Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 1, 2019

عقل و روح کی کشمکش۔۔۔!!!!


تحریر :بالی ووڈاداکارہ
زائرہ وسیم
ترجمہ: مولانا ڈاکٹر ضیاء الرحمن علیمی                
استاذ جامعہ عارفیہ ،سید سراواں،الہ آباد .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔صداٸے وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پانچ سال پہلے میں نے ایسا فیصلہ کیا جس نے ہمیشہ کے لیے میری زندگی بدل دی،جب میں نے بالی وڈ کی دنیا میں قدم رکھا تو میرے لیے زبردست مقبولیت کے دروازے کھلے،اور میں عام توجہ کی مرکزی شخصیت بننے کی راہ پر گامزن ہوگئی،مجھ کوکامیابی کی کتاب مقدس کے طور پر پیش کیا گیا اور نئ نسل کے لیے ایک رول ماڈل کے طورپر بہت زیادہ مجھے پہچانا جانے لگا،حالانکہ نہ تومیری جدوجہداس غرض سے تھی اور نہ میرا یہ مقصودتھا ،خصوصا کامیابی اور ناکامی کی وہ دنیا جس کی جستجو ابھی ابھی میں نے شروع کی تھی،اس کے حوالے سے میری یہ فکر نہیں تھی۔

آج جب کہ بالی وڈ کی دنیا میں داخل ہوئے میرے پانچ سال مکمل ہو گئے ہیں میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتی ہو ں کہ میں اپنے اس دائرۂ کار اور اپنی اس شناخت سے خوش نہیں ہوں،بہت لمبے عرصے سےاور تاہنوز میں نے محسوس کیا ہے کہ میں کچھ اور ہی بننے کے لیےجد وجہد کرتی رہی ہوں ، جب میں نے اس دنیا کی سیر شروع کی اور ان چیزوں کاشعور حاصل کرنے کی کوشش کی جس کے لیے میں نے اپنا وقت لگایا ہے، جد وجہد صرف کی ہےاور اپنے جذبات کو قربان کیا ہے اور جس نئ زندگی سےمانوس ہونے اوراس کو سنبھالنے کوشش کی ہے ،تو بالآخر مجھے یہی احسا س ہوا کہ اگرچہ میں اس دنیا میں مکمل طور پر فٹ ہو سکتی ہوں لیکن حقیقتا میرا اس دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اس نئ دنیا نے اگر چہ مجھ کو محبت ،حمایت اور داد وتحسین سے نوازا ہے لیکن اس نے مجھ کو جہالت وگمرہی کی راہ پر بھی ڈال دیاہے ،کیوں کہ میں آہستگی کے ساتھ اور لاشعوری پر طورپر ایمان سے باہر ہو گئی ہوں۔ میں اس ماحول میں کام کرتی رہی جس سےمسلسل میرےایمان میں کمزوری پیدا ہوتی رہی اور دین سے میرا رشتہ کو خطرہ لاحق ہو تا گیا ،میں جہالت کی اسی حالت میں آگے بڑھتی رہی اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ میں جو کرہی ہوں ٹھیک ہی کر رہی ہوں اور اس سے میری ایمانی زندگی متاثر نہیں ہورہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس طرح میری زندگی سے ساری برکتیں ختم ہو گئیں۔
برکت ایسا لفظ ہے جو صرف دنیاوی خوشی،مال ودولت اور ظاہری خوش حالی میں محدود نہیں ہے بلکہ اس میں زندگی کاوہ اعتدال وتوازن بھی شامل ہے جس کے لیے میں بہت زیادہ جد وجہد کرتی رہی ہوں ۔میں اپنی روح سے لگاتار جدوجہد کرتی رہی کہ وہ میرے موجودہ افکارو خیالات  کے سامنے ہتھیار ڈال دے اور میں اپنی فطرت سے لڑتی رہی کہ وہ  میرے ایمان کی  بے روح تصویر کوقبول کرلے لیکن میں بری طرح ناکام ہوئی،صرف ایک مرتبہ نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ۔
