Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 8, 2019

ذرا سوچٸیے گا۔۔۔۔!!! ماب لنچنگ بھیڑ کا بھیڑیا بن جانا۔

از: ضیاء الدین صدیقی (معتمد عمومی، وحدت اسلامی ہند)/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیڑ کے بھیڑیئے بن جانے کا نام ’’ماب لنچنگ ‘‘ہے، بھارت میں آج کل یہ متعدی مرض کی طرح عام ہو گیا ہے، اس کے فروغ میں ان نظریات و خیالات کا زیادہ حصہ ہے جنہیں زعفرانی رنگ سے نچوڑا گیا ہے۔ سناتن دھرم نے ہندو دھرم کی شکل اختیار کی اور اپنے نقائص پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، جبکہ ہندو لفظ بنیادی طور پر مسلمانوں کا دیا ہوا ہے۔ اس کے آگے’’ہندوتوا‘‘یہ سناتن دھرم کے رسم و رواج اور منوسمرتی کے تعلیم پر مبنی ایک ایسا نظریہ ہے جو سناتن دھرم کو ’’راجنیتی‘‘ کا خوگر بناتا ہے، حکومت اور اقتدار جیسےتیسے  حاصل کیا جائے اور پھر سختی سے من مراد چیزوں کو نافذ کیا جائے۔ اسے جدید اصطلاح میں فسطائیت (Fascism) کہتے ہیں۔اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانے اور ان میں خوف پیدا کرنے اور انہیں عملاً زندگی کی راہ سے بے دخل کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے جارہے ہیں ان میں بھیڑ کا بھیڑیئے بن جانا بھی ہے۔ بھیڑ بے سوچے سمجھے نہتے فرد پر حملہ کر دیتی ہے اور اسے کسی قانونی جواز کے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ ہندو دہشت گردوں کو جو باتیں مشتعل کرتی ہے اور جن کی وجہ سے وہ قوت کا استعمال اپنے ہی جیسے انسانوں پر کرتے ہیں ان میں’’بڑے کا گوشت، گائے کی حمل ونقل، بیل بھینس وغیرہ کی حمل و نقل،  افواہوں پر عمل، بچہ چوری کا شک اور جئےشری رام نہ کہنا‘‘ ان معاملات میں صرف مسلمان ہونا ہی کافی ہے۔
گوشت پر دادری کے بسیہڑا گاؤں کے اخلاق کی کہانی ہم 15 ستمبر 2015 سے سنتے چلے آرہے ہیں۔ جہاں گاؤں والوں نے گائے کے گوشت کے شبہ میں ایک شخص کو قتل کر ڈالااور دوسرے کو ہمیشہ کے لئے معذور !  لیکن کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ تمہارے مذہب میں گوشت نہیں کھایا جاتا اس کا احترام کیا جانا چاہیے تو ہمارے مذہب میں گوشت کھایا جاتا ہے اس کا احترام کیوں نہیں کیا جاتا؟ کیا مساوات کی کہانیاں صرف دستور کے صفحات کی زینت بن کر رہ جانے کے لیے ہے۔؟
جانوروں کے کاروبار سے جڑے راجستھان کے ’’پہلو خان ‘‘کو گائے کی تسکری کے الزام میں پیٹ پیٹ کر مار ڈالاگیا، اس پر ستم یہ کہ اب ان کے بچوں پر تسکری کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ جان سے مارنے والوں کو تو ضمانتیں مل چکی ! لیکن جو مظلوم ہے وہی اب ملزم ٹہرائے جارہے ہیں۔
بچہ چوری کے شبہ میں گوگل کے سافٹ ویئر انجینئر ’’محمد اعظم ‘‘(بینگلور) کو بھیڑ نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا، وہ کہتے رہے کہ ’’وہ پروفیشنل انجینئر ہے بچہ چور نہیں ‘‘لیکن زبان سے زیادہ دلوں میں چھپا ہوا بغض عمل میں ڈھل رہا تھا۔
