Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 1, 2019

بریلی کے بازار میں۔۔۔۔قسط 14.


✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*بریلوی ٹولہ راہِ فرار کی تلاش میں*
مناظرہ دو روزہ تھا۔ شوال کی 15 ویں اور 16 ویں تاریخ اس کے لیے طے تھی۔ حکیم الامت حضرت تھانویؒ کا وکالت نامہ لے کر مولانا نعمانیؒ اپنے ہمراہیوں کے ساتھ تین دن پہلے ہی تھانہ بھون سے لاہور پہونچ گئے۔ بریلوی ٹولے کو وکالت نامہ کا علم ہوا تو بہت سٹپٹائے اور مناظرے سے بھاگنے کی نئی نئی راہیں تلاش کرنے لگے۔ مناظرے سے ٹھیک دو دن قبل مناظرینِ دیوبند کے پاس رضاخانیوں کا ایک وفد پہونچا۔ اس وفد میں حشمت علی پیلی بھیتی، عبد الحفیظ اور حزب الاحناف لاہور کے ناظم سید محمد صاحبان تھے۔ یہ وفد آیا اور آتے ہی ایک اور نئی شرط لگا دی:

*یہ مناظرہ اسی وقت ہوگا جب اس وکالت نامے کی تصدیق جماعتِ دیوبند کے دو مستند عالم کریں گے*
مناظرینِ دیوبند حیران و پریشان، مگر انہوں نے طوعاً و کرھاً اسے بھی مان لیا کہ کسی طرح مناظرہ تو ہی جائے۔ یہ دن گزر گیا۔ اگلا دن آیا تو علم و عرفان سے مادر زاد یتیموں کا یہ ٹولہ ایک اور شگوفہ چھوڑ گیا۔ کہنے لگا:
*یہ بات پہلے سے طے تھی کہ جج صاحبان اگر مجمعِ عام والے مناظرے میں حصہ لینے کو تیار نہ ہوئے تو بس ایک ایک مناظر اور دس دس معین، مجلسِ مناظرہ میں شریک ہوں گے*
اس طے شدہ شق کا تقاضا تھا کہ مناظرہ کسی خاص کمرے میں ہو، نہ کہ ایسی جگہ میں جہاں مجمع اکٹھا ہو سکتا ہو۔ چناں چہ جج صاحبان نے اسی خواہش کا اظہار کر دیا۔ بریلوی ٹولے پر یہ سوچ کر کپکپی طاری ہو گئی کہ اس طرح تو مناظرہ ہو کر رہے گا اور مناظرہ ہوا تو فیصلہ بھی ہمارے خلاف آئے گا، جو ہمارے لیے سامانِ موت بن سکتا ہے، اس لیے یہ طبقہ اس خواہش کا احترام تو کیا کرتا، مناظرینِ دیوبند اور جج صاحبان کی اطلاع کے بغیر ہی نئی شرارت شروع کر دی اور یہ اشتہار شائع کر دیا کہ مناظرہ *مسجدِ وزیر خان* میں ہوگا اور یہ کہ ڈاکٹر اقبال اور مولانا اصغر علی روحی نے اس مناظرے کا فیصل بننے سے انکار کر دیا ہے۔ مسجدِ وزیر خان میں مناظرے کا اعلان اگرچہ جج صاحبان کے خلاف تھا، مگر دو ججوں کے عدمِ شرکت والی بات محض جھوٹ پر مبنی تھی۔
علمائے دیوبند تو بہر صورت مناظرہ چاہ رہے تھے، رضاخانی چالوں کو کیسے کامیاب ہونے دیتے! چناں چہ مسجدِ وزیر خان پہونچ کر رہے۔ اس مسجد کی تعیین فقط اس وجہ سے تھی کہ اسے ہم نوایانِ رضاخانیت کی مرکزیت حاصل تھی۔
*بریلوی مطالبے کا ایفا*
مسجد میں عام مجمع لگ چکا تھا۔ ترجمانِ دیوبند کی طرف سے حضرت تھانویؒ کا وکالت نامہ پیش کیا گیا تو بریلوی شرط کے مطابق دو مستند دیوبندی علما کے دستخط بھی لے لیے گئے۔ ان میں سے ایک تو مفسرِ قرآن حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ تھے اور دوسرے مولانا عبدالحنان خطیب آسٹریلیا مسجد ۔ ان دونوں علما کی نشان دہی بھی بریلوی مناظروں نے ہی کی تھی۔
*مناظرے سے بھاگنے کے لیے ایک اور پتلی گلی کی تلاش*