        میں نے بالی ووڈ سے علا حدگی کے اپنے اس فیصلے کو مضبوط کرنے کی بہت کوشش کی،لیکن ہر بار میرے اندر یہی احساس رہا کہ ایک دن میں اپنے آپ کو بدل دوں گی اور جلد ہی بدل دوں گی۔میں اپنے فیصلے میں ٹال مٹول کرتی رہی اور اپنے ضمیر کو اس فکر سے دھوکہ دیتی رہی کہ جو میں کر رہی ہوں وہ اگرچہ صحیح نہیں ہے لیکن جب مناسب وقت آئے گا تو میں اس دنیا کو الوداع کہہ دوں گی ،میں نے مسلسل اپنے آپ کو اس خطرناک ماحول میں روک کر رکھا جہاں میں آسانی کے ساتھ برائیوں میں بہہ سکتی تھی۔وہ ماحول جس نے  میرے قلبی سکون ،ایمان ،اور میرے ر ب سے میرے تعلق کو نقصان پہنچا یا۔ میں مسلسل چیزوں کا احساس کرتی رہی اور اپنی فکر کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتی رہی لیکن صحیح معنوں میں یہ نہیں سمجھ سکی کہ چیزوں کو ان کی حقیقت کے مطابق دیکھنا زیادہ اہم ہے ۔میں اس فیصلے سےمسلسل گریز کرتی رہی لیکن کسی نہ کسی طرح میں نے بالآخر اوہام خیالات کے اس بے نتیجہ سلسلے پرضرب لگائی اور اس تسلسل کو توڑاجس سے حقیقت کا عنصر غائب تھا ،وہ جو مجھ کو مسلسل اذیت پہنچا رہا تھا،اور جس کا نہ تو مجھے شعور وادراک ہو پارہا تھا اور جس سے نہ میں خود کو مطمئن کر پارہی تھی،یہاں تک کہ میں نے اپنی کمزوری سے لڑنے کا فیصلہ کیا اور جد وجہد شروع کی اور اپنی لاعلمی کی تلافی کرنے کی کوشش کی اور طریقہ یہ اختیار کیا کہ میں نے اپنا دل کلام الہی سے لگا لیا ۔میں نے قرآن کریم کے عظیم افکار وخیالات اور الہی حکمتوں میں اطمینان اور سکون پایا، یقینی طور پر دل کو جب خالق کی ذات،اس کے اوصاف ،اس کی رحمتوں اور اس کے احکام کی معرفت حاصل ہوتی ہے توا س کو چین وسکون حاصل ہوتا ہے ۔
میں نے خود اعتمادی کو اہمیت دینے کے بجائےاپنی مدد اور رہنمائی کے لیے اللہ کی رحمت پر بہت زیادہ اعتماد کرنا شروع کر دیا، مجھے اپنے دین کی بنیادی احکام سے ناواقفیت کا احساس ہوا اور اس بات کا بھی احساس ہوا کہ پہلے ہی میں اپنی اس حالت میں اس لیے تبدیلی نہ لا سکی کہ میں نے اپنے قلبی اطمینان اور روحانی صحت کے ساتھ ساتھ اپنے کھوکھلے اور بے جان خواہشات کی تقویت اور تکمیل کی کوشش کی ، مجھے شک و وہم کی اس بیماری کا بھی ادراک ہوا جو میرے دل کو لگ چکی تھی ۔
دل پر دوطرح کی بیماریوں کا حملہ ہوتا ہے ایک تو شک ووہم کا،اور دوسری خواہشات کا ،ان دونوں کا ذکر قرآن میں ہے ،اللہ تعالی کاارشاد ہے :ان کے دلوں میں شک ونفاق کی بیماری ہے اور اللہ نے ان کی بیماری کو بڑھا دیا ۔(البقرہ:۱۰)
مجھے یہ احساس ہوا کہ اس بیماری کا علاج ہدایت ربانی سے ہی ہو سکتا ہے ،اور یقینی طورپر اللہ تعالی نے میری رہنمائی فرمائی جب کہ میں راہ سے بھٹک گئی تھی ۔قرآن مجید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات میرے اس فیصلے کا اہم سبب بنیں،اس فیصلے نے زندگی اور اس کےمفہوم کے حوالے سے میری سوچ کو بدل دیا ہے ۔جس طرح ہماری خواہشات ہماری اخلاقیات کی عکاس ہیں، ہمارے اقدار ہماری باطنی قوت کا ظاہرہ ہیں ایسے ہی قرآن وسنت سے ہمارا تعلق رب تعالی، ہمارے دین ،ہماری تمنائیں ،زندگی کی معنویت اور اس کی مقصدیت کے حوالے سےہمارے رشتےکو متعین کرتا ہے اور اس کو واضح کرتا ہے ۔ میں نے اپنی کامیابی کی فکر، زندگی کی معنویت اور مقصد یت کی گہرائی میں اتر کر اس کی گہری بنیادوں پر اچھی طرح غور وفکر کیا اور ان کو بحث وتحقیق کے کٹہرے میں کھڑا کیا ،چنانچہ وہ بنیاد یں جو کہ ا ب تک مجھ پر غلبہ حاصل کیے ہوئے تھیں اور میرے افکار وخیالات کو متاثر کر رہی تھیں ،اس میں اب نئ جہت سے نشوو نما پیدا ہوئی اور معلوم ہوا کہ کامیابی ہمارے تعصب وتوہم کی بنیادوں پر قائم زندگی کے کھوکھلے پیمانوں کے ساتھ جڑی نہیں ہے ،کامیابی تو اپنے مقصد تخلیق کی تکمیل کا نام ہے ،ہم اپنے مقصد تخلیق کو فراموش کر گئے ہیں ؛کیوں کہ ہماری زندگی جہالت وگمرہی کے ساتھ آگے بڑھی جا رہی ہےاور ہم اپنے ضمیر کو دھوکہ دیے جارہے ہیں، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: (تاکہ ان لوگوں کے دل جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں ان کی امیدوں کی جانب مائل ہو جائیں اور وہ اس چیز سے خوش ہو جائیں اور وہ لوگ جوشر کرنا چاہتے ہیں وہ کریں)(الانعام :۱۱۳)
ہمارا مقصد، ہماری سچائی یا ہماری خشیت کی شناخت ہمارے خود غرضانہ عمل سے نہیں ہوتی ،دنیاوی پیمانوں سے اس کو ناپا نہیں جا سکتا ،اللہ تعالی کا ارشاد ہے :قسم ہے زمانے کی یقینی طورپر انسان بڑے گھاٹے میں ہے ،صرف چند وہ لوگ اس سے مستثنی ہیں جو ایمان رکھتے ہیں ، اچھے اعمال کرتے ہیں، ایک دوسرے کو سچائی کی دعوت دیتے ہیں اور صبر واستقامت کی وصیت کرتے ہیں ۔(العصر)
روح کے ساتھ میری جد وجہد کا یہ سفر بڑا پر مشقت رہا ہے ۔خود سے جد وجہد کے لیے یہ زندگی مختصر بھی ہے اور طویل بھی، اس لیے آج میںا س مضبوط فیصلے پر پہنچی ہوں اور میں بالی وڈ کی دنیا سے اپنی علیحدگی کا آفیشیل اعلان کرتی ہوں ۔
سفر کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ آغاز کس طرح سے کرتے ہیں ،اور میں بالی وڈ کی دنیا سے اپنی لا تعلقی کا جو اعلان کر رہی ہوں ،اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ میں لوگوں کے سامنے اپنی شخصیت کی پر تقدس تصویر پیش کر سکوں بلکہ یہ وہ سب سے چھوٹی چیز ہے جس سے میں از سرنو اپنی زندگی کا آغاز کرنا چاہتی ہوں ،اور یہ حق و ہدایت کی معرفت اور اس راہ تک پہنچنے کے بعد یہ میرا پہلا قدم ہے ، وہ راہ کہ جس پر چلنے کی میری تمنا تھی ،وہ راہ جس تک پہنچنے کے لیےمیں اب تک محنت کرتی رہی رہوں، اس دوران ہو سکتا ہے کہ میں نے بہت سے دلوں کی زمین میں شعوری یا لاشعوری طورپر خواہشات اور رنگینیوں کے بیج بوئی ہو لیکن میرا سب کو مخلصانہ مشورہ یہ ہے کہ کوئی بھی کامیابی ،شہرت ،طاقت ،جاہ ومنزلت ،اور مال ودولت خواہ وہ کتنی بڑی اور کتنی زیادہ کیوں نہ ہو لیکن اگران سے ہمارا اطمینان اور چین وسکون کھو جائے ،یا ہم اپنے ایمان سے محروم ہو جائیں تو یاد رکھیں کہ عظیم چیزوں کے عوض معمولی چیزوں کو نہیں خریدا جا سکتا۔
