Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 8, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔سولویں قسط

✏ فضیل احمد ناصری/صداٸےوقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*بریلی کے بدعتی فرقے*
بریلی میں علمائے دیوبند کی خدمات کا ایک طویل دور رہا ہے، جس کی تھوڑی تفصیل آپ پچھلی قسطوں میں پڑھ آئے ہیں، یہی قسطیں جب کتابی شکل میں آئیں گی تو مزید تفصیل اس سلسلے میں پیش کروں گا۔ ہر دیوبندی کی طرح میں بھی پہلے یہی سمجھتا تھا کہ ایک آدھ مقامات کے علاوہ یہاں دیوبند کا گزر کہاں! لیکن جب قسطیں لکھنے بیٹھا اور اس سلسلے میں کتابوں کی طرف مراجعت کی تو پتا چلا کہ یہ تو ہماری ہی زمین رہی ہے۔ اللہ جانے  ہمارے ہاتھوں سے کیسے پھسلی اور کب نکلی!! صورتِ حال یہ ہے کہ آپ بریلی پہونچیں اور گھوم گھام کریں تو دیوبندیت اس طرح سمٹی ہوئی ملے گی، جس طرح برما میں اسلام۔ میں جب احسن رضا کے ساتھ بریلی میں داخل ہوا تو سڑکیں اور دیواریں، گلیاں اور چوراہے، آبادیاں اور ویرانیاں بدعات کی نقیب نظر آئیں۔ جگہ جگہ درگاہیں اور قبّے۔ ہماری گاڑی محلہ قلعہ کے پاس سے گزری تو ایسی ہی ایک درگاہ ہمیں دکھائی گئی، احسن رضا نے بتایا کہ یہ دولہا میاں کا روضہ ہے۔ یہ عجیب نام سن کر میں چونک گیا ۔ میں نے جاننا چاہا تو وہ کوئی تفصیل نہ دے سکا۔ تحقیق کے بعد میں معلوم ہوا کہ در اصل یہ ایک پردیسی مولوی تھے۔ یہاں آئے تو دعا تعویذ میں ایسے مشہور ہوئے کہ یہیں کے ہو رہے ۔ حتیٰ کہ ان کی شادی بھی یہیں انجام پائی۔ یہاں کے داماد بنے تو لوگوں نے انہیں دولہا میاں کا نام دے دیا۔ تعویذ گنڈے والوں کے پاس بھیڑ بھاڑ تو ہی جاتی ہے، یہ بھی مقبول ہو گئے۔ پھر لوگوں کو مرید بھی کرنے لگے۔ چاہنے والوں کا ہجوم ان پر منڈلاتا رہتا۔ جب انتقال ہوا تو ان کی قبر پر ایک عدد درگاہ بنا دی گئی اور اب یہ بھی اہلِ بدعت کی سجدہ گاہوں میں سے ایک ہے۔
مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ شادی شدہ جوڑے بطورِ خاص یہاں حاضری دیتے ہیں اور اپنی شادی کے استحکام کی منتیں مانگتے ہیں۔
*درگاہ احمد آباد کا دیومالائی ستون*
شادی شدہ جوڑے کی ان کہی چھڑ گئی تو مجھے احمد آباد گجرات کی معروف درگاہ یاد آ گئی ۔ یہ درگاہ سرخیز ڈھال پر واقع ہے ۔ یہ وہ علاقہ ہے، جہاں میں اپنی تدریس کے تین سال گزار چکا ہوں۔ یہاں شیخ احمد کھٹّوؒ کے مزار سے مغربی جانب سرخ پتھروں سے بنی پرانی عمارتوں کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ یہی درگاہ ہے۔ اسی میں احمد آباد کے بانی سلطان احمد ہیگڑہ مدفون ہیں۔ درگاہ کے وسیع احاطے سے اور مغرب کی طرف چلیے تو ایک بڑی سی مسجد آتی ہے اور اس کے بائیں طرف بڑا سا تالاب ۔ اس مسجد کے صحن میں پتھر کا ایک ستون ہے۔ یہ ستون دیومالائی ہے۔ اس کی جانبِ مشرق پندرہ سولہ قدم کے فاصلے پر ایک نشان ہے۔ جس خاتون کو معلوم کرنا ہو کہ اس کا فلاں کام بنے گا یا نہیں؟ وہ آنکھیں بند کر کے اپنے دونوں ہاتھوں کو آغوش کی طرح بناتے ہوئے اس ستون کی طرف چلے گی ۔ اگر ستون اس کی آغوش میں پڑ گیا تو کام ہو جائے گا، اور اگر یہ خاتون ادھر ادھر نکل گئی اور ستون ہاتھ نہ لگا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کام نہیں ہوگا۔ بدعات اور توہمات بغیر نسب کے ہوتے ہیں۔
*بریلوی شیعہ*
دولہے میاں کے مزار کے علاوہ بھی ایسے بہت سے مزارات ہیں جن کا نام سن کر ہم جیسے اہل السنۃ کو صرف ہنسی ہی آتی ہے۔ خیر!! جب میں بریلی کے بازار میں گھوم کر آہی گیا اور وہاں کے رازہائے سربستہ کھول چکا ہوں تو لگے ہاتھوں وہاں کی بدعتی جماعتوں کا ذکر بھی مناسب سمجھتا ہوں ۔ یہ تو معلوم ہی ہے کہ بریلی شہر بدعات و خرافات کا دارالخلافہ ہے۔ مجددِ بدعات اور ان کی اولاد و احفاد نے اپنی خود ساختہ شریعت کی وہ تشہیر کی کہ بریلی کا نام سماعت سے ٹکرائے تو ذہن صرف بریلویت کی طرف جاتا ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔ یہاں بریلویت کے علاوه بھی کئی بدعتی فرقے ہیں۔ شیعہ بھی ہیں، غیر مقلدین بھی۔ مداری بھی ہیں اور عطاری بھی۔ نیازی بھی ہیں اور ثقلینی بھی۔ ان میں سے بعض فرقے بڑے طاقت ور ہیں۔ بریلویت بھی ان سے پریشان رہتی ہے۔ تفصیل آئندہ سطور میں۔
بریلی کے بدعتی طبقوں میں سب سے پہلا نام شیعہ کا آتا ہے۔ اسلام کی صاف و شفاف تعلیمات میں جس طبقے نے اپنی طرف سے سب سے پہلے اضافہ کیا، اسے شیعہ کہا جاتا ہے۔ بدعتی فرقوں میں اس کا مقام پہلا ہے۔ اس کا بانی عبداللہ ابن سبا یہودی تھا۔
شیعہ اگرچہ اپنے عقائد کی رو سے دائرۂ اسلام سے خارج ہو گئے، مگر پہلے بدعتی تھے، اس لیے بدعتی فرقوں میں میں اسے اول نمبر پر رکھتا ہوں ۔
آپ ہرگز یہ نہ سمجھئے کہ بریلی میں شیعیت کا تصور کہاں! جی نہیں، یہاں شیعہ بھی ہیں، اگرچہ عربی فارسی نام والوں میں ان کی تعداد ایک فی صد ہی ہے، تاہم ان کا بھی اپنا ایک وجود ہے۔ ان کا صدر مقام محلہ قلعہ ہے۔ یہ اپنے تمام رسوم اور اپنی پوری شناخت کے ساتھ جیتے ہیں۔ محرم کے موقعہ پر ان کا جلوس زبردست ہوتا ہے۔ یاحسین اور یاعلی کی گونج کے ذریعے یہ قوم بھی یہاں اپنا ایک مستقل وجود رکھتی ہے۔
*بریلوی رضاخانیت*
