Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, July 27, 2019

ماں باپ طلبہ کی باتوں پر آنکھ بند کرکے یقین نہ کریں۔!!!


از/ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پچھلے سال ایک مدرسے کا ایک طالب علم میرے رابطے میں تھا۔ اڑیسہ کا تھا۔ دیکھنے میں انتہائی معصوم، بوقتِ ملاقات بڑا مؤدب، اپنے بڑوں کے سامنے ایک دم بچھ جانے والا۔ مگر پڑھنے لکھنے میں ناکارہ اور سخت بد ذوق۔ کثرتِ غیر حاضری کی بنا پر اس کا اخراج ہو گیا تھا۔ اس سال اسی ادارے میں داخلے کے لیے آیا تو ذمہ داروں نے 
اعادۂ سال کا فیصلہ سنا دیا۔ وہ بہت پریشان ہوا۔ میرے 
پاس آیا اور کہنے لگا کہ اعادۂ سال سے بچنے کی سفارش کر دیجیے۔ میں نے اس کا ریکارڈ دیکھ کر انکار کر دیا۔ کہنے لگا: کسی دوسرے ادارے میں داخلہ کرا دیجیے۔ میں نے جامعہ حسینیہ میں داخلہ کرا دیا۔ اس کے بعد پھر اس سے
 کوئی رابطہ نہ رہا۔

گزشتہ سنیچر کی بات ہے۔ میں نے اس ادارے کے مہتمم مفتی جنید قاسمی صاحب کو کسی مقصد سے فون کیا۔ اچانک مجھے اس طالب علم کی یاد آ گئی ۔ میں نے پوچھا تو انہوں نے خبر دی کہ آج ہی اس کا اخراج ہو گیا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ داخلے کے بعد وہ بچہ صرف ایک دن بعدِ مغرب آیا اور اس کے بعد لگاتار پندرہ دن سے غائب ہے۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔ وہ اسی کا مستحق تھا۔
منگل کی شام کو میں کسی کام سے شہر کو نکلا تو دارالعلوم کی مسجدِ رشید کے پاس وہ لڑکا ٹکرا گیا۔ حسبِ سابق وہی معصومیت، وہی تبسم، وہی ادب ۔ میں نے حال احوال پوچھے، کہنے لگا: سب بخیر ہے۔ میں نے پوچھا: پابندی سے پڑھنے جا رہے ہو؟ کہنے لگا: پابندی سے تو نہیں، پر جاتا ہوں۔ میں نے پوچھا: کتنے کتنے دنوں پر؟ بولا: دو تین دنوں کے ناغے سے ۔ میں نے وجہ دریافت کی تو کہنے لگا: ساری کتابیں پڑھی ہوئی ہیں، اس لیے دل نہیں لگ رہا۔ میں نے پوچھا: داخلہ بچا ہے بھی یا نہیں؟ بولا: جی باقی ہے۔ مجھے جلال آ گیا۔ میں نے اسے ڈانٹ پلاتے ہوئے کہا: نامعقول! جھوٹ بولتا ہے؟ تیرا داخلہ سنیچر کو ہی کٹ گیا۔ شرم نہیں آتی؟
اس کے گھر میں اس کی والدہ ہی بچوں کی نگراں ہے۔ اس لڑکے کے سلسلے میں میری باتیں اس سے کئی بار ہو چکی تھیں۔ میں نے اسی وقت اور اس کے سامنے ہی فون ملایا اور اس سے بچے کی خیر خیریت پوچھی۔ کہنے لگی: اس کا دل نہیں لگ رہا ہے ۔ شاید اس مدرسے کو چھوڑ دے گا۔ میں نے کہا: چھوڑے گا کیا، چھوڑ چکا ہے۔ وہ حیران رہ گئی۔ کہنے لگی: اس سے بات کر کے آپ کو فون کرتی ہوں۔ میں نے کہا: بہت اچھا۔
کل کی بات ہے۔ میرے پاس اس کا فون آیا تو کہنے لگی: جی مولانا! میں نے اس سے بات کی تو کہہ رہا ہے کہ میں وہیں پڑھ رہا ہوں اور داخلہ باقی ہے۔ جب میں نے آپ کا حوالہ دیا تو وہ کہہ رہا ہے کہ مولانا آپ سے مذاق کر رہے ہوں گے۔ محترمہ سے یہ الفاظ سن کر میں تو ایک دم سُن ہو گیا۔ میں نے کہا: آپ سے اب تک کل دو یا تین مرتبہ باتیں ہوئیں، کبھی لایعنی بات ہوئی ہے؟ کہنے لگی: کبھی نہیں۔ میں نے کہا: آپ کا بچہ کھلا ہوا جھوٹ بول رہا ہے، آپ فون پر رہیے، میں اسی ادارے کے مہتمم صاحب سے بات کراتا ہوں ۔ میں نے اسی وقت کال ملایا اور مہتمم صاحب نے میری توثیق کی تب ان کا یقین مزید دوچند ہوا۔
میں لڑکوں کے والد سے ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اپنے بچے کی رپورٹ پر اکتفا نہ کریں، بلکہ ہفتہ دس دنوں پر مدرسہ کے ذمے دار سے خیریت لیتے رہیں۔ میرا مشاہدہ ہے کہ بعض طلبہ والدین کو سخت اندھیرے میں رکھ کر اپنی زندگی برباد کر رہے ہیں ۔ گاڑھی کمائی کے روپے پیسے الگ ضائع۔ یہ لوگ جھوٹ بولنے میں کبھی کبھار اس حد تک بھی چلے جاتے ہیں کہ عالمِ کفر میں جا گریں۔