Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 1, 2019

شیراز ہند جونپور کے مقبول ترین شاعر ”سلام مچھلی شہری“ کے یوم ولادت کے موقع پر۔

تاریخ ولادت- یکم ؍جولائی؍ ١٩٢١
*اپنے وقت میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں ایک، رومانی لہجے کے ممتاز مقبول شاعر” سلامؔ مچھلی شہری  “ ...*
نام *عبدالسلام* اور تخلص *سلامؔ* *یکم جولائی ۱۹۲۱ء* کو *مچھلی شہر جونپور* میں پیدا ہوئے ۔ صرف ہائی اسکول تک تعلیم حاصل کرسکے اس کے بعد الہ آباد یونیورسٹی کی لائبری میں ملازمت اختیار کی ۔ لائبریری کی ملازمت کے دوران سلام نےکئی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کیا ۔ ۱۹۴۳ میں لکھنؤ ریڈیو اسٹیشن پر مسودہ نویسی پر مامور ہوئے ۔ ۱۹۵۲ میں اسسٹنٹ پروڈیوسر بناکر سری نگر ریڈیو اسٹیشن بھیج دئے گئے کچھ عرصے تک وہاں رہے پھر لوٹ کر دہلی ریڈیو اسٹیشن میں آگئے اور پروڈیوسر کے طور پر مقرر ہوئے ۔ سلام کو ان کی مجموعی ادبی خدمات کے اعتراف میں ’پدم شری‘ سے بھی نوازا گیا ۔

*سلام مچھلی شہری* کے تین شعری مجموعے شائع ہوئے *’ میرے نغمے ‘ ’ وسعتیں ‘ ’ اور’ پائل ‘* ۔ سلام نے ریڈیو کی ملازمت کے دوران بہت سے منظوم ڈرامے اور اوپیرا بھی لکھے ۔ شاعری کے علاوہ سلام نے *’ بازو بند کھل کھل جائے ‘* کے نام سے ایک ناول بھی لکھا ۔
سلام کا انتقال *۱۹ نومبر ۱۹۷۳ء* کو *دہلی* میں ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیشکش صداٸے وقت۔۔۔۔۔۔۔۔
=========================
  سلام مچھلی شہری کے  منتخب اشعار ..
اے مرے گھر کی فضاؤں سے گریزاں مہتاب
اپنے گھر کے در و دیوار کو کیسے چھوڑوں
---
*آنسو ہوں ہنس رہا ہوں شگوفوں کے درمیاں*
*شبنم ہوں جل رہا ہوں شراروں کے شہر میں*
---
عجیب بات ہے میں جب بھی کچھ اداس ہوا
دیا سہارا حریفوں کی بد دعاؤں نے
---
*آج تو شمع ہواؤں سے یہ کہتی ہے سلامؔ*
*رات بھاری ہے میں بیمار کو کیسے چھوڑوں*
---
غم مسلسل ہو تو احباب بچھڑ جاتے ہیں
اب نہ کوئی دل تنہا کے قریں آئے گا
---
کبھی کبھی عرضِ غم کی خاطر ہم اک بہانا بھی چاہتے ہیں
جب آنسوؤں سے بھری ہوں آنکھیں تو مسکرانا بھی چاہتے ہیں
---
کبھی کبھی تو سنا ہے ہلا دیے ہیں محل
ہمارے ایسے غریبوں کی التجاؤں نے
---
میری فکر کی خوشبو قید ہو نہیں سکتی
یوں تو میرے ہونٹوں پر مصلحت کا تالا ہے
---
رات دل کو تھا سحر کا انتظار
اب یہ غم ہے کیوں سویرا ہو گیا
---
شکریہ اے گردشِ جام شراب
میں بھری محفل میں تنہا ہو گیا
---
وہ دل سے تنگ آ کے آج محفل میں حسن کی تمکنت کی خاطر
نظر بچانا بھی چاہتے ہیں نظر ملانا بھی چاہتے ہیں
---
وہ صرف میں ہوں جو سو جنتیں سجا کر بھی
اداس اداس سا تنہا دکھائی دینے لگے
---
*میری موت اے ساقی ارتقا ہے ہستی کا*
*اک سلامؔ جاتا ہے ایک آنے والا ہے*