یہ عجیب عنوان پڑھ کر آپ چونک رہے ہوں گے، مگر میں نے یہ عنوان بالقصد لگایا ہے۔ یہ تو آپ جانتے ہی ہیں کہ  رضاخانیت جہاں بھی ہے شیعیت سے استفادہ کرتی ہے۔ محرم کے موقعے پر تو بطورِ خاص ۔ حالانکہ بانئ بریلویت شیعہ کو کافر و مرتد سمجھتے اور ان کے رسوم و عقائد پر زبردست درّے برساتے۔ *رد الرفضہ* ان کی مشہور کتاب ہے۔ بانئ بریلویت نے شیعیت کے خلاف اگرچہ کئی کتابیں لکھیں، مگر ان کا خاندانی پس منظر صاف بتاتا ہے کہ بریلویت کے لبادے میں یہ پوری کی پوری برادری شیعیت سے منسلک ہے۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ کے تئیں ان کے عقائد مثلاً سایہ نہ ہونا، عالم الغیب ہونا، انہیں اللہ کا مظہر قرار دینا، مجدد صاحب کی یہ وہ تعلیمات ہیں جو ساری کی ساری شیعیت کے گندے چشمے سے اخذ کی گئی ہیں۔ ان کی یہی شیعیت نوازی ہے کہ آج پورا بریلی شیعیت کا نقیب ہے۔ آپ بریلی میں چکر لگائیں گے تو بریلویوں کے امام باڑے جگہ جگہ نظر آئیں گے اور ان پر صاف لکھا ہوگا: *سنی امام باڑہ* ۔ ان کے اپنے میدانِ کربلا بھی ہیں۔ رضاخانیت اور شیعیت عام دنوں میں بلاشبہہ ایک دوسرے سے جدا دکھائی دے گی، مگر محرم کے مہینے میں آپ کے لیے امتیاز مشکل ہو جائے گا کہ بریلوی کون ہیں اور شیعہ کون؟ شیعہ کی طرح ان کے بھی تعزیے نکلتے ہیں۔ ڈھول باجے بھی ہوتے ہیں۔ حضرتِ حسینؓ کے تخت بھی برآمد کیے جاتے ہیں۔ وہ رسومات و خرافات ہوتی ہیں کہ محرم کے دنوں میں پورا بریلی شہر ہندوستان کا حصہ نہیں، ایران کی ریاست معلوم ہوتا ہے۔ ہر جگہ شیعہ ہی شیعہ نظر آتے ہیں۔ بانئ بریلویت کا خاندان اللہ جانے کیا کر رہا ہے! آخر اسے دیوبند کے خلاف چھٹی کب ملے گی!
*بریلوی غیرمقلدین*
یہاں غیر مقلدین بھی اتنی ہی تعداد میں ہیں، جتنی شیعہ کی ہے۔ ان کی کل تین یا چار مسجدیں ہیں۔ بریلوی غیرمقلدین کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں وہ جارحیت نظر نہیں آتی جو غیر بریلوی غیر مقلدین میں عموماً پائی جاتی ہے۔ بریلویت کے خلاف تو بالکل بھی نہیں۔ دیوبندیت سے پرخاش انہیں ضرور ہے۔ ان کی ساری مسجدیں دیوبندیوں سے چھینی ہوئی ہیں۔ ان کا اپنا تشخص تو ہے، مگر غیر امتیازی ۔ ان کی ساری سرگرمیاں مسجدوں تک محدود ہیں۔ ان کے ائمہ اور واعظین بڑے نرم لب و لہجے میں اپنے میدان کی توسیع میں لگے ہیں۔ کوئی زورا زوری اور کوئی شورا شوری نہیں۔ امت کا یہ ناسور طبقہ بھی وہاں کس مپرسی کا شکار ہے۔ ان کا صدر مقام قاضی ٹولہ ہے۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: مداری اور ثقلینی فرقے کا تعارف]