اپنی خواہشات کے سامنے نہ جھکنےکے لیے جد وجہد کیجیے ؛کیوں کہ خواہشات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ ایک کے بعد ایک خواہشات کا سلسلہ دراز ہوتا رہتا ہے ۔اپنے آپ کو فریب میں مت ڈالیے اور اوہام کا شکار مت بنیے ،اور اپنے خود ساختہ، مبنی بر تعصب ،اصول دین پر ایمان مت لائیے ،وہ اصول جس میں انسان دانستہ طور پر حق کو چھپا دیتا ہے اور جس میں انسان اسی بات کو قبول کرتا ہے جو اس کی خواہش اور اس کی طبیعت کے زیادہ مناسب ہوتی ہے ۔کبھی کبھی ہمارے ایمان میں بڑا عیب ہوتا ہے لیکن ہم اسے الفاظ و افکار کے جامۂ رنگیں میں چھپادیتے ہیں ،جو ہم کہتے ہیں وہ ہمارے دل میں نہیں ہوتا اور ہم اس کو سچ ثابت کرنے کے لیے ہر طرح کی راہیں تلاش کرتے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ حق تعالی ہمارے قولی وعملی تناقضات سے واقف ہے،وہ ہمارے ان خیالات سے بھی واقف ہے جو ہمارے زبان پر نہیں آئے کیوںکہ وہ تو سمیع وبصیر وعلیم ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:اور اللہ جانتا ہے جو تم چھپاتے اور جو تم ظاہر کرتے ہو(النحل:۱۹)
خود ساختہ ایمان کو اہمیت دینے کے بجائےسچائی کی فہم و معرفت کے لیے حقیقی جد وجہد کریں ،پورے ایمان واخلاص کے ساتھ اپنے آپ کو حق سے روشناس کرائیں ۔اے ایمان والو !اگر تمہارے دلوں میں اللہ کا تقوی موجود ہے تو وہ تم کو حق وباطل کے درمیان امتیاز کی صلاحیت عطا فرمائے گا ۔
اللہ کی ناراضی اور اس کے احکام کی پامالی میں مثالی کردار اور کامیابی کے معیار ات تلاش نہ کریں اور ایسے لوگوں کو اپنے اوپر اثر انداز نہ ہو نے دیں جو آپ کی پسند و ناپسند کو طے کریں،جو آپ کے اہداف ومقاصد کو طے کریں ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : قیامت کے دن انسان کا حشر اسی کے ساتھ ہوگا جس سے اس کو محبت ہو گی ۔
اپنے سے بہتر لوگوں سے مشورے لینے میں غرور وگھمنڈ کا شکار نہ ہوں بلکہ کبرورغرور سے اپنے آپ کو دو ر رکھیں ،اور صرف ہدایت ربانی پر بھروسہ کریں ؛کیوں کہ وہی اکیلا دلوں کو پھیرنے والا ہے اور جس کو وہ ہدایت عطا کرے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا ۔
ہر انسان کے اندر وہ زندہ شعور اور ضمیر موجود نہیں ہےکہ وہ جان سکے کہ ہمیں کس چیز کا علم ہونا چاہیے اور کس چیز کو بدلنا چاہیے؛اسی لیے کسی کے حوالے سےکسی کو کوئی فیصلہ کرنے اور کسی کی تذلیل وتحقیر اور استہزاء کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے ۔
ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم صحیح تفہیم کریں، ایک دوسرے کو تذکیر کریں ،اور اس طرح ایک مثبت کردار ادا کریں ۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے :اورتذکیر کرو اس لیے کہ تذکیر مومنوں کو نفع پہنچاتی ہے ۔(طور:۵۵) لیکن تذکیر کسی کا گلا دبا کر، جبر کے ساتھ، کسی کی تحقیر کرکے اور کسی کے ساتھ پر تشد د  رویہ یا پرتشدد اسلوب اپنا کر نہیں ہو نی چاہیے ،بلکہ تذکیر ،محبت ،پیار ،اور لطف ومہربانی کے ساتھ اس طرح ہونی چاہیے کہ ہم اپنے اردگرد کے لوگوںپر اثر انداز ہو سکیں ،حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے :اگر تم دیکھو کہ تمہارے کسی بھائی سے خطا ہو گئی ہے تو اس کو صحیح راہ پر لے آئو، اس کے لیے دعا کرو اور اس کا مذاق اڑا کر اور اس کی بے عزتی کرکے شیطان کے مددگار نہ بنو۔
