Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 5, 2019

بلأخر راہل گاندھی کانگریس کو بیچ منجدھار میں چھوڑ گٸیے۔


تحریر/شکیل رشید( ممبٸ)/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالآخر راہل گاندھی کانگریس کو بیچ منجدھارمیں چھوڑ ہی گئے!
لوک سبھا کے الیکشن میں کراری ہار کے بعدانہوں نے کانگریس کی صدارت سے ہٹنے کا جو اعلان کیا تو اس پر اڑےہی رہے۔ ان کی ماں سونیا گاندھی نے سمجھایا، بہن پرینکا گاندھی نے بات کی اور سارے کانگریسوں نے ان سے استدعا کی کہ وہ کانگریس کی صدارت سے دستبرداری کے فیصلے کو واپس لے لیں، پر وہ ضد پر اڑے رہے۔ اور آج بدھ کو ان کی ضد کے آگے سارے کانگریسیوں نے سر جھکا دئیے۔اب ان کا استعفیٰ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے سامنے پڑاہے، اور خبر ہے کہ ایک بزرگ کانگریسی موتی لال ووہرا کانگریس کے کار گذار صدر بنائے جارہے ہیں۔ دیکھئے صد ر کون بنتا ہے اور کب بنتا ہے!
راہل گاندھی کا فیصلہ ’اچھا‘ 
بھی ہے اور ’بُرا‘ بھی!

پہلے اس فیصلے کے ’اچھے‘ پہلو پر بات کرلیتے ہیں۔
راہل گاندھی نے تو شکست کی ذمہ داری قبول کرلی۔ انہوں نے اس تعلق سے اپنے خط میں بالکل درست لکھا ہے کہ ’’کانگریس صدر کے ناطے ۲۰۱۹ کے انتخابات میں شکست کی ذمہ داری میری ہے، پارٹی کی ترقی اور مستقبل کے لیے جوابدہی بہت اہم ہے اور یہی سبب ہے کہ میں نے استعفیٰ دے دیا ہے۔‘‘ پر صرف ان کے استعفیٰ سے تو بات بننے والی نہیں ہے! راہل گاندھی اگر شکست کے ذمہ دار ہیں تو کیا وہ سینئر کانگریسی لیڈر شکست کے ذمہ دار نہیں ہیں جو ساری انتخابی مہم کے دوران ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے یا صرف اپنے بٹیوں اور عزیزوں کی الیکشن مہم میں جٹے رہے ، جیسے کہ گہلوت، کمل ناتھ اور پی جدمبرم؟ یہ سب بلکہ کانگریس کے سارے کے سارے سینئر لیڈر شکست کے ذمہ دار ہیں۔ان میں سے کچھ تو کانگریس کو ڈوبتا دیکھ کر بالکل اسی طرح جیسے چوہے ڈوبتا جہاز چھوڑ جاتے ہیں ،کانگریس سے دور ہوئے، ان میں سے اکثر کہیں کھل کر اورکہیں چوری چھپے بی جے پی سے’رشتے‘ جوڑ رہے تھے۔ اورکچھ ایسے تھے جن کے سوٹ کے نیچے کی ’خاکی نیکر‘انہیں کانگریس سے زیادہ آر ایس ایس سے وفاداری برتنے کے لیے تڑ پارہی تھی۔ اب راہل گاندھی بعد یقیناً ان سب کی باری آئے گی اور یہ تمام کے تمام کانگریس کے اعلیٰ عہدوں سے ہٹائے بلکہ کانگریس سے باہر کا دروازہ دکھائے جائیں گے۔ کانگریس کو اگر واقعی آئندہ ایک قومی پارٹی کے طور پر خود کو مضبوط کرنا ہے تو یہ کرنا ہی ہوگا۔ دھوکہ دینے والوں کو کھدیڑنا ہوگا،بزرگوں کو آرام دے کر نئے نوجوانوں کو آگے بڑھانا ہوگا۔ نئے خون اور نئے جوش کی کانگریس کو ضرور ت ہے۔ راہل گاندھی کے استعفیٰ سے اس کی شروعات ہوسکتی ہے۔
رہے فیصلے کے ’برے‘ پہلو تو سب سے بُری بات تو یہ ہے کہ راہل گاندھی کے استعفیٰ کے فیصلے سے یہ پیغام عام ہوگا کہ انہوں نے سنگھی ذہینت‘ ، آرایس ایس اور بی جے پی کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ہیں۔ اس فیصلے سے یہ پیغام بھی عام ہوسکتا ہے کہ بی جے پی کا ’کانگریس مکت‘ کا منصوبہ تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک ایسے موقع پر جب صرف کانگریس ہی نہیں سار املک مسائل سے گھرا ہوا ہے ، یرقانیوں کے منصوبے کی راہ میں کوئی روک نہیں ہے اور ملک تیزی سے ’’ہندوراشٹر‘ کی سمت بڑھ رہا ہے راہل گاندھی کا یہ فیصلہ کانگریس کو بیچ منجدھار میں چھوڑنے والا تو ہے ہی ملک کو بھی بیچ منجدھار میں چھوڑنے والا ہے۔ اس وقت آر ایس ایس بی جے پی کے نظریات سے بغیر ڈرے، بغیر ہمت ہارے لوہا لینے کی ضرورت ہے۔ ایسے میں جبکہ بی جے پی لوک سبھا پر حاوی ہے اور اپوزیشن مختصر ‘ہمت کے ساتھ حکومت کے خلا ف کھڑے ہونے کی اور یہ جتانے کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن اتنی کمزور نہیں ہے جتنی کہ سمجھی جارہی ہے۔ کانگریس کو دوبارہ ملک کی اہم قومی پارٹی بنانے کے لیے انتہائی ہمت کے ساتھ ڈٹے رہنے کی ضرورت ہے۔ پرراہل گاندھی کے استعفیٰ کی ضدسے لگتا ہے کہ وہ یہ سب کرنے سے بھاگ رہے ہیں ۔یہ ایک طرح سے بی جے پی کی جیت ہے۔