قبوری ٹولے نے مناظرے کی جگہ بھی اپنی مرضی کے مطابق رکھی تھی۔ حضرت تھانویؒ کا وکالت نامہ بھی منگوا لیا تھا۔ دو مستند دیوبندی علما کے دستخط بھی اس پر لے لیے تھے تو اب مناظرہ ہو جانا چاہیے تھا، مگر ایسی قسمت کہاں! حلوہ پرستوں کی یہ جماعت ایک اور شرط کا مطالبہ لے کر آگئی ۔ مطالبہ یہ کہ: *دیوبندی علما تحریر دیں کہ ہم محمد منظور کو مولانا اشرف علی تھانویؒ صاحب کا وکیل تسلیم کرتے ہیں* ۔
یہ مطالبہ بھی کسی عام بریلوی مناظر کا نہیں، بلکہ خان صاحب کے فرزند حامد رضا خان اور نعیم الدین مراد آبادی کا تھا۔ حامد رضا خان کا تعارف پہلے آ چکا ہے۔ نعیم الدین مراد آبادی عالمِ بریلویت کے استاذ العلما ہیں۔ بانئ بریلویت انہیں صدر الافاضل کہتے تھے۔ مجددِ بدعات کے ترجمۂ قرآن بنام کنزالایمان پر خزائن العرفان کے نام سے انہیں کا حاشیہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ مطالبہ نہ مانا جاتا، مگر مناظرینِ دیوبند نے سدِ راہ کے لیے اسے بھی تسلیم کر لیا اور وہاں موجود سارے علمائے دیوبند کی تحریر دے دی گئی۔
*خان زادے حامد رضا خاں میدان سے رفو چکر*
بریلوی ملاؤں کی جب ساری شرطیں مانی جا رہی تھیں اور خان زادہ حامد رضا خاں بذاتِ خود وہاں موجود تھے تو عقل کا تقاضا تھا کہ بحیثیتِ مناظر ان کا نام ہوتا، مگر وہ بریلویت ہی کیا، جہاں علم و شجاعت کی بو باس پائی جائے!! بریلویت کا مطلب ہی بز دلی اور حلوہ خوری ہے۔ وہ انہیں علمی گفتگو اور مدلل جواب کی ہمت کہاں سے دیتی؟ کہنے لگے:
*میں لاہور کے فیصلہ کن مناظرے کے لیے اپنی طرف سے مولوی حشمت علی صاحب سلمہ کو اپنا وکیلِ مطلق بناتا ہوں۔ وکیل موصوف کا قول، قبول، عدول سب میرا ہے اور ان کی فتح و شکست میری فتح و شکست ہے*
*فنِ مناظرہ کا ایک اصول*
آگے بڑھنے سے پہلے یہ عرض کر دوں کہ مناظرے کا ایک اہم اصول ہے اور اہلِ حق و اہلِ باطل سب کے نزدیک مسلم۔ اور وہ یہ کہ جو مدعی ہوگا، وہی مجیب بھی بنے گا ۔ مناظرے میں مدعی بننا فائدے کا سودا ہے۔ ہر بحث میں آخری تقریر کا حق اسے ہی ملتا ہے۔ مدعی کا دوسرا نام اصطلاحِ مناظرہ میں مجیب بھی ہے۔ زیرِ بحث مسئلے  میں آخری تقریر کی بڑی اہمیت ہے، کیوں کہ اسی کی تقریر پر مجلس ختم ہوتی ہے اور سامعین کو بالعموم یہی آخری تقریر یاد رہتی ہے۔
جہاں بریلوی ٹولہ شرط شرط کی رٹ لگائے اور منوائے جا رہا تھا، وہیں مولانا نعمانی نے بھی اپنے لیے مدعی ہونے کی شرط لگا دی، جو خدا جانے کس طرح مان بھی لی گئی، لیکن اب ایک اور تازہ صورتِ حال سامنے آگئی۔ بریلویوں کے مناظر حشمت علی خان پیلی بھیتی نے مجیب کی پوزیشن اپنے لیے کرنے کا مطالبہ کر دیا، حالانکہ اصولاً یہ حق مدعی یعنی مولانا نعمانی کا تھا۔ وہ بضد رہے اور ادھر مولانا نعمانی صاحب بھی مصر کہ یہ حق مدعی کا ہے، آپ مطالبہ کیوں کر رہے ہیں؟ اس فن کی مسلّم کتاب *رشیدیہ* بھی دکھائی گئی، پھر بھی انہوں نے نہیں مانا۔ مناظرے کے بریلوی صدر نے مولانا نعمانی سے پوچھا کہ اس مسئلے کا حل کیا ہوگا؟ نہ آپ پیچھے ہٹ رہے ہیں، نہ حشمت علی خان صاحب ۔ مولانا نعمانی نے فرمایا کہ اس سلسلے میں میں مولانا اصغر روحی صاحب کو حکم بناتا ہوں، وہ جو کہیں گے، مجھے منظور ہوگا، لیکن حشمت علی خان نے ان کا فیصلہ ماننے سے ہی انکار کر دیا اور اس طرح پہلا دن انہیں الجھنوں میں نکل گیا۔
