Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 22, 2019

پھر تمہارا رخت سفر یاد آیا۔۔۔

*پھر تمہارا رختِ سفر یاد آیا*
*دل سے دل تک.
*ارقم امیر سندھی*/صداٸے وقت۔
=========================
دل کی سلطنت وسیع اور مضبوط ہوا کرتی ہے۔ وہ چھوٹے موٹے حادثات و واقعات کو خاطر میں نہیں لایا کرتی۔ مگر کبھی کبھار دلِ شاد کی حکومت پر مصیبت والم، کرب وغم کے وہ حملے ہوتے ہیں کہ جس کے تصور ہی سے دل مضطرب کانپ اٹھتاہے اور دل کی دنیا تہ وبالا ہوجاتی ہے۔ وہ حادثات وواقعات اکثر اتنا بڑا زخم اور گہرا گھاؤ دے جاتے ہیں جو گزرتے وقت کے ساتھ ہرا اور گہرا ہوتا رہتا ہے۔ یا اللہ امان یا اللہ امان یا اللہ امان
تین سال قبل ایک ہی سال کے قلیل عرصے میں وہ قیامت برپا ہوئی جس نے ہمارے لوگوں کو اندر سے توڑ کر رکھ دیا۔ یہ بات درست ہے کہ اس کالی قیامت کو کئی سال گزر گئے ہیں۔ مگر وہ ابھی بھی کل کا واقعہ لگتی ہے۔ نوجوان عالم دین مفتی ضیاء الحق القاسمی رحمہ اللہ  کا رخت سفر، مولانا آدم، مولانا ابراہیم اور مولانا ارشد رحمہم اللہ کی رحلت۔ مدرسہ نورالاسلام کا سقوط۔ یہ وہ حادثات ہیں جن پر لکھنا میرے لیے بہت 
ہی مشکل ہے۔

