Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, July 24, 2019

کچے چمڑے کے دام میں گراوٹ:!! حقیقت کیا ہے؟؟

از/ایچ اے رقیب   سکریٹری انذین سینٹر فار اسلامک فاٸننس۔/صداٸے وقت/ تبریز عالم خان ممبٸی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ویڈیو پیغام واٹس آپ کے ذریعہ خوب گردش کر رہا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ  کچے چمڑوں کے دام  میں جو گراوٹ آئی ہے وہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت رچائی گئی ہے، تاکہ عید الاضحی کے موقع پر مدارس اسلامیہ کو جانورں کے چمڑوں کی شکل میں ملنے والے عطیاجات اور اس سے ہونے والی آمدنی پر روک لگے۔یہ خبر بے بنیاد اور غلط فہمی  پر مبنی ہے۔،
چمڑے اور اس سے تیار کی جانے والی مصنوعات کا بڑا حصہ بین الاقوامی  بازار کے لئے بنتی ہیں

 *لہذا یہ تجارت ہمیشہ بین الاقوامی مارکیٹ  کے اتار چڑھاوُ کے زد میں رہتی ہے۔* آج بین الاقوامی فیشن انڈسٹری میں *چمڑے سے بنی مصنوعات کی مانگ بہت کم ہو چکی ہے* اسی وجہ سے چمڑے کی کھپت میں بہت گراوٹ آئی ہے۔ آج سے دو تین سال پہلے تک *نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا* کے بازار میں کچے چمڑے اور ویٹ بلیو خریدنے کے لئے چھ مہینے پہلے بکنگ کرنی پڑتی تھی اور اٰن کے دام پر مجبوراً ًخریدنی پڑتی تھی۔مکر آج وہ لوگ منت سماجت کر کہ اپنا مال بےحد کم داموں پر بیچ رہے ہیں۔

اسی طرح *برازیل* کے چمڑوں کے داموں میں تین چوتھائی گراوٹ آئی ہے۔ کیا وہاں بھی کوئی مدارس کو چندہ دینے والے لوگ ہیں کہ ان کو سزا دینے کے لئے داموں کو گرایا گیا؟ *قرآن مجید کا حکم ہے کہ کوئی بھی خبر آئے تو پہلے تحقیق کی جائے پھر دوسروں کو بتایا جائے*
پیغام بھیجنے والے نے مشورہ دیا ہے کہ کم داموں میں بیچ کر اہل حکومت اور غیر مسلم کارخانہ داروں کو فائدہ پہنچانے کے بجائے چمڑوں کو زمین کے اندر گاڑھ دیا جائے۔ شائد ان کو پتہ نہیں کہ *آج بھی ستر فیصد ٹینری کے مالکان مسلمان ہیں اور وہ لوگ بھی سستے داموں میں چمڑے خرید کر سستے داموں ہی میں بیچ رہے ہیں۔* لاری کا کرایہ اور بنانے کا خرچ کچے چمڑوں کے دام سے دُگنا ہو گیا ہے۔ *ایسے میں اگر کوئی چمڑے کو پھینکنے والی نادانی کرے تو اس کا نقصان خود ان کے ہی بھائیوں کو ہوگا*، نہ کہ حکومت کو یا کسی دشمن کو۔لہذا دانشمندی کا تقاضہ ہے کہ ان حالات میں قرآن کی اس آیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے صبر کا دامن تھامے رہیں۔تلك الأيام نداولها بين الناس-اور اپنے اور اپنے اداروں کے اخراجات کو کم سے کم تر کریں اور اللہ رب العزت سے حالات میں سدھار کی دعا کرتے رہیں۔
*H. A. Raqeeb*
Secretary
Indian Center For Islamic Finance (ICIF)
New Delhi