راہل گاندھی نے اپنے استعفیٰ نامہ میں تحریر کیا ہے’’ہندوستان کے تئیں ان کے (بی جے پی) نظریئے کا میں سخت مخالف ہوں۔‘‘ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ادھر چند برسوںسے کانگریسی بی جے پی کے ہی نظریئے پر گھوڑے دوڑانے لگی تھی۔ ’نرم ہندوتوا‘کا نظریہ ۔ پر یاد رہے کہ ’نرم ہندوتوا‘ جیسی کوئ چیز نہیں ہے۔ ’ہندوتوا ‘سنگھی نظریہ ہے اور کانگریس کا نظریہ جمہوری ، سیکولر نظریہ ہے۔کانگریس نے سنگھی نظریے کو اپنا کر اپنے پیروں پر خودکلہاڑی ماری تھی‘ اور راہل گاندھی بڑی حد تک اس کے ذمہ دار ہیں۔ وہ ’نرم ہندوتوا‘‘ کے نظریے سے نہ خود ہٹ سکے اور نہ ہی اپنی پارٹی کو ہٹاسکے لہٰذا کانگریس ڈوب گئی اور انہیں استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔لیکن ابھی بہت کچھ نہیں بگڑا ہے ؛ سنگھی نظریے کا جواب سختی سے دینا ہوگا۔‘کانگریس کے پاس اس کے سوا اور کوئی راہ نہیں ہے۔ راہل گاندھی نے اپنے خط میں لکھا ہے ’’میں کسی بھی طرح کسی بھی طریقے سے اس لڑائی سے ہٹ نہیں رہا ہوں‘‘ پر یہ استعفیٰ اس لڑائی سے ہٹنا اور ایک طرح سے کانگریس کو سنگھ اور بی جے پی کے ہاتھوں میں سونپنا ہی ہے۔