Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 1, 2019

ہجومی تشدد،طلاق ثلاثہ بل،این أر سی اور قومی تعلیمی پالیسی ر ایس ڈی پی أٸی کا موقف!!!!


نئی دہلی۔(پریس ریلیز)۔...صداٸے وقت ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (SDPI) نے ہجومی تشدد،طلاق ثلاثہ بل، این آر سی اور قومی تعلیمی پالیسی 2019پر اپنا موقف جاری کرنے کیلئے پریس کلب آف انڈیا، نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا۔پریس کانفرنس میں ایس ڈی پی آئی قومی صدر ایم کے فیضی، قومی نائب صدر اڈوکیٹ شرف الدین احمد،قومی نائب صدر دہلان باقوی،قومی جنرل سکریٹریان عبدالمجید، محمد شفیع اور قومی سکریٹری ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی موجود رہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قومی صدر ایم کے فیضی نے کہا کہ ایس ڈی پی آئی ملک کے موجودہ سنگین مسائل کے تئیں نہایت فکر مند ہے۔ حکومت ان مسائل کو حل کرنے کیلئے جامع اور اطمینان بخش اقدامات کرنے میں بری طرح ناکام ہے۔ لہذا ایس ڈی پی آئی موجودہ مسائل پر اپنے موقف سے ملک کے عوام کو آگاہ کررہی ہے۔

ما ب لنچنگ۔(ہجومی تشدد):  سال 2014 میں مودی کی پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد لفظ Lynchingعام ہوا تھا اور این ڈی اے کی دوسری مرتبہ اقتدار میں واپسی کے بعد ماب لنچنگ کے جو بھی واقعات سامنے آئے ہیں ان میں حکمران پارٹی، سرکار ی مشینری اور پولیس کو حملہ آورمجرموں کے ساتھ ملے ہوئے دیکھا گیا ہے اور متاثرین کو کسی قسم کا تحفظ اور امداد نہیں ملا ہے۔ تبریز انصاری کا معاملہ اس کی ایک مثال ہے کہ کس طرح چند شر پسند عناصر منصوبہ بند ی کے تحت روزانہ بے گناہوں کو لنچنگ کا نشانہ بناتے ہیں۔
طلاق ثلاثہ :  اس مسئلہ کو غیر متناسب طور پر 
کمیونٹی پر عائد کیا گیا ہے۔ 

طلاق کے بعد شوہر سے علیحدگی سے ملک بھر میں صرف 0.3فیصد خواتین کی زندگیوں پر ہی اثر پڑتا ہے۔ شادی کے سول تنازع کو مجرمانہ سزا میں تبدیل کیا جانا کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔حکومت عوام کو حقیقی مسائل سے بھٹکا کر ان غیر ضروری مسائل میں الجھانا چاہتی ہے تاکہ کمیونٹیوں کے درمیان نااتفاقی پیدا کیا جاسکے۔
این آر سی (NRC) :  آسام کا نیشنل رجسٹریشن آف سٹیزن ایک بڑھتا ہوا زخم ہے۔ اس مسئلے پر بی جے پی لیڈر اور حکومت دو زبانوں میں بات کر رہے ہیں۔ اس مسئلے کو پورے ہندوستان میں قائم کیا جارہا ہے تاکہ اسے فرقہ وارانہ رنگ دیکرکمزور ہندوستانیوں کو ہراساں کرکے اس سے سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔ ایس ڈی پی آئی اس فرقہ وارانہ پولرائزیشن کی سختی سے مخالفت کرتی ہے۔
NEP/2019  (قومی تعلیمی پالیسی):  ایسا لگتا ہے کہ حکومت ماہرین تعلیم سے مناسب مشاورت کے بغیر جلدی میں نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنے ا ور نجی شعبے کو تمام حقوق فراہم کرنے والی نئی تعلیمی پالیسی کو نافذ کرنا چاہتی ہے۔ مسودہ کے مطالعہ سے ہم اس بات کا یقین کرسکتے ہیں کہ حکومت تعلیمی شعبہ سے آہستہ آہستہ نکلنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ سے پہلے حکومت کو چاہئے کہ وہ مسودہ کاگہرا مطالعہ کرنے اور تجاویز و اعتراضات پیش کرنے کیلےء کم از کم چھ ماہ کی مہلت دے۔ NEP/2019کے مسودہ میں بہت سارا کنفیوشن ہے اوریہ اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ اس سے ملک میں سرمایہ داروں، بیوروکریٹس،ذات پرستی اور فرقہ پرستی لابی کے درمیان گٹھ جوڑ پیدا ہوسکتی ہے۔ 
ایس ڈی پی آئی مذکورہ مرکزی و ریاستی حکومتوں کی ان تمام مایوس کن اور جانبدا ر پالیسیوں پر سخت اعتراض کرتی ہے۔ حکومت کی طرف سے مسائل کی غلط پیش کش اور ناموافق حل سے بھارت کی جمہوریت کی جڑیں اثر انداز ہوتی ہیں اور ملک میں قانو ن کی حکمرانی کی موجودہ صورتحال سے اس کے نقصانات کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ایس ڈی پی آئی حکومت سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ جمہوریت کے دائرے میں رہ کر اپنا کام کرے۔ محض جملوں سے متحرک بھارت نہیں بن سکتا ہے۔ایس ڈی پی آئی حکومت کو انتباہ کرتی ہے کہ وہ ملک کو فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم کرنے اور ملک کو انتشار اور افراتفری کی طرف دھکیلنے سے گریز کرے جس سے قومی یکجہتی اور ہم آہنگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔ایس ڈی پی آئی کسی بھی طاقت کی طرف سے ایسی کوشش کو برداشت نہیں کرے گی۔پارٹی ایسی مذموم کارروائیوں کے خلاف لڑنے کیلئے ایک ملک گیر تحریک کا آغاز کرے گی۔