Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, July 1, 2019

معروف شاعر ”فضا ابن فیضی“ کے یوم ولادت کے موقع پر۔

تایخ ولاوت- یکم ؍جولائی؍ ١٩٢٣
*کلام میں پختہ شعور، مثبت فکر بیانی اور معروف شاعر” فضاؔ ابن فیضی  “ ...*
      ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پیشکش صداٸے وقت۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*فضاؔ ابن فیضی* کا اصل نام *فیض الحسن* تھا لیکن *فضا ابن فیضی* کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی پیدائش *یکم جولائی ۱۹۲۳* کو *مئوناتھ بھنجن ( یوپی)* میں ہوئی ۔ درس نظامیہ سے فاضل کی سند حاصل کی، پھر الٰہ آباد بورڈ کے امتحانات میں شامل ہوئے ۔ اس کے بعد فضا تعلیمی سلسلہ جاری نہ رکھ سکے ۔ عمر بھر مختلف طرح کے معاشی مشاغل میں گھرے رہے اور شاعری کرتے رہے ۔
فضا ابن فیضی

فضا کی شاعری اپنے معاصرین سے بہت الگ قسم کی ہے ، ان کے یہاں بہت آسانی سے کسی تحریک یا کسی نظریے کی چھاپ تلاش نہیں کی جاسکتی ۔ فضا نے ایک آزاد تخلیقی ذہن کے ساتھ شاعری کی ان کے کلام میں ایک پختہ کلاسیکی شعور کے ساتھ نئے زمانے کی گہری حساسیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ ایک پرفکر شعری بیانیہ ان کی نظموں اور غزلوں میں پھیلا ہوا ہے ۔
فضا نے زیادہ تر غزلیں کہیں لیکن ساتھ ہی نظم اور رباعی کی صنف کو بھی ان کے یہاں خاصی اہمیت حاصل رہی۔
*فضاؔ ابن فیضی ، ١٧ جنوری ٢٠٠٩ء* کو مئو ناتھ بھنجن میں انتقال کر گئے۔
فضا کے متعدد شعری مجموعے شائع ہوئے ۔ کچھ یہ ہیں ۔
*سفینۂ زرِ گل* (غزلیں اور رباعیاں) *شعلہ نیم روز* ( نظمیں) *دریچہ سیم سمن* (غزلیں ) *سرشاخِ طوبیٰ* ( حمد ونعت اور نظمیں) *پس دیوارِ حرف* (غزلیں ) *سبزہ معنی بیگانہ* ( غزلیں )۔

 
فضاؔ ابن فیضی کے منتخب اشعار...
اب مناسب نہیں ہم عصر غزل کو یارو
کسی بجتی ہوئی پازیب کا گھنگھرو لکھنا
---
آنکھوں کے خواب دل کی جوانی بھی لے گیا
وہ اپنے ساتھ میری کہانی بھی لے گیا
---
اچھا ہوا میں وقت کے محور سے کٹ گیا
قطرہ گہر بنا جو سمندر سے کٹ گیا
---
ایک دن غرق نہ کر دے تجھے یہ سیلِ وجود
دیکھ ہو جائے نہ پانی کہیں سر سے اونچا
---
*اے فضاؔ اتنی کشادہ کب تھی معنی کی جہت*
*میرے لفظوں سے افق اک دوسرا روشن ہوا*
---
تجھے ہوس ہو جو مجھ کو ہدف بنانے کی
مجھے بھی تیر کی صورت کماں میں رکھ دینا
---
*تو ہے معنی پردۂ الفاظ سے باہر تو آ*
*ایسے پس منظر میں کیا رہنا سر منظر تو آ*
---
*خاک شبلیؔ سے خمیر اپنا بھی اٹھا ہے فضاؔ*
*نام اردو کا ہوا ہے اسی گھر سے اونچا*
---
دیکھنا ہیں کھیلنے والوں کی چابک دستیاں
تاش کا پتا سہی میرا ہنر تیرا ہنر
---
*شخصیت کا یہ توازن تیرا حصہ ہے فضاؔ*
*جتنی سادہ ہے طبیعت اتنا ہی تیکھا ہنر*
---
*غزل کے پردے میں بے پردہ خواہشیں لکھنا*
*نہ آیا ہم کو برہنہ گزارشیں لکھنا*
---
وقت نے کس آگ میں اتنا جلایا ہے مجھے
جس قدر روشن تھا میں اس سے سوا روشن ہوا
---
کہاں وہ لوگ جو تھے ہر طرف سے نستعلیق
پرانی بات ہوئی چست بندشیں لکھنا
---
*ہر اک قیاسِ حقیقت سے دور تر نکلا*
*کتاب کا نہ کوئی درس معتبر نکلا*
---
چند سانسیں ہیں مرا رختِ سفر ہی کتنا
چاہئے زندگی کرنے کو ہنر ہی کتنا
---
*یہ کیا بتائیں کہ کس رہ گزر کی گرد ہوئے*
*ہم ایسے لوگ خود اپنے سفر کی گرد ہوئے*
---
ترے خلوص نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
کسی زمیں پہ رہوں، آسماں نظر آؤں
---
پِھرا ہُوں کاسہ لئے لفظ لفظ کے پیچھے
تمام عمر یہ سودا نہ سر سے نکلے گا
---
*اس کے انا کی وضع تھی سب سے الگ فضاؔ*
*کیا شخص تھا کہ اپنے ہی تیور سے کٹ گی۔