Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 30, 2019

اسلامی قانون پر طاقت کا تسلط۔

از/شرف الدین عظیم قاسمی الآعظمی/صداٸے وقت/عاصم طاہر اعظمی۔
=========================
اسلام کی پوری تاریخ قربانیوں اور آزمائشوں سے بھری پڑی ہے، ہر دور میں اسلام کا کارواں انہیں سنگلاخ راستوں سے گذرا ہے' جس میں آتش وآہن کی بارشیں مسلسل اور موسلادھار برستی رہی ہیں'، راہوں کے سنگ ریزوں نے انگاروں کی صورت میں اس قافلہ آبلہ پا کے سفر ہرزمانے میں کو روکا ہے،
مگر اس وفا شعار قافلوں کی ہمت و شجاعت اور استقلال واستقامت کے آگے آزمائشوں کی تمام چٹانیں گرد ہوکر رہ گئیں،فرزندان اسلام نے اپنے دین،اپنے مذہب اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے تمدن کے تحفظ کے لئے کبھی تلواروں کے سائے میں اپنے سفر کو جاری رکھا،کبھی دارورسن کو گلے لگایا،کبھی اقتدار کے ایوانوں میں کلمۂ حق کی پاداش میں زندگی کی متاع لٹائی،اور کبھی اپنے خون کی سرخیوں سے مقتل کی پیاسی زمینوں کو سیراب کیا۔۔۔مگر کبھی اسلامی مشن پر آنچ نہیں آنے دی، اسلامی نظام کا سودا نہیں کیا، اسلامی قوانین کے سلسلے میں مصالحت روا نہیں رکھی،


وہ اسی طرح بے سروسامانی کے عالم میں،بے کسی کی حالت میں کبھی مال ومتاع کو تج کر،کبھی زندگی کی قربانی دے کر وقت کے سفاک ماحول میں اسلام کے چراغ کو جلائے رکھا، زمانے کی طوفانی ہواؤں میں ایمان کی قندیل روشن رکھی،
ملک عزیز ہندوستان میں ملت اسلامیہ ہند بھی اس وقت شدید امتحان و آزمائش کی راہوں سے گذر رہی ہے،آزادی کے بعد سے ہی ملت کا سفر خاردار راستوں سے گذر رہا ہے لیکن ادھر ایک دہائی سے عصبیت کا طوفان اس قوت سے اٹھا کہ محسوس ہوا کہ اسلامی تعلیمات مسخ ہوکر رہ جائے گی،اسلامی عمارتوں پر جدت طرازیوں اور ہمدردی کے نام پر شب خون مارنے کا سلسلہ چھ سال سے پوری قوت سے جاری ہے'،
آج اس کے قلعے کی دیواروں میں اس وقت شگاف پڑا جب پوری فسطائیت  ملکر شریعت کے عائلی قانون طلاق کے سلسلے میں خود ساختہ قانون مسلط کرنے میں کامیاب ہوئی،ہندوستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلا موقع ہے'جب سیکولر نظام کے باوجود اسلامی قانون کو مسخ کرکے غیر انسانی لا کو مسلط کیا گیا ہے،باوجود اس کے ملکی قوانین میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب پر مکمل آزادی حاصل ہے'،
ایک ایسے ملک میں جہاں ہر سو نفرتوں کے شعلوں میں پوری اقلیت جھلس رہی ہو، جہاں معیشت دیوالیہ کا شکار ہو چکی ہو،جہاں بے قصور انسانوں کو مذہب کی بنیاد پر مار دیا جاتا ہو، جہاں مسافروں کی جان مال محفوظ نہ ہو،جہاں آبادیوں کی آبادیاں سیلاب کا لقمہ بن جایا کرتی ہوں، جہاں عورتوں کی عصمتیں سرعام لٹ جاتی ہوں،وہاں تمام مسائل کو نظر انداز کرکے پوری طاقت ایک اسلامی قانون کی تبدیلی پر مرکوز کردینا،حکومت کی نیتوں پر سوالیہ نشان ہے'،جس کے جواب میں اسلام کے خلاف معاندانہ جذبات،ملت اسلامیہ کے متعلق نظریاتی عصبیت کی چنگاریوں کے علاوہ اور کچھ نہیں مل سکتا۔۔
وگرنہ یہ بات ایک متوسط ذہن کے لئے بھی ناقابل فہم ہے'کہ تین طلاق دینے والا شخص  کورٹ کی نگاہوں میں مجرم بھی ہے'اور تین طلاق کی پاداش میں قید خانے کا سزاوار بھی ہے اور بیوی پر طلاق کا اثر بھی نہیں ہے،
اور جیل کے دوران تین سال تک اس کے بیوی بچوں کی کفالت کی کوئی تدبیر بھی نہیں ہے،
لیکن جب ذہنوں پر عصبیت کے پردے پڑ جاتے ہیں،انتہا پسندی عروج پر ہوتی ہے، تو رواداری کے پرندے وہاں سے ہجرت کر جاتے ہیں'،انصاف ودیانت بے حیثیت اور اصول وضابطے بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں، ملک کی دوسری بڑی اقلیت کے خلاف اور سیکولر روح کے خلاف وحشیانہ قانون کا نفاذ درحقیقت انہیں عناصر کا مظہر ہے'جس کا اوپر ذکر ہوا ہے'۔۔۔۔
ملت اسلامیہ ہند پر اس سے زیادہ سخت آزمائشیں آئی ہیں'،اس سے زیادہ خوفناک موسم درد والم کا سامنا اس قوم نے کیا ہے'،یہ ابتلاء بھی ماضی کے امتحانات کی ایک کڑی ہے'،ایسی صورت میں مکمل بصیرت کیساتھ قدم بڑھانے کی ضرورت ہے،
وہ لائحہ عمل اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے جو اغیار کی سازشوں کو ناکام بنادے، مسلم قیادت کی اب ذمہ داری ہے'کہ وہ شہر در شہر،قریہ در قریہ قضا کا نظام قائم کرے، وقت کی ستم رانیاں آواز دے رہی ہیں'کہ ملت اسلامیہ اپنی آنکھیں کھولے،حالات کے تیور کو محسوس کرے، خصوصا عائلی نظام کے سلسلے میں،طلاق ونکاح کے مسئلے میں ارباب حل وعقد سے رجوع ہونے کی طرح ڈالے، سرکاری محکموں،حکومتی عدالتوں سے اس مسئلے میں مکمل طور پر کنارہ کش ہوجائے،اگر ملی مسائل کے لئے جگہ جگہ دار القضاء کا قیام عمل میں آجائے ،اور پوری تندہی وجاں فشانی سے مسائل کا تصفیہ ہو اور قوم میں اسلامی تعلیمات پر عمل کا جذبہ بیدار ہو جائے،اور اسی جذبے کے تحت  زندگی کے تمام انفرادی واجتماعی مرحلے میں شرعی مجالس سے خود کو وابستہ کرلے،تو خود بخود اصحاب اقتدار کی منصوبہ بندیاں خاک آلود اور سازشی عمارتیں زمیں بوس ہوجائیں گی۔