Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 17, 2019

حج کی فرضیت و اہمیت تایخ کی روشنی میں ! !


از قلم: عبداللہ المھیمن آسام
متعلم: دارالعلوم وقف دیوبند
========صداٸے وقت=========
حج کی لغوی تعریف: لفظ حج باب حج یحج (نصر) سے مصدر ہے اس کا معنی قصد کرنا وارادہ کرنا ہے۔ القاموس المحیط،ص ۱۶۷
حج کی شرعی تعریف: مخصوص افعال کی ادائیگی کے لیے مسجد حرام کی طرف قصد کرنا حج کہلاتا ہے، اور ایک دوسرے قول کے مطابق:مخصوص وقت و مخصوص شرط اور مخصوص صفت کے ساتھ بیت اللہ کا ارادہ(قصد) کرنا حج کہلاتا ہے ۔

محترم قارئین کرام: مذہب اسلام دنیا کے تمام مذاہب میں ایک پاکیزہ اور ممتاز مذہب ہے، اور جب ایک انسان اسلام میں داخل ہو جاتاہے، تو چار چیزیں ان کے اوپر لازم ہوجاتی ہیں، ان چار بنیادی ارکان میں سے ایک حج بھی ہے، حج اسلام کا ایک بنیادی رکن و شعار ہے،اس کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ باری تعالی نے اپنے مقدس اور آخری کتاب میں ارشاد فرمایا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلاَمَ دِينًا ۔المائدہ:۳
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:منْ حجَّ فَلَم يرْفُثْ، وَلَم يفْسُقْ، رجَع كَيَومِ ولَدتْهُ أُمُّه: کہ جس شخص نے خانہ کعبہ کا حج کیا اور(دوران حج) فحش گوئی نہ کی، گناہ نہ کیا تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا، جیساکہ اس دن تھا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔
یہ حج صرف ہمارے اوپر ہی نہیں فرض کیا گیا بلکہ ہم سے پہلے بھی لوگ حج کیا کرتے تھے، اسلام میں تاریخ حج انتہائی قدیم ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ تبارک و تعالی کے حکم سے اپنی بیوی ہاجرہ اور اپنے لخت جگر نور نظر بیٹے اسمائیلؑ کو ایک ویران جگہ پر یہ کہہ کر چھوڑ دیا کہ یہی پروردگار عالم کا حکم ہے،اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ دعا کی: رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُواْ الصَّلاَةَ فَاجْعَلْ أَفْئِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِي إِلَيْهِمْ وَارْزُقْهُم مِّنَ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَشْکُرُوْنَ۔
المختصر یہ ہے کہ جب حضرت  ہاجرہ نے اسمائیل ؑ کی پیاس کو دیکھا تو اس نے صفا اور مروہ پہاڑ کے درمیان سات چکر لگایا بالآخر حضرت اسمائیلؑ کی ایڑی زمین پر لگنے سے ایک چشمہ نکلا جس کو آج آب زم زم کہتے ہیں، وہاں پانی دیکھ کر بہت سارے قبائل وہاں زندگی بسر کرنا شروع کردی کچھ دن کے بعد اللہ تعالی کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام و اسمائیل ؑ نے کعبہ کی ازسرنو تعمیر کی جہاں پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے بیت اللہ کی بنیاد رکھی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جس پتھر پر کھڑے ہو کر کعبہ کی تعمیر کیا تھا اس پتھر کو حجر اسود کہا جاتا ہے جو آج بھی بیت اللہ کے پاس موجود ہے، جب بیت اللہ کی تعمیر مکمل ہوگئی تو اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا :وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ:الحج ۲۶  ترجمہ اے نبی آپ لوگوں میں حج کا اعلان کر دیجئے وہ آپ کے پاس آئے پیدل اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کردور دراز راستوں سے۔