لیکن تذکیر سے پہلے یاد رہے کہ ہم خود اسلام کی عملی تصویر بنیں، اس کی صحیح فہم حاصل کریں ،اپنے دل میں اس کی صحیح معرفت پہنچائیں،اپنے عمل ،ارادے اور کردار سے اس کو ظاہر کریں ،اور پھر جو لوگ اسلام کی بنیادی تعلیم کے حوالے سے فہم ویقین اور عملی واخلاقی جہت سےکمزور ہوں ان کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں اور یہ بات یاد رکھیں کہ جب آپ اس سفر کا آغاز کریں گے یا اس کے احکام پر عمل کریں گے تو آپ کو مشکلات در پیش ہوں گی، لوگ آپ کی تردید کریں گے ،آپ کا مذاق اڑائیں گے اور دوسروں کی جانب سے آپ کو اذیتیں پہنچیں گی اور کبھی یہ ساری چیزیں ان لوگوں کی جانب سےبھی آئیں گی جن سے آپ محبت کرتے ہیں اور جوا ٓپ سے سب سے زیادہ قریب ہے ۔کبھی کبھی آپ کو یہ تکلیفیں اس لیے بھی در پیش ہوں گی کہ آپ پہلے یا ا ب تک پوری زندگی وہی غلط کام کرتے رہے ہیں ،لیکن ان چیزوں کی وجہ سے حوصلہ نہ ہاریں اور اللہ کی رحمت وہدایت سے مایوس نہ ہوں کیوں کہ اس کی ذات ہادی ہے ،آپ کےسابقہ گناہ آپ کو توبہ سے نہ روکیں کیوںکہ اس کی ذات غفار ہے ،یقینی طور پر اللہ تعالی ان لوگوں سے محبت فرماتا ہے جوا س کی بارگاہ میں ندامت وتوبہ کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں،اور جو اپنےآپ کو پاک وصاف اور ستھرا رکھتے ہیں (بقرہ:۲۲۲)،لوگوں کےفیصلے ان کی باتیں ، ان کی جانب سے استہزاء ،اور توہین آمیز کلمات یا ان کا خوف آپ کو حق کی اس راہ سے نہ روکے جس راہ پر آپ چلنا چاہتے ہیں ،یا حق کے حوالےسےمکمل طور پر اپنے دل کی باتوں کے اظہار سے یہ چیزیں آپ کونہ روکیں؛ کیوں کہ یاد رکھیں اس کی ذات الولی یعنی مددگار ہے ۔مستقبل کی فکر آپ کی راہ ہدایت واصلاح میںروکاوٹ نہ بنے ،کیوںکہ وہ رزاق ہے ۔یقینی طورپر یہ راہ مشکل ،پرپیچ اور کبھی کبھی ناقابل تصور حد تک سب سے الگ کردینے والی راہ ہے، خصوصا آج کے زمانے میں، کیوںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :عنقریب ایسا زمانہ آئے گا جب دین پر عمل کرنا آگ کا انگارا اٹھانے کے برابر ہوگا ۔
اللہ تعالی ہماری کشتی ہدایت کو ساحل سے ہم کنار کرے اور حق وباطل کے درمیان امتیاز میں ہماری مدد فرمائے ،اللہ تعالی ہمارے ایمان کو مضبوط فرمائے اور ہمیں ان لوگوں میں شامل فرمائے جو اس کے ذکر میں لگے رہتے ہیں ،ہمارے قلوب کو مضبوط فرمائے اور ہمیں استقامت فرمائے ، اللہ ہمیں اپنی حکمت کی بہتر فہم عطا فرمائے اور شک وہم کو اپنی زندگی سے دور کرنے کے لیے جد وجہداور تعاون کی تمام افراد کو توفیق عطا فرمائے،اللہ تعالی ہمارے دلوں کو کبرونفاق اورجہل سے پاک فرمائے ،ہمارے نیتوں کو درست فرمائے ،اور ہمارے قول وعمل میں 
اخلاص عطا فرمائے ،آمین ۔

5 years ago I made a decision that changed my life forever. As I stepped my foot in Bollywood, it opened doors of massive popularity for me. I started to become the prime candidate of public attention, I was projected as the gospel of the idea of success and was often identified as a role model for the youth. However, that’s never something that I set out to do or become, especially with regards to my ideas of success and failure, which I had just started to explore and understand.