*مناظرے کا دوسرا دن*
اگلا دن آیا تو بحث پھر یہیں سے شروع ہوئی کہ مجیب کا حق کسے ملے؟ بریلویوں کے صدرِ جلسہ محمد شاہ صاحب تھے۔ مولانا نعمانی صاحب سے کہنے لگے: مولانا! اگر میں مناظر ہوتا تو آپ کی بات مان لیتا، مگر اپنے مناظر سے کیسے منواؤں؟ اب درمیانی راستہ نکالنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ ایسا کیجیے کہ تجویز کے مطابق مناظرے میں چار بحثیں ہونی ہیں۔ دو بحثوں میں آپ مجیب بن جائیں اور دو بحثوں میں وہ۔ مناظرینِ دیوبند نے خلافِ قاعدہ اسے بھی تسلیم کر لیا کہ کسی طرح تو مناظرہ انعقاد پذیر تو ہو۔
*موضوعِ مناظرہ*
مناظرہ *حسام الحرمین* کی چار بحثوں پر ہونا تھا۔ یہ بحثیں اکابرِ دیوبند: حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ اور حکیم الامت حضرت تھانویؒ پر الزامات سے متعلق تھیں۔
*بالآخر مناظرہ نہ ہو سکا*
سخت حیل و حجت اور رد و قدح کے بعد جب ایسا لگا کہ اب مناظرہ ہو کر رہے گا، اچانک قبوری ٹولے نے ایک اور شرط اپنے پٹارے سے نکالی۔ شرط یہ کہ تقریریں لفظ بہ لفظ لکھی جائیں اور اصل مؤکلین کے دستخط ان پر کرائے جائیں۔ خیر اسے بھی مان لیا گیا۔ یہ مرحلہ طے ہوا تو ایک اور شرط پیش کر دی۔ مولانا نعمانی جلال میں آگئے اور جھلا کر بولے:
*شرطوں کا قصہ ختم کیجیے۔ میں بلا شرط مناظرہ شروع کرتا ہوں* ۔
یہ کہا اور خطبۂ مسنونہ کے بعد بانئ بریلویت کی کتاب *حسام الحرمین* کے خلاف اپنے دعوے کی تقریر شروع کر دی۔ اس تقریر کا جواب بریلوی مناظر کی طرف سے اس طرح آیا کہ طوفانِ بدتمیزی کھڑا ہو گیا۔ ایک ہنگامہ برپا ہو گیا، اتنا زیادہ کہ پولیس کو بھی مداخلت کرنی پڑ گئی، اس طرح رضاخانی سازش کامیاب رہی اور مناظرہ بہر حال نہ ہو سکا۔
*رضاخانیوں کی فتحِ مبین*
مناظرہ تو ہوا نہیں، مگر بریلویوں نے ایک بڑا اشتہار اپنی فتحِ مبین کا جگہ جگہ چسپاں کر دیا۔ جھوٹ کا یہ نیا رخ دیکھ کر مولانا نعمانی حیران رہ گئے۔ وہ لکھتے ہیں:
*یہ عاجز لاہور سے واپس ہو کر جو 20 شوال کو مراد آباد پہونچا تو اس مناظرے سے متعلق بریلوی فتحِ مبین کے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ یا للعجب! یہ اکابرِ بریلویت مولوی حامد رضا خاں صاحب اور مولوی نعیم الدین صاحب مراد آبادی اس درجے کی دروغ گوئی بھی پسند کر سکتے ہیں!!*
*یہ تھا وہ خاص واقعہ، جس نے ایک ماہنامہ جاری کرنے کے دلی تقاضے کو اس منزل پر پہونچا دیا کہ دو مہینے کے اندر ہی اندر الفرقان نامی ماہنامے کا بریلی سے اجرا طے ہو گیا اور اعلان نکل گیا* ۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: الفرقان کے حق میں علمائے دیوبند کی اپیل]