Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 5, 2019

مظلوم مسلمان ہی مجرم ٹھرے!!!!


تجزیہ/ خبر:/ نازش ہما قاسمی/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اترپردیش کے دوشہروں میرٹھ اور آگرہ سے مسلمانوں کی بے جا گرفتاریوں کی خبریں آرہی ہیں۔ اور یہ گرفتاری کیوں ہورہی ہیں،اس لیے کہ دونوں جگہ مسلمان ماب لنچنگ کے خلاف احتجاج کررہے تھے۔ اپنے اوپر ہورہے مظالم کے خلاف حکومت وقت سے انصاف طلب کررہے تھے کہ ہمیں کیوں مارا جارہا ہے، ہمیں مارنے پیٹنے کا سلسلہ بند کیاجائے۔۔۔لیکن ان مظلومین کو انصاف دینے کے بجائے انہیں اب گرفتار کیاجارہا ہے۔کیا اب ظلم کے خلاف آواز اُٹھانا غلط ہے؟ کیا حکومت وقت سے انصاف طلب کرنا غلط ہے؟  مسلمانوں کی بے جا گرفتاریوں سے تو ایسا ہی لگ رہا ہے کہ اب مسلمان یہاں صرف ظلم سہے گا، ظلم کے خلاف آواز نہیں اْٹھا سکتا۔ صرف مرے گا، لاشیں گنے گا؛لیکن لاشوں کے گرنے پر احتجاج نہیں کرسکتا۔ دوسرے درجے کا شہری بن کر رہے گا اپنے حقوق کی لڑائی نہیں لڑسکتا۔ کیوں کہ اب ملک میں جمہوریت نہیں رہی۔جہاں جمہوریت ہے وہاں احتجاج ومظاہرہ جمہوری حق ہے۔ کیا یہ گرفتاری اس لیے نہیں ہورہی ہے کہ مسلمانوں میں بزدلی پیدا ہوجائے اور وہ ظلم کے خلاف اْٹھنے کے لیے سو بار سوچے۔حالانکہ مسلمان پورے ملک میں امن وامان سے اپنے مطالبات رکھ رہے تھے،خاموش احتجاج کررہے تھے، دعائیہ تقریب کرکے شہداء کے بلندی درجات کے طالب تھے۔ لیکن انہیں گرفتار کیاجارہا ہے۔ اگر مسلمان مراٹھوں کی طرح، جاٹوں کی طرح پرتشدد مظاہرہ کرتے، املاک جلادیتے، دکانیں نذرآتش کردیتے، پولس پر حملہ آور ہوتے، مبادا مسلمانوں کی طرف سے سنگ بازی کی جاتی تب اگر ان کے خلاف گرفتاریوں کا سلسلہ چلتا تو ہم بھی کہتے کہ ہاں انہوں نے غلط کیا ہے ، وہ مجرم ہیں، انہیں سزا دی جائے، گرفتار کرکے سبق سکھایاجائے انہوں نے ملک کو نقصان پہنچایا ہے۔انہوں نے ملک کے دیگر شہریوں کی املاک کو جلایا ہے۔ عوام کے محافظ پولس پر حملہ آور ہوئے ہیں؛ لیکن یہاں تو ایسا کچھ بھی نہیں ۔وہ صرف انصاف کے طلب گار تھے، اپنے اوپر ہورہے ظلم کے خلاف غم وغصے کا اظہار انتہائی پرامن طور پر کررہے تھے لیکن زد پر لیے جارہے ہیں۔مظلوم مسلمان ہی مجرم قرار دئیے جارہے ہیں۔ ان کے اندر خوف و دہشت پیدا کیا جارہا ہے۔ تاکہ وہ اب پرامن احتجاج کرنے کے لائق بھی نہ رہیں۔ 

انہیں یہ خوف دامن گیر رہے کہ اگر ہم ظلم کے خلاف اُٹھیں گے تو ہماری گرفتاری ہوگی، ہمارے گھروں میں ماتم پسرے گا،اس لیے اب جو مرررہا ہے مرے۔ہم آواز نہیں اْٹھائیں گے۔ اگر اْٹھائیں گے گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑے گا، جیلیں ہم سے آباد کی جائیں گی۔
یہاں پر مسلم قائدین کا بھی رول مصلحت پسندانہ ہے۔ مسلمان  قائدین سے نفرت کا جواب نفرت سے دینے کے لیے نہیں کہہ رہے وہ تو بس اتنا چاہتے ہیں کہ ان پر جو ظلم وستم ہورہا ہے اس ظلم کو روکا جائے ، قائدین کھل کر میدان میں آئیں اور حکومت وقت سے مطالبہ کریں کہ اب بس ظلم کی انتہا ہوگئی ، ہم اب ظلم نہیں سہنے والے ہیں۔ ہم ظلم کے خلاف متحد ہوکر اْٹھ کھڑے ہوئے ہیں اگر ہمیں مارا جائے گا تو ہم خاموش نہیں رہیں گے ہم اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے آئین و قانون کی رو سے اپنا دفاع کریں گے اور ظلم کرنے والے ظالموں کے ہاتھ کو توڑ دیں گے تو پھر دیکھیں! ان کے اس اعلان کے بعد کس طرح مسلمانوں پر ہورہے ظلم کا خاتمہ ہوتا ہے۔کس طرح گئو رکشک دہشت گردوں پر لگام کسی جاتی ہے، کس طرح زر خرید ہجومی تشدد کو کنٹرول میں کیاجاتا ہے۔ لیکن شاید وہ متحد نہ ہوں اور ہورہے ظلم وستم کے خلاف نہ اْٹھیں۔ وہ شاید لاشوں کے گرنے کے سلسلے کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کی قیادت باقی رہے۔لیکن ہوسکتا ہے لاشوں کے گرنے، ہجومی تشدد میں مرنے کا سلسلہ ان تک بھی پہنچے اور قائد کی آواز پر کوئی لبیک کہنے والا موجود نہ ہو اور قائد بھی زد پر آکر قیادت کا خاتمہ کربیٹھے۔بی جے پی اور اس کی سربراہ ذیلی تنظیم کی یہی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کو بے دست و پاکر دیا جائے ۔اب سوال یہ ہے کہ اگر بی جے پی یہی سب کچھ کرنا چاہتی ہے تو پھر ایوان میں اکثریت کی موجودگی میں اس کا اعلان کردے کہ یہ وہ ملک ہے جس کے لئے ہم نے سوسال سے ’’تپسیا ‘‘ کیا ہے۔