Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 18, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔۔۔۔٢١ ویں قسط۔


✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
========================
*ندوۃ العلماء اور بریلی کا تعلقِ باہم*
...................................................
جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ بانئ بریلویت ندوۃ العلماء لکھنؤ کی تحریک میں ابتداءً شریک رہے، مگر بعد میں کسی بات پر ناراض ہو کر اس تحریک کے پیچھے پھر ایسے پڑے کہ اخلاق و دیانت کی ساری حدود پامال کر بیٹھے۔ آج کی قسط میں اسی اجمال کی تفصیل منظور ہے۔
جدید قارئین کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ ندوۃ العلماء لکھنؤ کسی تعلیمی ادارے کا نام نہیں تھا، یہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرح ایک تحریک تھی، جس میں عربی فارسی نام والے ہر فرقے کی شمولیت تھی، چناں چہ پہلے ہی اجلاس میں جن شخصیات نے شرکت کی تھی، ان میں غیر مقلدین کی طرف سے مولوی محمد حسین بٹالوی اور شیعہ کی طرف سے غلام الحسنین کنتوری شریک ہوئے تھے۔ احناف میں اس وقت تک کوئی پھوٹ نہیں پڑی تھی۔ بانئ بریلویت اگرچہ اپنی بدعات و خرافات میں وراثتۃً مست تھے، مگر اپنے مسلک کی بنیاد ابھی نہیں ڈال پائے تھے۔ یہ کام تو 1313 ہجری کے بعد شروع ہوا۔
*ندوۃ العلماء لکھنؤ کا پہلا اجلاس*

.....................................................
ندوے کا پہلا اجلاس شوال 1311 ہجری مطابق اپریل 1894 میں ہوا۔ یہ اجلاس سہ روزہ تھا اور  کانپور کے مدرسہ فیضِ عام میں منعقد ہوا تھا۔ اس میں متحدہ ہندوستان کی جہاں دیگر نمایاں شخصیات جمع تھیں، وہیں بریلی سے جناب احمد رضا خاں بھی شریک تھے۔ اس اجلاس کی دعوت سے انہیں کتنی خوشی تھی اس کا اندازہ آپ اس سے لگا سکتے ہیں کہ اس میں پیش کرنے کے لیے باقاعدہ ایک رسالہ لکھا اور اسے پیش بھی کیا۔ اتنا ہی نہیں، اس رسالے میں مفتی عنایت احمد کاکورویؒ، مولانا لطف اللہ علی گڑھی اور مولانا احمد حسن کانپوریؒ کی بڑی پذیرائی بھی کی تھی۔
ندوۃ العلماء کے مقاصد میں ایک بڑا مقصد ہندوستان کے تمام مدارس کو ندوے کے تحت لانا تھا تاکہ مقتضائے حال کے مطابق جدید نظامِ تعلیم اور نصاب مرتب کر کے طلبہ کو پڑھایا جا سکے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے ابتدائے بنا سے ہی کوششیں جاری تھیں۔ اس اولین اجلاس میں اس پر کافی زور رہا اور شرکائے اجلاس کی زور دار تقریریں بھی ہوئیں۔ اصلاحِ نصاب کی تجویز بھی کثرتِ رائے سے منظور ہوئی۔
*بارہ علما کی کمیٹی میں بانئ بریلویت بھی*
اصلاحِ نصاب کے لیے باقاعدہ ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی، جس کا کام موجودہ نصاب اور طریقۂ تعلیم پر غور کر کے اپنی سفارشات پیش کرنا تھا۔ اس مجلس میں جن بارہ علمائے امت کے نام تھے ان میں استاذ العلماء مولانا لطف اللہ صاحب، مولانا عبدالحق حقانی، مولانا سید ظہور الاسلام صاحب، مولانا ابراہیم صاحب آروی، مولانا شاہ محمد حسین الہ آبادی، مولانا شاہ محمد سلیمان پھلواروی، مولانا شبلی نعمانی، مولانا محمد علی مونگیری، مولانا عبدالغنی صاحب، مولانا محمد حسین بٹالوی، مولانا عبداللہ انصاری کے ساتھ جناب احمد رضا خاں صاحب بھی شامل تھے۔ اسی سے واضح ہوتا ہے کہ تحریکِ ندوہ سے خان صاحب کی وابستگی کتنی گہری اور دل چسپی سے کس قدر معمور تھی۔
*ندوہ کا تیسرا اجلاس اور خان صاحب کی تخریبی کوششیں*
....................................................