آ عندلیب مل کے کریں آہ وزاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل
مفتی رحمہ اللہ کی وفات کو کافی عرصہ ہوچکاہے۔ بیسیوں بار میں قلم اور کاپی لیکر بیٹھا، مگر یادوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلہ میں گم ہوجاتا۔ ایک بھی لفظ لکھے بغیر قلم پھینک دیتا۔ یہ کیوں نہ ہوتا!!! ہم نے ایک گاؤں میں آنکھیں کھولی وہ مجھ سے صرف پچیس دن بڑے تھے۔ وہ میرے ننہال میں سے تھے اور ہم ایک ہی شاخ سے ہیں۔ رشتے میں وہ میرے بھتیجے تھے۔ ہم مکتب مین اکھٹے پڑھتے تھے۔ جب میں ماضی میں جھانک کر دیکھتاہوں تو یہ سب کل پرسوں کے قصے و واقعات لگتے ہیں۔ ارے! دیکھیں تو سہی وہ اک معصوم، پیارہ مگر وجیہ اور ذی شان بچہ یسرناالقرآن اٹھائے ہوئے ہے۔ آہ افسوس ہم میں سے کسے یہ خبر تھی یہ ہردل عزیز اور سب کی آنکھوں کا تارا داغِ مفارقت دے جائے گا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
ہائے وہ لوگ خوبصورت لوگ
جن کی دھن میں حیات گزری ہے
آپ 26جنوری 1990 کو پیدا ہوئے، آپ کا نام آپ کے والد محترم (معروف عالم دین)  مولانا اکبر الامینی نے اپنے استاذ کے نام پر رکھا۔ تعلیمی زندگی کی ابتدا گاؤں کے مکتب سے ہوئی، دارالعلوم سے فراغت کے بعد افتاء کے لیے گجرات تشریف لے گئے۔ پھر آپ کا بطور معلم و منتظم جامع العلوم سوتلہ میں تقرر ہوا۔ آپ نے تدریسی زندگی کے اس مختصر سفر میں نمایا خدمات انجام دی، محبین جامع العلوم کے لیے اک نئی کرن بن کر ابھرے۔ بطور معلم آپ نے تعلیم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ بطور منتظم کے ضیاء العلوم جو کہ ابتدائی مراحل میں تھا اس کو گھنے سایہ دار درخت کی حیثیت عطا کی۔ ایسا لگتا ہے کہ باری تعالی نے آپ ان اداروں میں بیداری وترقی کی روح پھونکنے کے لیے بھیجا تھا۔ آپ نے اپنا کام جلدی سے نمٹایا اور خالق حقیقی سے جاملے۔
دراز قامت، گول بارعب اور وجیہ چہرا، اپنائیت بھری آنکھیں، قامت کے متوازن جسم، گھنی داڑھی، پختہ رنگ اورپرکشش نقوش نے انہیں ہر دل عزیز بنادیا تھا۔ بے مثال اخوت ومحبت، اپنوں وبےگانوں خلوص وفا نے انہیں مقبول عام و خاص بنادیا تھا۔ آپ ان کے کسی جاننے والے کو دیکھ لیں ہر کوئی اُن سے پاگلوں کی طرح محبت کرتا ہے۔ میں ایسے کئی افراد کو جانتاہوں جن سے اکثر کی نہیں بنتی، مرحوم سے نہ صرف بنتی تھی بلکہ گاڑھی چھنتی تھی۔ یہی وجہ ہیکہ ان کی رحلت پر اپنے بیگانے سب ماتم کناں ہیں۔جانے والا تو چلا گیا، مگر ہزاروں آنکھیں بھگوکر گیا، ان کے مرقد پر جب جب بھی کوئی حاضر ہوتا ہے، آنسؤں کا خراج اور آہوں کا نظرانہ دیئے بغیر نہیں لوٹتا، بس ان کی یادیں، باتیں اور مسکراہٹیں باقی جو کبھی ہنساتی مگر اکثر رلاتی ہیں۔
یہ بہار کی سبھی رونقین میرے دل کو اب جچتی نہیں
تو چلا گیا تو خزاں کو میں نے اپنا بنا لیا فقط
آپ کے خلوص اپنائیت کا ہر وہ بندہ گواہ وشاہد ہے، جس نے زندگی کا کوئی لمحہ آپ کے ساتھ گزارا ہو۔ میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب مرکز اسلامی انکلشور میں افتاء میں داخلہ لیا، وہاں اکثر طلبہ اور اساتذہ تعارف کے بعد مفتی صاحب کے حال احوال پوچھتے، انہیں بتایا کہ میں ان کا قریبی رشتے دار ہوں، پھر وہ شروع ہوجاتے آپ کی تعریف وتوصیف میں۔ اسی طرح موریہ پھلودی میں مسابقے کے موقع پر مرحوم مفتی رحمہ اللہ تشریف لے آئے تھے، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حضرت اقدس مولانا رئیس حفظہ اللہ  جیسا تیز وتند مزاج آدمی آپ سے باتیں کرتے ہوئے مٹھاس، اپنائئت سے محظوظ ہوکر مسکرائے جارہے تھا۔ پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگے امیر! اس پٹھان کی طرح بنو۔ 15جولائی 2016 کو یہ علم وعرفاں کا کوہ گراں، محبت و مودت کا ابر کرم اور خلوص وفا کا بدر منیر اچانک غروب ہوگیا۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔
آپ کے ان تمام کمالات و خصوصیات، علم میں پختگی، اخلاق وعادت میں اسلامی رنگ  کے پیچھے بھی کسی کی محنت جد و جہد کار فرما تھی، ان کا تذکرہ نہ کرنا بھی نا انصافی ہوگی۔ آپ کے والد محترم مولانا اکبر حفظہ اللہ کی خاص تربیت و توجہات کا یہ سب ثمرہ تھا۔ ہر کوئی انگشت بدنداں ہے کہ کڑیل جواں سال بیٹے کی جدائی کا دکھ اور غم سہنا کسی قیامت سے کم نہیں ہے۔ خدا کی قسم یہ الم کسی پہاڑ پر گزرتا تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہوتا مگر حضرت مولانا نے اس موقع پر جو صبر و ضبط، استقامت و عزیمت کی مثال پیش کی یہ انہیں جیسے مضبوط لوگوں کا کام ہے۔ اللہ تعالی مرحوم کے درجات بلند فرمائے، پس ماندگان کو صبر جمیل عنایت فرمائے۔ آمین
الهم لاتحرمنا اجره ولا تفتنا بعده
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=873842716314977&id=100010677703369