مفسرین حضرات کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہاں اے اللہ میں ایسی جگہ پر ہوں جہاں کوئی نہیں ہے تو اللہ تعالی نے فرمایا تم صرف اعلان کرو۔
تب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان کیا، اللہ تبارک و تعالی نے لوگوں کی روح تک پہنچایا جس نے کہا لبیک وہ اپنے زندگی میں حج کریگا اور جس نے نہیں کہا وہ حج نہیں کریگا۔
مذہب اسلام سے پہلے عرب میں بت پرست تھے اور خانہ کعبہ لوگوں کا عبادت گاہ تھا اور لوسال میں ایک مرتبہ طواف بھی کیا کرتے تھے ان لوگوں کا طواف کرنے کا یہ طریقہ تھا کہ وہ لوگ ننگے ہو کر طواف کرتے تھے اور یہ کہتے تھے کہ ہم نے جس کپڑے کو پہن کر گناہ کیا ہم اس کپڑے کو پہن کر کیسے طواف کریں اس لئے وہ لوگ ننگے ہوکر طواف کیا کرتے تھے۔
جب مکہ مکرمہ مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کو پاک کیا جس میں ۳۱۳ بت رکھے ہوئے تھے، اگلے سال حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ مکہ مکرمہ کی زیارت کے لیے روانہ ہوئے اور ۳۰۰ مسلمانوں کی قیادت کی اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حج کا جدید طریقہ سیکھایا اور قدیم طریقہ کو منسوخ کیا، اور یہ اعلان کیا کہ اِس کے بعد کسی بھی کافر کو قدیم طریقہ پر حج کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی،؁۳۲ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کے ایک بڑی جماعت کے ساتھ حج کی اور لوگوں کو حج کرنے کی طریقوں کی تعلیم دی،جو طریقہ آج بھی موجود ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ حج ایک ایسا عمل ہے جس سے دل کی کیفیات میں انقلاب رونما ہوتا ہے، عفو وایثار اور تواضع و اخلاق حمیدہ کی دولت حاصل ہوتی ہے، احساسات کی دنیا تبدیل ہوجاتی ہے،آنکھیں اشکبار ہو جاتی ہیں، اور بدن کے تمام اعضاء و جوارح دنیا ومافیھا سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف مالک حقیقی کی جانب متوجہ ہوجاتے ہیں، جب کوئی خوش نصیب غلاف کعبہ کو محبت و عقیدت میں اپنے ہاتھوں سے تھامے ہوئے اپنے ماضی کی غلطیوں، گناہوں، لغزشوں کی اللہ رب العزت سے معافی کی درخواست پیش کرتا ہے، تو نہ یہ کہ صرف باری تعالی عوض میں انھیں نامہ اعمال سے مٹا دیتا ہے، بلکہ ان کی جگہ نیکیاں لکھ دیتا ہے، اس کے علاوہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا بہت بڑا باہمی رابطہ اور عالمی مواخات کا منظر ہوتا ہے، سبھی کا ایک لباس، ایک زبان اور ایک جیسی کلام:  لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ... لَبَّيْكَ لَا شَرِيْكَ لَكَ لَبَّيْكَ ... إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكُ لَا شَرِيْكَ لَكَ  کا ہر ایک شخص کی زبان پر ورور ہوتا ہے یہ تو چند اہم اور واضح فوائد ہیں، اس کے علاوہ بے شمار منافع ہیں جو کسی سے بھی مخفی نہیں لہذا بارگاہ ایزدی میں دعاگو ہوں کہ اللہ تعالی استطاعت رکھنے والوں کو یہ فریضہ بجالانے کی توفیق عطا فرمائے، اور جنہیں استطاعت نہیں ان کو اپنے خزانئہ غیب سے استطاعت نصیب فرمائے،اور جنتنے لوگوں نے بھی امسال اس فریضے کی ادائیگی کی سعادت حاصل کر رہے ہیں ان کا یہ عمل قبول فرمائے۔ آمین ثم آمین
Gmail.id: abdullahilmohaimenu@gmail.com
What's app:09476713264