ان میں فرقۂ نیازیہ بھی شامل ہے۔ یہ فرقہ مداریہ کے بعد، بلکہ بہت بعد وجود میں آیا۔ بریلی میں اسے بڑا اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی اپنی ایک وسیع و عریض درگاہ ہے جو کم و بیش 15 بیگھے پر پھیلی ہوئی ہے۔ یہاں آنے جانے والوں کی کوئی کمی نہیں۔ ماضی قریب کے مشہور شاعر بہزاد لکھنوی اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔ 

*فرقۂ نیازیہ کا بانی کون تھا؟*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فرقۂ نیازیہ نیاز احمد کی طرف منسوب ہے ۔ یہ 12  ویں صدی ہجری کی متعارف شخصیت ہیں۔ اصل نام راز احمد ہے۔ شاہ نیاز بے نیاز کے لقب سے شہرت رکھتے ہیں۔ 1173 میں پنجاب کے سرہند میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد رحمت اللہ علوی بھی سلسلۂ نقش بندیہ میں خلافت یافتہ تھے اور پیری مریدی بھی کرتے تھے۔ نیاز احمد ابھی بچپن کے دور میں تھے کہ ان کے گھر والے دہلی منتقل ہوگئے ۔ نیازیہ روایات کے مطابق: یہ وہ زمانہ تھا جب شاہ فخرالدین محمد دہلوی مسندِ ارشاد پر فائز تھے۔ یہ بہادر شاہ ظفر کے باپ دادا کے پیر و مرشد بھی تھے۔ بہادر شاہ ظفر اپنے بچپن میں ان کے پاس آیا بھی کرتے تھے۔ شاہ نصیر الدین احمد دہلوی انہیں کے پوتے ہیں۔ نیاز احمد کی تعلیم و تربیت انہیں فخرالدین کی آغوش میں ہوئی۔ انہیں کے ہاتھ پر بیعت کی اور انہیں سے خلافت پائی۔
*بیعت کی ایک نئی اصطلاح: بیعتِ طالبی*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نیاز احمد صاحب نے فخرالدین صاحب کے ہاتھ پر بیعت تو کی، مگر انوکھے انداز کی۔ بیعت کی اس جدید طرز کو آپ بھی سنیے، نیازی قلم کار لکھتا ہے:
*آپ کی والدہ ماجدہ کی استدعا پر حضرت مولانا فخرالدین جہاں نے آپ کو اپنی تربیت میں لے لیا، لیکن بیعت نہیں کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ کی بسم اللہ کے وقت آپ کے نانا مولانا سعید الدین رضوی نے آپ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا تھا اور حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں آپ کے نانا رضوی کا بہت احترام کرتے تھے۔
آپ نے جب بیعت ہونا چاہا اور بہت اصرار کیا تو حضرت مولانا فخر الدین فخر جہاں نے آپ کو اس طرح بیعت کیا کہ ہاتھ پر ہاتھ نہیں رکھا، بلکہ اپنا دامن پکڑا کر بیعت فرمایا اور اس کا نام بیعتِ طالبی رکھا*
خلافت ملی تو اپنے پیر و مرشد کے حکم سے بریلی کے محلہ خواجہ قطب کو اپنے مشن کا مرکز بنایا ۔ یہی مرکز آج خانقاہ نیازیہ ہے۔ پچانوے برس کی عمر پا کر یہیں مدفون ہوئے۔ 1250 ھ سالِ وفات ہے ۔
*شعر و شاعری*
جناب نیاز احمد اردو اور فارسی کے بہترین اور بلند پایہ شاعر تھے۔ دونوں زبانوں میں ان کا ایک ایک دیوان بھی ہے۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ زبانوں پر ان کی گرفت گہری تھی۔ ان کی شعر گوئی کے چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
