Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 1, 2019

أج تعلیم کو اس زاویہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے !!!! عصرٕی تعلیم کو لیکر شیخ الہند کا نظریہ۔


از محمد قمر الزماں ندوی۔۔۔۔۔۔صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

                              *دارالعلوم دیوبند* کے سب سے پہلے طالب علم اور اس نظام مدارس کے عظیم معمار *شیخ الہند حضرت مولانا محمود  حسن دیوبندیؒ* ان حضرات میں سے تھے جو صاف ستھرے اور "اپنے ماحول میں؛؛ عصری تعلیم کی ضرورت کو بھی بہت شدت سے محسوس کرتے تھے، چناچہ انہوں نے ۲۹/اکتوبر /۱۹۲۰ کو "علی گڑھ کالج؛؛ کی مسجد میں ایک نئے ادارے کے قیام کے موقع پر اپنے خطبہ افتتاحیہ میں کہا تھا :"مسلمانوں کی تعلیم مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو، اور اغیار کے اثر سے مطلقا آزاد ،کیا باعتبار عقائد و خیالات اور کیا باعتبار اخلاق و اعمال ،ہم غیروں کے اثرات سے پاک ہوں ،ہماری عظیم الشان قومیت کا اب یہ فیصلہ نہ ہونا چاھئے کہ ہم اپنے کالجوں سے بہت سستے غلام پیدا کرتے رہیں ،بلکہ ہمارے کالج نمونہ ہونے چاہئیں "بغداد ؛؛اور قرطبہ؛ ؛کی یونیورسٹیوں کے، اور عظیم الشان مدارس کے جنہوں نے یورپ کو اپنا شاگرد بنایا ،اس سے پیشتر کہ ہم ان کو اپنا استاد بناتے ؛؛-
قدیم نظام تعلیم و تربیت کے ایک اور شاندار نمونے *مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ* نے ایک جگہ لکھا ہے :
:میرے نزدیک اسلامی ممالک میں صحیح زندگی کی بنیاد عوام میں صحیح اور طاقتور دینی شعور کا وجود ہے ---اور دوسری مضبوط بنیاد صحیح نظام تعلیم اور وحی نبوت کے ذریعے آئے ہوئے اس علم کو ،خو ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے اور جو ہر دور کا علم اور ہر صالح تہذیب کی بنیاد و اساس ہے، ان طبعی علوم ،عصری معلومات، اور ان تجربوں اور ایجادات و انکشافات کے ساتھ جمع کرنا ہے جن میں مغرب فوقیت لے گیا ہے ؛؛-
*ہندوستان* کے ان دو عظیم  ہستیوں اور اسکالرز کے ان اقتباس کو غور سے پڑھیے اور پھر تجزیہ کیجئے کہ آج مسلمانوں کو کیسے علمی اداروں اور مدرسوں کی ضروت ہے اور علم اور تعلیم کے میدان میں کس منصوبہ بندی اور پلانگ کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ اور اس کے لئے اہل علم اور دانشورران امت کو کس قدر سنجیدگی کے ساتھ اس مہم کو آگے بڑھانا چاہیے ۔
*مدارس* کی ضرورت و اہمیت اور افادیت سے کس کو انکار ہے ؟
               لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم مدارس کے لوگ نصاب تعلیم کو اپٹوڈیت کرنے کے اعتبار سے اور جدید آلات اور اسباب و وسائل سے استفادہ اور شرعی علوم کے حصول میں اس سے معاونت کے اعتبار سے بہت    پیچھے نہیں ہیں؟ ۔
آج ضرورت ہے کہ کچھ مدارس اس انداز کے بھی ہوں کہ ان کا اصل مقصد ایسے افراد تیار کرنا ہو جس کے اندر دو خوبیاں ہوں ایک طرف تو ان کے اندر تقوی و طہارت اخلاص و للہیت علم کی گہرائ اور عمل کی پاکیزگی ہو اور اس  سلسلہ میں وہ اسلاف کا نمونہ ہوں، اور ان کے ذوق و مزاج کے وارث ہوں وہ عالم و داعی بنکر دین کی خدمت کریں تو دوسری طرف یہ کوشش کی بھی کی جارہی ہو کہ ان کے اندر عصری اور ماڈرن تعلیم اتنی دے دی جائے اور اتنی صلاحیت اور لیاقت پیدا کر دی جائے کہ اگر وہ قانون، انتظامیہ، سول سروسیز، صحت ،تعلیم، سائنس، صنعت و حرفت اور تجارت کے میدان میں اگر آگے جانا چاہیں تو ان کو کوئ دقت نہ اور وہاں جاکر اپنے دائرہ عمل میں وہ اسلام کی نمائندگی کریں اور اس بہانے خدمت خلق اور دعوت دین کا کام ان ماڈرن طبقے میں آسانی سے ہو سکے ۔
اس کے لئے ایسے مدارس میں نصاب تعلیم کے ساتھ چوبیس گھنٹے کا نظام الاوقات کھیل کود اور خورد و نوش وغیرہ کا انتظام اعلی پیمانے پر کرنا ہوگا ۔اور خوب سے خوب تر کی تلاش کا عمل بھی جاری رکھنا ہوگا ۔
اور پھر ان جدرید طرز کے مدارس کے سامنے یہ ہدف بھی ہو کہ دینی تعلیم کا حصول صرف غریب نادار اور دیہاتی گھرانوں کے بچوں کا فرض نہیں ہے ۔خوش حال اور روشن دماغ گھرانوں کے بچوں کو بھی قرآن و حدیث کے علم سے اپنے دل و دماغ کو منور و تابندہ کرتا چاہیے ۔