حافظ قرآن ’’جنید خان ‘‘دہلی سے اپنے گھر لوٹ رہے تھے، ان کی ٹوپی اور لباس کا مذاق اڑایا گیا، بات بڑھتے بڑھتے چاقو سے حملے تک پہنچ گئی اور وہ معصوم اپنے دو بھائیوں کو شدید زخمی حالت میں چھوڑ کر اللہ کو پیارا ہو گیا۔
سید پور کی ’’گل بہار‘‘کے شوہر ’’افروزل ‘‘ کو شمبھوناتھ نے قتل کیا اور اسے آگ لگا کر جلا دیا، اس کی ویڈیو وائرل کی اور دوسروں کو بھی دھمکایا بھی کہ وہ ان کے ساتھ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ کیونکہ ’’افروزل ‘‘مسلمان تھا اسی لئے ہندو جاگرن منچ کے’’مکیش جین ‘‘نے شمبھوناتھ کے بچاؤ کے لیے قانونی اور مالی امداد کا بیڑا اٹھایا۔
مودی سرکار 2.0 کے دور کا آغاز ہی پارلیمنٹ میں ’’جئے شری رام ‘‘ کے نعروں کے ساتھ ہوا ہے، تاکہ مخالفین کو چڑھایا جا سکے۔پارلیمنٹ میں پہلی دفعہ اجتماعی طور پر ایسے نعرے لگائے گئے  اور یہیں سے’’ماب لینچنگ 2.0‘‘ کا آغاز ہوتا ہے۔  جھارکھنڈ کے ’’تبریز عالم انصاری ‘‘جو کہ یتیم تھااور اس کی شادی کو دو ماہ ہی ہوئے تھے،  اتفاق سے اس کی بیوی بھی یتیم ہے،  اس کو دوسرے گاؤں والوں نے پیٹ پیٹ کر مار ڈالا،  رات بھر کھمبے سے باندھ کر رکھا اور پھر پولیس کے حوالے کردیا پولیس نے اسے دواخانہ لے جانے کے بجائے حوالات میں بند کر دیا۔ جب دباؤ ڈالاگیا تو اسپتال لے جایا گیا لیکن اسپتال میں بھی اسے کئی گھنٹے ضروری طبی امداد نہ ملنے پر وہ جاں بحق ہوگیا۔تبریز کی کہانی میں’’جئے شری رام ‘‘ بلوانے کا عنصر غالب ہے۔ جئے شری رام، جئے ہنومان کہنے کے باوجود اسے اتنا پیٹا گیا کہ وہ جان کی بازی ہی ہار گیا۔ کیا اس کے قاتلوں نے پارلیمنٹ میں شروع ہوئی نعرے بازی سے ’’پریرنا‘‘لی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ عوامی اقتدار کے مراکز ہی عوامی سوچ و عمل پر حاوی ہوتے جا رہے ہیں۔
ٹائم میگزین کی ایک خبر کے مطابق 2015 سے 2018 ان تین سالوں میں 150 واقعات کو ریکارڈ کیا گیا ہے۔ جن میں 98 واقعات گوشت اور گائے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان میں 250 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہے اور 65 کی جانیں گئی ہے، 90 فیصد تعداد مسلمانوں کی ہے۔ جھارکھنڈ، راجستھان، ہریانہ، یوپی، بہار، گجرات، کشمیر، بنگال، ایم پی، اتراکھنڈ، تلنگانہ، تامل ناڈو اور مہاراشٹر وہ ریاستیں ہے جہاں یہ واقعات بڑی تعداد میں واقع ہوئے ہیں۔سپریم کورٹ کے پھٹکار لگانے اور ریاستوں کو قصوروار بتانے کے باوجود یہ طریقہ کار جاری ہے، جس سے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں خوف وہراس کا پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس پر اقتدار میں بیٹھے ہوئے ہندوتوا کے ’’شلپکار‘‘کہتے ہیں کہ اگر ایک لڑکی کوئی مسلمان لے جاتا ہے تو تم ان کی سو لڑکیوں کو بھگالاؤ۔گوری اور نندیں کی مورتیاں ہر مسجد میں نصب کرنا ہے۔ مسلم عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان کا’’بلتکار‘‘کیا جانا چاہئے۔ اس طرح 2021 تک ’’اسلام مکت بھارت ‘‘بنانے کی قواعد جاری ہے۔