اگرچہ میں سیرِ بتاں دیکھتا ہوں
ولے جلوۂ حق عیاں دیکھتا ہوں
یہ جو کچھ کہ پیدا ہے سب عینِ حق ہے
کہ اک بحرِ ہستی رواں دیکھتا ہوں
ازل سے ابد تک جو کثرت ہے پیدا
میں وحدت کا دریا عیاں دیکھتا ہوں
*بانئ نیازیہ کی تعلیمات*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
فرقۂ نیازیہ کے بانی جناب نیاز احمد کی تعلیمات عجیب البیلی ہیں۔ بات سیدھی سادی نہیں، گھما کے کہتے ہیں۔ اسی مضمون نگار نے *تعلیمات* کے عنوان سے اس طرح لکھا ہے:
*ایک مرتبہ جناب مولوی اکبر علی بریلی آئے اور آپ سے چند باتیں دریافت کیں۔ ان کے سوالات اور آپ کے ہر سوال کا جواب حسبِ ذیل ہے:*
*پہلا سوال: سماع کے متعلق آپ کا کیا حکم ہے؟
جواب: ڈھولک کی آواز  ایسی کان میں پڑی ہے کہ دوسری کوئی آواز سنائی نہیں دیتی* ۔
*دوسرا سوال: تعزیہ کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب: اگر بنا نہیں ہوگا تو میں اجازت بنانے کی نہیں دوں گا، اس واسطے کہ کماحقہ اس کی تعظیم نہ ہو سکے گی۔ اور جو بن گیا ہوگا، جتنا ممکن ہوگا تعظیم کروں گا* ۔
*سوال: یزید کے لعن کے متعلق کیا خیال ہے؟
جواب: آج تک اللہ تعالیٰ نے میری زبان کو اس نامِ خبیث سے بچایا ہے، میری رائے میں یہ نام ایک مرتبہ میری زبان سے نکل جائے، دن بھر زبان کی نجاست نہیں جاتی۔ میں تو لعن یا غیر لعن اس کا نام ہی نہیں لیتا۔ اتنی دیر حسین حسین کیوں نہ کہوں کہ قلب کو نورِ ایمان سے ترقی ہو* ۔
*بانئ نیازیہ کی محیر العقول کرامات*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نیازی فرقے کا یہی مضمون نگار لکھتا ہے:
*ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ بریلی میں آگ لگی، بہت سے مکان جل کر خاک ہو گئے۔ آگ پھیلتے پھیلتے محلہ قطب میں نمودار ہوئی، اس وقت آپ کے بڑے صاحب زادے حضرت شاہ نظام الدین حسین آپ کے پاس گھبرائے ہوئے پہونچے اور آپ کو آگ لگنے کی اطلاع دی۔ دوپہر کا وقت تھا، آپ آرام فرما رہے تھے ۔ آپ بغیر کرتہ پہنے ویسے ہی باہر تشریف لائے ۔ آپ نے دیکھا کہ امیر علی خاں رسالدار کے سائیس گھوڑوں کو، جو چھپر میں بندھے ہوئے تھے، نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔ رسالدار نے جب آپ کو دیکھا، جان میں جان آئی ۔ انہوں نے اپنے سائیسوں سے کہا کہ گھوڑوں کو نکالنے کی کوشش مت کرو، اگر بچانا ہوگا تو حضرت خود بچا لیں گے، ورنہ حضرت کے سامنے ان کو جلنے دو۔ آپ نے نظر اٹھائی، آگ کا رخ بدل گیا۔ چھپر کا ایک کونہ جلنے پایا تھا کہ وہ بھی خود بخود بجھ گیا۔ دوسرے دن آپ کے صاحب زادے حضرت شاہ نظام الدین حسین نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا پڑھ کر پھونکا تھا کہ آگ یکدم بجھ گئی؟ آپ نے فرمایا کہ: پڑھنا کیا تھا، سمندر بن کر ایک چھینٹا مارا، فوراً بجھ گئی۔*
