Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 1, 2019

تبریز انصاری پر ہوٸے ہجومی تشدد کے خلاف جمیتہ علمإ جھار کھنڈ نے ہاٸی کورٹ سے رجوع کیا۔


مقامی پولس آفیسران اور ڈاکٹروں کے خلاف مقدمہ قائم کیا جائے۔
گلزار احمد اعظمی ۔
ممبئی ۱/ جولائی /صداۓوقت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہجومی تشدد کے شکار جھارکھنڈ کے تبریز انصاری کے اہل خانہ اور مسلمانوں کے تحفظ کو لیکر جمعیۃ علماء ہند (ارشد مدنی) نے جھارکھنڈ ہائی کورٹ رانچی میں ایک کریمنل رٹ پٹیشن داخل کی ہے جس میں خاطی پولس افسران وڈاکٹروں کے خلاف مجرمانہ مقدمات قائم کرنے کامطالبہ کیا گیا ہے۔
جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ جناب گلزاراحمد اعظمی نے آج ممبئی میں اخبار نویسوں کو بتایا کہ 18جون 2019 کو جھارکھنڈ کے شہر کھرسوا میں جمشید پور سے لوٹ رہے تبریز انصاری کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیاجس کے بعد اس کی پولس تھانے میں موت ہوگئی، حالانکہ پولس نے پپو نامی شخص پر مقدمہ درج کیا ہے لیکن ہجومی تشدد کی جو وارداتیں جھارکھنڈ میں لگاتار ہورہی ہیں اور حکومت جھارکھنڈ سپریم کورٹ کی گائڈ لائنس کو نافذ کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اس کے خلاف مولانا سیدارشد مدنی (صدر جمعیۃ علماء ہند کی ہدایت پر ممبئی سے ایڈوکیٹ افروز صدیقی وایڈوکیٹ انصارتنبولی کو رانچی روانہ کیا گیا جہاں انہوں نے جمعیۃ علماء جھارکھنڈ کے نائب صدرالحاج منظور احمد انصاری،ونائب صدر جمعیۃ علماء جھارکھنڈ منظر احمد خان ومفتی شہاب الدین قاسمی جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء جھارکھنڈ سے 
رابطہ قائم کیا۔

نیز ان حضرات کے ہمراہ رانچی ہائی کورٹ کے سینیئر ایڈوکیٹ عبد العلام،ایڈوکیٹ شرحبیل،وڈسٹرکٹ ایڈوکیٹ الطاف احمد سے ملاقات کی جن سے باہمی تبادلہ خیال کرنے کے بعد یہ طے پایا کہ تبریز انصاری کے لواحقین سے ملاقات کی جائے اور انہیں اس بات پر ٓامادہ کیا جائے کہ وہ جھارکھنڈ ہائی کورٹ رانچی میں اس ہجومی تشدد کے خلاف ایک عرض داشت داخل کریں لہذا تبریز انصاری کے بڑے چچا حافظ مسرور احمد،چھوٹے چچا مقصود احمد،تبریز انصاری کی بیوہ کے چچا شیخ محبوب اور تبریز انصاری کے پڑوسی قربان احمد سے ملاقات کرنے کے بعد جوکہ اس واردات کے گواہ بھی ہیں یہ طے پایا کہ جمعیۃ علماء مہاراشٹر قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے تبریز انصاری کے چوٹے چچا مقصود احمد کی جانب سے رٹ داخل کی جائے۔ 
جس میں یہ درخواست کی جائے کہ ہجومی تشدد کا شکار ہونے والے تبریز انصاری کے معاملے کی آزادانہ تحقیقات سی،بی،آئی سے کرائی جائے نیز تفتیش ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے زیر نگرانی ہو اور تفتیش کی رپورٹ ہائی کورٹ میں داخل کی جائے،عرضداشت میں مزید یہ درخواست کی جائے کہ خاطی پولس افسران وڈاکٹروں کے خلاف فاسٹ ٹریک عدالت میں مقدمہ چلا جائے، جیل سپرنٹنڈنٹ اور جیل ڈاکٹر کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے اسی کے ساتھ ساتھ صدر اسپتال میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا جائے کیونکہ متذکرہ دونوں ڈاکٹروں نے تبریز انصاری کو بروقت معقول طبی امداد نہیں پہونچائی ورنہ اس کی جان بچ جاتی۔
عرضداشت میں مزید درخواست کی جائے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ریاستی حکومت فوراً فاسٹ ٹریک عدالت کا قیام عمل میں لائے اور مقدمہ کی سماعت جلد از جلد شروع کی جائے نیز ناصرف تبریز انصاری کا مقدمہ فاسٹ ٹریک عدالت میں منتقل کیا جائے بلکہ ہجومی تشدد کے تمام مقدمات کو فاسٹ ٹریک عدالت کے ذریعہ چلائے جائیں اور مقدمات چھ ماہ کے اندر فیصل کیئے جائیں۔
جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی بہت جلد تبریز انصاری کی بیوہ کے ذریعہ پچاس لاکھ روپیہ ہرجانہ کے تعلق سے ایک سول پٹیشن جھار کھنڈ ہائی کورٹ میں داخل کرنے جارہی ہے،اور اسی کے ساتھ سپریم کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن داخل کرکے تبریز انصاری کے مقدمہ کو دوسری ریاست میں منتقل کر نے کی درخواست دے رہی ہے۔
واضح رہے کہ ہجومی تشدد کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں متعدد عرضداشتیں زیر سماعت ہے لیکن 17جولائی 2018 کو سبکدوش چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشراء، جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑنے اپنے ایک فیصلہ میں مرکزی حکومت سمیت تمام ریاستی حکومتوں کو ہجومی تشدد کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت جاری کی تھی لیکن ابتک سوائے منی پور کی حکومت کے مرکزی حکومت اور نہ ہی کسی بھی ریاستی حکومت نے اس پر عمل کیا جس کا نتیجہ ہجومی تشدد کے بڑھتے واقعات ہیں،19 جولائی 2019 کو ان ہی عرضداشتوں پر دوبارہ سماعت متوقع جہاں حکومت کی ناکامی اور عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی پر بحث ممکن ہے۔اور جمعیۃ علماء بھی وکلا ء سے مشورہ کے بعد سپریم کورٹ میں بحیثیت مداخلت کارحصہ لے گی۔