بھیڑ کے بھیڑیئے بن جانے کی صورت میں کیا کیا جانا چاہئے؟ یہ سوال ہر سوچنے والے کے ذہن میں پیدا ہو رہا ہے۔ کیا دینی بنیادوں اور شرعی راستوں سے اسکا کوئی جواب موجود ہے؟ اگر ہے تو مستند ذرائع سے اسے عوامی سطح پر آکر بتلانے کی ضرورت ہے۔ جو لوگ اس کا جواب دینے کی جرأت کر رہے ہیں ان کی پشت پر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ گزشتہ دنوں اتراکھنڈ کے امام صاحب نے کچھ جرأت کا اظہار کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا اور ان پر کریمنل دفعات بھی لگائی گئی، انہوں نے ان حالات میں کیا کہا؟وہ ایسا تو نہیں کہ ان پر تنقید کی جائے۔اس سے تو ہم اپنے ’’باہمت افراد ‘‘کو کھونے کی روایت کو عام کرنے جا رہے ہیں ہیں۔ ان باہمت افراد کا اخلاقی سپورٹ تو کم از کم کرنا ہی چاہیے۔ایسے حالات میں امت کے’’بڑوں‘‘ کو مل جل کر لائحہ عمل بنانے کی شدید ضرورت ہے۔ جماعتیں اپنے اپنے دائروں میں کام کرتی ہے لیکن اس سے اوپر اٹھ کر امت کی سطح پر 2 یا 3 دنوں کی’’چنتن-منتھن ‘‘ والی نشست ضروری ہوتی جارہی ہے۔ریاستی سطح پر بنگال میں قاری صاحب نے آغاز کیا ہے لیکن ان کی فکریں ریاست کے مسائل پر مثلاً ذبیحہ اور شہریت کے مسئلے پر مرکوزہے۔ ملکی سطح پر جماعتوں، مسلکوں اور اداروں کے ذمہ داران اور ان میں بھی انتہائی غوروفکر کرنے والے حضرات سر جوڑ کر بیٹھیں گے تو اللہ تعالی بھی ہماری نصرت فرمائے گا اور راستوں کو کھولے گا۔
وقتی طور پر بھیڑ کے بھیڑیئے بن جانے کا علاج یہ ہے کہ جہاں اندیشے ہو وہاں اکیلے نہ جائیں، خواتین کو ساتھ نہ لے جائیں، حالات میں گھر ہی گئے تو ڈرنے اور گھبرانے کے بجائے جرأت و ہمت سے کام لے، اسلام عزیمتوں کو اختیار کرنے والوں کا دین ہے، رخصتیں بھی ہیں لیکن وہ کم ہے۔’’کلمہ کفر‘‘ کہنے کی بھی اجازت ہے لیکن عزیمت و شجاعت یہ ہے کہ ’’مومنانہ ‘‘کردار ادا کیا جائے۔لوگ حملہ کرتے ہیں تو مار کھانے کے بجائے مارنے کی بھی ہمت پیدا کی جائے۔ موت اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہےجس کا وقت متعین ہے وہ اپنی مقررہ وقت سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتی، مزاحمت کرتے ہوئے جان چلی جاتی ہے تو شہید کہلانے کے مستحق ہو جائیں گے۔ حدیث رسول ﷺ ہیکہ ’’ جو مسلمان اپنی جان ومال بچاتا ہوا مارا جائے وہ شہید ہے۔‘‘ اس حدیث شریف میں’’جان و مال‘‘ بچانے کے عمل پر شہادت کی بشارت دی گئی ہے ،یہی مزاحمت ہے۔ اگر ہم جنت کے راہی ہے تو حملہ آوروں میں سے کچھ جہنم رسید ہونے ہی چاہیے،یہی مزاحمت ہے۔ اب تو سپریم کورٹ نے بھی گھروں پر حملہ کرنے والوں کے خلاف قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دے رکھی ہے۔ جبکہ شریعت تو جان و مال ، عزت و آبرو اور دین کے تحفظ کے معاملے میں پہلے ہی نہایت صاف اور شفاف ہے۔