ندوہ کا پہلا اجلاس کانپور میں ہوا اور دوسرا اجلاس اگلے ہی سال قیصر باغ بارہ دری لکھنؤ میں۔ یہ بھی سہ روزہ تھا اور ماہ بھی شوال اور اپریل کا تھا۔ اس تقریب میں شرکت کے لیے مدارس کے مہتممین، ذمہ دارانِ انجمن اور مدیرانِ اخبارات سمیت تحریکِ ندوہ کے مخصوص اراکین کو بھی دعوت دی گئی تھی۔ بانئ بریلویت تک بھی دعوت نامہ آیا، وہ لکھنؤ میں شریک بھی ہوئے، لیکن پھر نہ جانے کیا ہوا ناراض ہوگئے۔ ان کی ناراضگی کے ظاہری اسباب کا تحریری طور پر کوئی اتہ پتہ نہیں ملتا۔ سینہ بہ سینہ جو وجہ ہم تک پہونچی ہے وہ یہ ہے کہ اجلاسِ لکھنؤ میں جو کچھ ہوا، وہ ان کی منشا کے خلاف تھا۔ انہیں لگا کہ مناسب تعظیم و تکریم سے اربابِ ندوہ نے کام نہیں لیا ہے۔ وہاں سے واپس آئے تو جوشِ انتقام سے لبریز ۔ کئی تحریریں بھی کے قلم سے نکل چکی تھیں۔ پہلے اور دوسرے اجلاس کی شان دار کامیابیوں کے بعد ندوہ کی مجلسِ انتظامیہ نے طے کیا کہ اس کا تیسرا اجلاس اگلے سال کلکتہ میں کیا جائے گا، لیکن اجلاس میں شریک بریلی کی نمایاں شخصیات مولانا سید اشفاق حسین صاحب، حاجی شیخ قادر بخش اور مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ نے کلکتہ کی بجائے بریلی میں انعقاد کی دعوت دی۔ یہ وہی مولانا اشفاق صاحب ہیں جنہوں نے بریلی میں مدرسہ اشفاقیہ قائم فرمایا۔ یہ اس وقت انجمن اسلامیہ بریلی کے صدر تھے اور ڈپٹی کلکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہو کر پنشن پا رہے تھے۔ مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ اس وقت مدرسہ مصباح العلوم بریلی کے صدر المدرسین تھے۔
تیسرے اجلاس کا انعقاد بریلی میں ہونے کا اعلان کیا گیا تو بانئ بریلویت نے سارا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ اسے کسی صورت یہاں ہونے نہ دیا جائے۔ اجلاس کے خلاف ان کی کوششوں کی خبر بانئ ندوہ حضرت مولانا محمد علی مونگیریؒ تک بھی پہونچ رہی تھی۔ انہوں نے اس حرکت سے باز رہنے کے لیے 11 رمضان 1313 ہجری کو ان کے نام خط لکھا اور بایں الفاظ گزارش فرمائی:
*ذرا غور فرمائیے، ہماری سختی اور تشدد نے ہمارے فرقے اہلِ سنت اور بالخصوص احناف کو کیسا سخت صدمہ پہونچایا ہے! ہندوستان میں تقریباً تمام اہلِ سنت حنفی تھے۔ غیر مقلدین کا شاید نشان بھی نہ ہو ۔ ابتدا میں ایک دو شخصوں کی رائے نے غلطی کی، انہوں نے بعض مسائل میں اختلاف کیا، ہمارے بعض حضرات نے بنظرِ حمایتِ حق انہیں مخاطب بنایا اور انہیں روکا۔ اگرچہ ان کی نیت خیر تھی اور اس کا ثواب وہ پائیں گے، مگر اتنی مدت کے تجربہ نے یہ معلوم کرا دیا کہ یہ حمایت خلافِ مصلحت ہوئی۔ اب اخراج عن المساجد کا فتویٰ مشتہر ہوا۔ جب سے ہمارے گروہ کو ذلت کا سامنا ہوا، غیر مسلم حاکموں کے روبرو ہم مجرموں کی طرح پکڑے ہوئے جاتے ہیں، ہمارے دین و ایمان کی کتابیں ان کے پیروں پر رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہم اور ہمارے علما کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں اور ہمارے مخالفین کو ڈگریاں ملتی ہیں۔ افسوس صد افسوس! ہمیں اپنے پاک مذہب کی اس ذلت پر ذرا نظر نہیں ہوتی۔
مولانا! خدا کے لیے غور کیجیے، اور ہمارے دشمنانِ دین کو ہم پر اور ہمارے پاک مذہب پر ہنسنے کا موقع نہ دیجیے* ۔ (تاریخِ ندوہ، ص 172،173)
غور کیجیے! بانئ ندوہ نے کتنی منت سماجت کر کے بانئ بریلویت کو سمجھانے کی کوشش کی۔ لہجے میں کتنی عاجزی اور خاکساری تھی۔ شریعتِ مطہرہ کا حوالہ کس دل سوزی کے ساتھ دیا تھا۔ ان کا تقاضا تھا کہ خان صاحب نرم ہو جاتے۔ ان کی معاندانہ برف پگھلتی۔ ان کے تیور سے اعترافِ قصور کی خوشبو آتی، مگر ایسا کچھ نہ ہوا، تحریکِ ندوہ کی مخالفت میں وہ ایسے دھت ہوئے تھے کہ اول فول لکھے جا رہے تھے اور دلیل پر دلیل دیے جا رہے تھے۔ یہ صورتِ حال دیکھ کر ندوہ کے ایک دوسرے خیرخواہ نے ان کے سارے اعتراضات کے جوابات لکھے اور اخیر میں کہا:
*لیجیے! آپ حق پر ہیں۔ آئیے اور ہماری لغزشوں کی مخدومانہ اصلاح کیجیے۔ ہم کو جو کچھ ہم سے لغزشیں ہوئیں اور آئندہ سیکڑوں ہوں گی، ان پر ہرگز اصرار نہیں، مگر روٹھ کر گھر نہ بیٹھیے، ملیے اور برادرانہ گلے شکوے روبرو کیجیے، تاکہ صفائی ہو جائے* ۔
ان مصالحانہ کوششوں کا کوئی اثر نہ ہوا۔ مخالفت جاری رہی۔ خان صاحب نے اس اجلاس کو ملتوی کرانے کے لیے ایڑی چوٹی کا جیسا زور لگایا تھا، اس سے خطرہ ہو چلا تھا کہ بریلی کا اجلاس ناکام ہو جائے گا، مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ اجلاس ہو کر رہا اور پوری تام جھام سے ہوا۔ بلکہ اس جلسے کے انتظامات اتنے شان دار تھے کہ آج انہیں سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ یہ اجلاس بھی سہ روزہ تھا اور پچھلے اجلاسات کی طرح یہ بھی شوال میں ہوا تھا۔ حاضرین کی تعداد پچھلے جلسوں سے کئی گنا زیادہ تھی۔ اسی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ شہرِ بریلی پر خان صاحب کی گرفت کس درجہ ڈھیلی تھی۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: ندوہ کے خلاف خان صاحب کے تحریری کارنامے اور ندوے کی طرف سے ان کا جواب]