Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 31, 2019

ہندوستان کی سیاست اب اپنا رخ متعین کر چکی ہے ؟؟؟

از/محمد عبد الحفیظ عمری۔/صداٸے وقت۔
========================
راجیہ سبھا میں بی جے پی اکثریت میں نہ ہونے کے باوجود تین طلاق بل پاس کرانے میں جس طرح کامیاب ہوئی ہے اس سے یہ اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں ہے کہ ہندوستانی سیاست اب اپنا رخ متعین کرچکی ہے اور وہ مکمل طور پر اسلام مسلمانوں خلاف ہے ، ایسے حالات میں معاشرہ کی اصلاح کی کوششوں کے ساتھ ساتھ حکومت کے غلط اقدامات کا قانونی طریقہ سے مقابلہ کرنا بھی ضروری ہے

ہم اپنے معاشرہ کو ایک وقت میں ایک طلاق دینے کی ترغیب تو دے سکتے ہیں لیکن اس پر عمل پیرا ہونے کی بہت زیادہ توقع نہیں کرسکتے کیونکہ معاشرہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے جس پستی کا شکار ہے وہ کسی سے مخفی نہیں یے
ایسے حالات میں مسلم پرسنل بورڈ اور مسلم قیادت دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے فورا  یہ فیصلہ کریں کہ ہندوستان میں تین طلاق ایک طلاق شمار ہوگی تو قانونی سطح پر مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوگی اور معاملہ اسلام کے دائرہ میں ہئ رہے گا ، اس طرح :
اولا حکومت کی سازش ناکام ہوجائے گی اور بی جے پی کا تین طلاق بل ناکارہ ہوجائے گا کیونکہ تین طلاق ایک طلاق شمار ہوگی تو اس ہر تین کا اطلاق ہی نہیں ہوگا اور وہ قانونا جرم کے دائرہ میں نہیں آئے گا
ثانیا مسلم معاشرہ افراتفری اور انتشار سے محفوظ ہوجائے گا ، کیونکہ تین طلاق کو اگر تین شمار کیا جائے تو اس کے بعد دو ہی صورتیں ہوں گی یا تو شوہر حوالہ زنداں کردیا جائے گا اور نتیجہ خاندان کی تباہی کی صورت میں ظاہر ہوگا یا پھر طلاق دینے اور مسلک کے اعتبار سے اس کے واقع ہوجانے کے باوجود قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے وہ طلاق دینے سے انکار کرنے پر مجبور ہوگا اور وہ دونوں اجنبی ہوجانے کے باوجود ناجائز طور ہر شوہر بیوی کی طرح زندگی گزارتے رہیں گے
 
تین طلاق کو ایک طلاق شمار کرنا اب ہندوستانی مسلمانوں کے پاس واحد اور درست اختیار ہے ، تعصب سے دور رہنے کی جو نصیحت ہم ایک دوسرے کو کرتے رہتے ہیں یہ اس کے امتحان کا وقت ہے اور اجتہادی امور میں ایک دوسرے کی آراء کو اختیار کرنے کے سلسلے میں ائمہ کرام کے جس توسع کا ذکر کیا جاتا ہے یہ اس پر عمل کرنے وقت یے ،کیونکہ یہ معاملہ ایک مسئلہ میں اپنے مسلک کے بجائے دوسرے مسلک کی رائے کو ترجیح دینا ہے ، جبکہ دوسری صورت بلاشبہ معاشرہ کو بے یقینی سے دوچار کرنے کا سبب ہے ، جو بعض لوگوں کو کفر تک پہنچانے تو بعض کو معصیت میں داخل کرنے کی موجب ثابت ہوگی  ، نیز بہت جلد اس کے نتائج معاشرتی تباہی، افراتفری ، عوامی بے چینی اور قیادت سے بے اعتمادی  کی صورت میں سامنے آئیں گے
جہاں تک اس خدشہ کا سوال ہے کہ اس طرح مسلم پرسنل میں مداخلت کا راستہ کھل جائے تو یہ ایک وسوسہ کے سوا کچھ نہیں ہے ، کیونکہ بات جب ایک مسلک کے بجائے دوسرے مسلک کی رائے کو اختیار کرنے کی ہے اور دونوں ہی اسلام میں شامل ہیں اور مسلم پرسنل کا بھی حصہ ہیں تو بات مسلم پرسنل لاء سے خارج کیسے ہوئے ؟
یہ موقع آپسی بحث و مباحثہ میں وقت ضائع کرنے اور مسلکی اختلافات کو ہوا دینے کا نہیں ہے، اس سے معاشرہ کو مزید نقصان پہنچے گا ، اس لئے اس معاملہ میں ایک دوسرے ہر التزام تراشی سے گریز کرتے ہوئے، نہایت سنجیدگی کے ساتھ آپسی مشاورت کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے اور جو بھی فیصلہ ہو وہ ملی اور قیادت کی سطح  پر لیا جائے ، اللہ کرے کہ تین طلاق والے بل کے شر سے  خیر کی کوئی صورت  نکل آئے آمین