دوسرے اگر کوئی بھیڑ کے حملے کا شکار ہو رہاہوں تو قریب کے لوگوں کا فرض ہے کہ اسے بچایا جائے، تماشہ دیکھنے، ویڈیو بنانے کے لیے نہیں بلکہ اپنے بھائی کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔حدیث رسول ﷺ ہیکہ ’’مسلمان‘مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اسے بے یارومددگار چھوڑے۔‘‘ (مسلم) یہ حدیث ہمیں اپنے بھائی کی مدد کرنے اور اسے ایسے کسی حال میں نہ چھوڑنے کا حکم دیتی ہے جس سے اسے نقصان پہنچ سکتا ہو۔ اپنے بھائی کی مدد کرتے ہوئے ہو سکتا ہے کہ حملہ آوروں سے مقابلہ بھی کرنا پڑے اس لیے بھی ہمیں تیار رہنےکی ضرورت ہے۔
تیسری بات اس ضمن میں یہ ہے کہ قرآن کہتا ہےکہ ’’جب ان پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے تو وہ مقابلہ کرتے ہیں۔‘‘ بعض ترجموں میں یہ ہے کہ وہ ’’بدلہ ‘‘لیتے ہیں۔ اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ایمان کی بہت ساری صفات بتلائی ہے ان میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ ’’ظلم کے خلاف کھڑے ہوتے ہیں، مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کا بدلہ لیتے ہیں‘‘  تاکہ ظالم ہمیں ’’نرم لقمہ ‘‘ نہ سمجھ بیٹھیں۔
ہماری ذمہ داریوں کی ادائیگی کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے۔ اپنی طرف سے پوری کوشش کریں کہ حالات خراب نہ ہو۔ جہاں تک ہو سکے ٹکراؤ کو ٹالتے رہے لیکن جب جان و ایمان پر بن ہی آئے تو عین ’’مومنانہ کردار ‘‘ادا کیا جائے اور شاید حالات ہمیں اسی جانب لے جارہے۔ ’’حسن سلوک اور دعوت ‘‘ دونوں ہماری مستقل ذمہ داریوں میں سے ہے، انہیں ان کا مقام دینا ضروری ہےکہ عام حالات میں یہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے لیکن ’’غیر معمولی حالات ‘‘میں ایمان، تقویٰ، استقامت و مزاحمت  کاعمل ہی ہمیں دینی و دنیوی معاملات میں سرخرو کرسکتا ہے۔
بھیڑ کا بھیڑیئے بن جانا ہر طرف نظر آرہا ہے لیکن اس کی روک تھام کے لیے لئے اہل اقتدار کی زبانیں خاموش ہیں،اس خاموشی سے ان کی رضامندی کا پتہ چلتا ہے۔ ہجومی تشدد ایک مسئلہ ہے اس کا حل بھی نکالاجاسکتا ہے اور دوسرے مسائل کو بھی سوچ و فکر کے ساتھ حل کیا جا سکتا ہے۔  ذبیحہ، شہریت کا مسئلہ، طلاق ثلاثہ، یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ، تعلیمی اداروں و نوکریوں میں تحفظات کا مسئلہ، دہشت گردی کے نام پر نوجوانوں کی گرفتاریاں، جدید تعلیم یافتہ مسلم لڑکیوں کے غیر مسلموں سے شادی رچانے کا مسئلہ، تعلیم کو زعفرانی رنگ دینے اور دینی مدارس کو سیکولر بنانے کا مسئلہ، اعلی تعلیمی اداروں کے کمرشل رجحانات اور اوقاف کی بندر بانٹ جیسے کئی موضوعات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ان مسائل میں خود اپنے ایمانی مطالبات کو پورا کرنے اور دین کے مطابق زندگی رواں دواں رکھنے کی ہر حال میں ضرورت ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو ’’ہتھیلی پر انگارہ‘‘رکھنے جیسا ہے۔