As I complete 5 years today, I want to confess that I am not truly happy with this identity i.e my line of work. For a very long time now it has felt like I have struggled to become someone else. As I had just started to explore and make sense of the things to which I dedicated my time, efforts and emotions and tried to grab hold of a new lifestyle, it was only for me to realise that though I may fit here perfectly, I do not belong here. This field indeed brought a lot of love, support, and applause my way, but what it also did was to lead me to a path of ignorance, as I silently and unconsciously transitioned out of imaan. While I continued to work in an environment that consistently interfered with my imaan, my relationship with my religion was threatened. As I continued to ignorantly pass through while I kept trying to convince myself that what I was doing is okay and isn’t really affecting me, I lost all the Barakah from my life. Barakat is word whose meaning isn't just confined to happiness, quantity or blessing, it also focuses on the idea of stability, which is something I struggled with extensively.
I was constantly battling with my soul to reconcile my thoughts and instincts to fix a static picture of my iman and I failed miserably, not just once but a hundred times. No matter how hard I tried to wrestle to firm my decision, I ended up being the same person with a motive that one day I will change and I will change soon. I kept procrastinating by tricking and deluding my conscience into the idea that I know what I am doing doesn’t feel right but assumed that I will put an end to this whenever the time feels right and I continued to put myself in a vulnerable position where it was always so easy to succumb to the environment that damaged my peace, iman and my relationship with Allah . I continued to observe things and twist my perceptions as I wanted them to be, without really understanding that the key is to see them as they are. I kept trying to escape but somehow I always ended up hitting a dead end, in an endless loop with a missing element that kept torturing me with a longing I was neither able to make sense of nor satisfy. Until I decided to confront my weakness and began to strive and correct my lack of knowledge and understanding by attaching my heart with the words of Allah. In the great and divine wisdom of the Quran, I found sufficiency and peace. Indeed the hearts find peace when it acquires the knowledge of Its Creator, His Attributes, His Mercy and His commandments.
I began to heavily rely upon Allah’s mercy for my help and guidance instead of valuing my own believability. I discovered my lack of knowledge of the basic fundamentals of my religion and how my inability to reinforce a change earlier was a result of confusing my heart's contentment and well being with strengthening and satisfying my own (shallow and worldly) desires. I discovered my disease of doubt & error that my heart was afflicted with- There are 2 types of diseases that attack the heart, one; DOUBT and Error and the second; LUST and Desire. Both are mentioned in the Quran.
Allah says, “ In their hearts is a disease (of doubt & hypocrisy) and Allah increased their disease. [Quran 2:10]. And I realized the remedy to this could only be attained through the guidance of Allah and indeed Allah guided my path when I lost my way.
Quran and the guidance of Allah’s messenger (PBUH) became the weighing factor in my decision making and reasoning and it has changed my approach to life and it’s meaning.