*مرنے کے بعد بیعت کر لیا*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔۔ ۔ ۔
بدعتی فرقے کرامات اور خواب ہی سہارے آگے بڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جو بندہ جس درجے کا بدعتی ہوگا اس کی کرامات اور منامات کی وسعت تا حدِ نگاہ پھیلی ہوئی ہوگی۔ کرامات ہمارے یہاں بھی ہیں، مگر کم، اور وہ بھی جلبِ منفعت کے لیے نہیں، بلکہ دفعِ مضرت کے لیے، جب کہ بدعتی فرقوں کے یہاں یہی معیارِ ولایت ہیں۔ اور کرامات بھی ایسی ایسی کہ آدمی سن کر سن ہو جائے۔ نیاز احمد کی ایسی ہی ایک کرامت کا یہ واقعہ سن لیجیے:
 
*ایک ولایتی کابل سے آپ سے بیعت کی غرض سے بریلی آیا۔ شہر سے باہر دریا کے کنارے اس ولایتی کی ایک شخص سے ملاقات ہوئی، باتوں باتوں میں اس ولایتی نے اپنے آنے کی وجہ ظاہر کی۔ اس شخص نے یہ سن کر کہا کہ: جس شخص کے پاس تم جاتے ہو وہ نیاز احمد میں ہی ہوں۔
وہ شخص وہیں بیعت سے مشرف ہوا۔ پھر اس شخص نے فرمایا کہ تم خانقاہ چلو، میں بھی وہیں آتا ہوں ۔ وہ شخص جب خانقاہ میں آیا تو دیکھا کہ آپ کی سوم کی فاتحہ ہو رہی ہے۔ اب اس شخص کو معلوم ہوا کہ آپ نے اس کو وصال کے بعد بیعت کیا* ۔
*خانقاہ نیازیہ میں غیر مسلموں کا ہجوم*
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خانقاہ نیازیہ بریلی کی اہم خوانق میں سے ایک ہے۔ یہاں اہلِ بدعات کا ہر وقت میلہ لگا رہتا ہے۔ 19 اپریل کو خوب چراغاں ہوتا ہے۔ چراغاں والے دنوں میں تو اتنے چراغ جلتے ہیں کہ دیوالی میں بھی اتنے نہیں جلتے ہوں گے۔ عربی فارسی نام والوں کے علاوہ سکھ اور ہنود وغیرہ بھی وہاں جاتے ہیں۔ چراغاں کرتے ہیں۔ منتیں مانتے ہیں۔ مرادیں پیش کرتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ یہاں سے سارا کام بن جائے گا۔ سنیے اردو پوائنٹ اخبار کی یہ رپورٹ:
*بھارت کے شہر بریلی میں واقع درگاہ خانقاہ نیازیہ میں جشنِ چراغاں منایا گیا، جس میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی تمام مذاہب کے ماننے والوں نے پوری عقیدت اور احترام کے ساتھ شرکت کی ۔ دور دراز سے عقیدت مند جشنِ چراغاں میں شرکت کے لیے درگاہ پہونچے جہاں انہوں نے سرِ شام منت کے چراغ جلائے۔ عقیدت مندوں کا ماننا ہے کہ جشنِ چراغاں کے موقعے پر یہاں چراغ جلانے سے ایک سال کے اندر اندر ان کی دلی مراد پوری ہو جائے گی۔ درگاہ کے متولیین کا کہنا ہے کہ جشنِ چراغاں بین المذاہب ہم آہنگی کا خوب صورت نمونہ ہے اور بتاتا ہے کہ اسلام امن و آشتی کا حقیقی پیغام بر ہے* ۔
درگاہ کے ذمے دار اس وقت شبو میاں اور مہدی میاں وغیرہ ہیں۔ یہ انہیں نیاز احمد کے خاندان سے ہیں۔ لنگروں، رسومات، بدعات اور چراغاں کے درمیان ان کے دن بڑے عیش میں گزر رہے ہیں۔
(مزید تفصیلات کے لیے ‌‌"بریلی کے بازار میں‌‌"کی طباعت کا انتظار کیجیے )
[اگلی قسط میں پڑھیں: فرقۂ عطاریہ اور اس کے حیرت انگیز عقائد و مسائل]