Our desires are a reflection of our morals, our values are an externalization of our internal integrity. Similarly, our relationship with the Quran and Sunnah defines and sets the tone of our relationship with Allah and  our religion, our ambitions, purpose and the meaning of life. I carefully questioned the deepest sources of my ideas of success, meaning and the purpose of my life. The source code that governed and impacted my perceptions evolved into a different dimension. Success isn’t correlated with our biased, delusional and conventional shallow measures of life. Success is the accomplishment of the purpose of our creation. We have forgotten the purpose we were created for as we ignorantly continue to pass through our lives; deceiving our conscience. “And That the hearts of those who don’t believe in the hereafter, may incline to it (the deception) and that they may be well pleased with it and that they may earn what they are going to earn, (and it’ll be evil). [Quran 6:113]
Our purpose, our righteousness or terribleness isn’t defined by our selfish consumption, it isn’t equated by the worldly measures. Allah says, “I swear (by Al-Asr) by time  (that’s running out). Verily, man is drowning in great loss, with the exception of (a few) those who believe , do good deeds and call on another to the way of  truth and counsel one another to patience and perseverance. [Quran 103]
This journey has been exhausting, to battle my soul for so long. Life is too short yet too long to be at war with oneself. Therefore, today I arrive at this well-grounded decision and I officially declare my disassociation with this field. The success of the journey is dependent on how you take the first step and the reason why I am openly doing so is not to paint a holier picture of myself but this is the least I can do to start afresh and this is just my first step as I have arrived at the clarity of realisation of the path I wish to be on and strive for and during this time I may have consciously or unconsciously planted a seed of temptation in the hearts of many but my sincere advice to everyone is that no amount of success, fame, authority or wealth is worth trading or losing your peace or the light of your Imaan for. Strive not to surrender to your desires for desires are infinite and always leap out ahead of whatever has just been achieved. Do not deceive yourself or become deluded and find believability in the self assured biased narratives of the principles of deen-where one conceals the truth while knowing it or where one picks and chooses to accept only what suits his situation or desires the best. Sometimes we have deep flaw in our iman  and we often cover it up with words and philosophies. What we say is not in our hearts and we seek every manner of excuse for clinging to it and indeed He is aware of the contradictions, He is aware of all the thoughts unspoken for He is All-Hearing (As-Sami), the All-Seeing (Al-Baseer), and the All-Knowing (Al-Aleem). “And Allah knows what you conceal and what you reveal”. [Quran 16:19]. Instead of valuing your own deceptive conviction, make genuine efforts to strive and discover and understand the truth yourself with a heart full of faith and sincerity.  “O you who have believed, if you are conscious of Allah, He will give you the ability to distinguish right from wrong”.  (Quran 8:29).
Don’t look for role models or measures of success in the displeasure of Allah and the transgressions of His commandments. Do not allow such people to influence your choices in life or dictate your goals or ambitions. The Prophet said, “A person will be (raised on the day of Judgement) with whom he loves.” And do not become arrogant to seek advice from the better informed but position yourself away from your ego and arrogance and rely only on Allah’s guidance, indeed only He is the turner of the hearts and the ones He guides, none can lead astray. Not everyone has the conscience or the conscious to recognise the what we need to know or change and hence, it is not for us to judge, abuse, belittle or mock such people. It is our responsibility to make a positive impact by reinforcing the correct understanding by reminding each other. “And remind, for indeed the reminder benefits the believers” (Quran 51:55).
And we must do so not by ramming facts down each others throats by abuse or hostile behaviour or through violent disapprovals but it can only be done through kindness and mercy that we can affect the people around us. [If you see that one of you has slipped, correct him, pray for him and do not help the shaytan against him by insulting or mocking him- Umar Ibn Al-Khattaab]
But before we do that we must remember to exemplify Islam and it’s understanding ourselves in our knowledge and in our hearts, actions, intentions and behaviour and then use it to benefit the ones lack grasp on the fundamentals of the religion in terms of understanding, beliefs and manners . And remember that when you will start your journey or to find your ground in His Commandments- you are going face hardships, resistance, ridicule or discomfort from others and sometimes it can come from people who you love and are the closest to you. Sometimes it can be because of how you have been acting previously or have acted all your life, but do not let it discourage you or lead you to lose hope in Allah’s mercy and guidance- for He is Al-Hādīy (The Guide). Do not let your previous actions stop you from seeking repentance, know that He is Al-Ghafaar (The repeatedly forgiving). Truly, Allah loves those who turn unto Him in repentance and loves those who purify themselves. [Quran, 2:222]. Do not let the  judgement, ridicule, abuse, words or fear of people take you off from the path of you wish to be on or stop you from expressing yourself to the fullest, remember He is Al-Walīy the helper. Do not let the worry of tomorrow get in your way to reassess your life, for he is Ar-Ražzaq (The Provider).
It can be a tough, complicated and sometimes an unimaginably lonely path, especially in today’s time but remember
the Messenger of Allah (PBUH) said: “There will come upon the people a time when holding onto the religion will be like holding onto hot coal.”
May Allah guide our boats to find its shore and help us to distinguish between truth and deception. May Allah makes us strengthen us in our Imaan and make us amongst the ones who engage in His remembrance and make our hearts firm and help us to remain steadfast. May Allah give us a better understanding of His wisdom and allow us to exhibit our efforts to alleviate doubt and error at individual levels and guide each other. May Allah cleanse our hearts from hypocrisy, arrogance and ignorance and  rectify our intentions and grant us sincerity in speech and in our deeds. Ameen
-Zaira Wasim