Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, July 23, 2019

ملک وملت کی موجودہ صورت حال اور تحریکی مدارس کا رول!!!

اعظم گڑھ اتر پردیش۔۔صداٸے وقت۔
از/ مولانا طاہر مدنی بذریعہ عبد الرحیم صدیقی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس اہم موضوع پر کل 22 جولائی 2019 کو جامعہ میں(جامعة الفلاح بلریا گنج). شیخ الجامعہ مولانا سید جلال الدین عمری حفظہ اللہ کی زیر صدارت ایک اہم مذاکرہ انعقاد پذیر ہوا. افتتاحی کلمات میں محترم مولانا نعیم الدین اصلاحی صاحب مہتمم تعلیم و تربیت نے فرمایا کہ جامعہ ایک تحریکی ادارہ ہے، حالات کی نزاکت پر غور کرنا اور صحیح رہنمائی کرنا بہت ضروری ہے اسی تناظر میں یہ پروگرام رکھا گیا ہے. عالمی سطح پر تیزرفتاری سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، عالمی استعمار امت مسلمہ ہی کو اپنے عزائم کی راہ کا روڑا سمجھتا ہے اس لیے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور بطور خاص تحریکات اسلامی کو نشانہ بنایا جارہا ہے. ان نازک حالات میں تحریکی اداروں کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے. 

مولانا انیس احمد مدنی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت جبر و اکراہ کا ماحول ہے، جارحانہ قوم پرستی شباب پر ہے اور نام نہاد رام بھکتی کے بہانے تشدد کی لہر چلائی جا رہی ہے، مسلمانوں میں غفلت ہے اور اپنی ذمہ داری کا احساس مفقود ہے، ان حالات میں مدارس کی ذمہ داری دوچند ہوجاتی ہے. دعوت کا کام بڑے پیمانے پر کیا جائے اور علمی میدان میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے، غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جائے اور اعتراضات کا مدلل جواب فراہم کیا جائے، اسی کے ساتھ اقدامی پوزیشن اختیار کرتے ہوئے ادیان باطلہ کے نقائص کو واضح کرنے کی ضرورت ہے.
مولانا ولی اللہ مجیدقاسمی نے فرمایا کہ اہم مسائل میں فتنہ ارتداد، قادیانیت، پرسنل لا میں مداخلت، ناخواندگی، غربت، مسلکی منافرت، تشدد کا بڑھتا ہوا سلسلہ شامل ہے. مدارس کو متحدہ کوشش کے ذریعے مقابلہ کی ضرورت ہے. باہمی رابطہ بہت ضروری ہے.
جناب نسیم احمد فلاحی نے کہا کہ قانون سازی تو ہوتی ہے مگر نفاذ صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے، سنگھ پریوار مسلسل شبہات پھیلانے میں لگا ہے اور ہم ازالہ نہیں کر رہے ہیں، مدارس کی ذمہ داری اس ضمن میں بہت بڑی ہے. دعوتی کام پر توجہ دی جائے اور نئی نسل کی تربیت کی جائے.

محترمہ سلمی جلیل صالحاتی نے کہا کہ آج ہندو مسلم منافرت کا ماحول ہے، یہ 1925 سے مسلسل کی جانے والی منظم کوشش کا نتیجہ ہے، مادیت کا غلبہ ہے، اخلاقی دیوالیہ پن ہے، ہجومی تشدد کا سلسلہ ہے اور دوسری طرف ملت انتشار کا شکار ہے. تحریکی مدارس کی ذمہ داری ہے کہ منافرت کا ماحول ختم کرنے کیلئے اقدام کریں اور دعوت اسلامی کا علم اٹھانے والی نئی نسل کی تربیت کریں. اصلاح معاشرہ، فروغ تعلیم، خدمت خلق اور تحفظ شریعت کیلئے مشترک پلیٹ فارم مضبوط کریں.
محترمہ آسیہ فلاحی نے کہا کہ جارحانہ قوم پرستی کی تحریک مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنا رہی ہے خوف و ہراس کا ماحول بنایا جا رہا ہے. ملت اپنے فرض سے غافل ہے. اس وقت مدارس کی یہ ذمہ داری ہے کہ علمی کام کریں، اتحاد کی فضا بنائیں، غلط فہمی کا ازالہ کریں اور اسلام کا تعارف بڑے پیمانے پر کرائیں.
محترمہ ثمرہ یعقوب فلاحی نے کہا کہ افتراق و انتشار، مسلکی و جماعتی عصبیت اور ذمہ داری کا عدم احساس ہماری بڑی کمزوریاں ہیں، ان کو دور کرنا ضروری ہے. مدارس کو افراد سازی کا کام پوری توجہ سے کرنا چاہیے.
قاری عبد الغفار صاحب نے فرمایا کہ اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود تبدیلی کیلئے آمادہ نہ ہو. اس لیے باحوصلہ افراد کی تیاری لازمی ہے جو امت کی قیادت کرسکیں اور یہ کام مدارس ہی کر سکتے ہیں.
مولانا کمال الدین فلاحی نے کہا کہ ملکی تناظر میں مذہبی منافرت، اونچ نیچ، لاقانونیت، تاریخ کو مسخ کرنا اور سرکاری سرپرستی میں غنڈہ گردی اہم مسائل ہیں اور ملی تناظر میں پسماندگی، عصبیت، دین سے دوری اور بے مقصدیت اہم مسائل ہیں. تحریکی مدارس نے یقیناعصبیتوں کو کم کیا ہے، جدید و قدیم میں قربت کی کوشش کی ہے اور ایک نظام زندگی کی حیثیت سے اسلام کا تعارف کرایا ہے، مزید یہ کرسکتے ہیں کہ ملت کو مایوسی سے نکالیں، اس میں حوصلہ پیدا کریں، اسلام کا وسیع پیمانے پر تعارف کرائیں، باصلاحیت داعیوں کی تیاری کرائیں اور بطور خاص پس ماندہ طبقات کو قریب کریں.
مولانا رحمت اللہ اثری فلاحی اور مولانا محمد عمران فلاحی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے پروگرام کے انعقاد پر مسرت ظاہر کی اور شرکاء مذاکرہ کو سراہا، مدلل اظہار خیال پر ان کی تحسین کی.
آخر میں محترم شیخ الجامعہ نے اپنے صدارتی خطاب میں اپنی بے انتہا خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ معلمین و معلمات نے بہت قیمتی نکات کی وضاحت بہت مؤثر انداز سے کی ہے. مجھے بہت حوصلہ ملا اور ادارے سے مزید توقعات قائم ہوئی ہیں.
موصوف نے فرمایا کہ اگرچہ مدارس میں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد کم ہے، اس کے باوجود اہل مدرسہ سے خوف کیوں ہے، اس لیے کہ باطل کو معلوم ہے کہ مدارس میں احیائے اسلام کا سبق پڑھایا جاتا ہے. اس کے عزائم کی راہ میں رکاوٹ یہی ہیں.
تحریکی ادارے وہ مراکز ہیں جنہوں نے شعوری طور پر یہ اعلان کر رکھا ہے کہ وہ اسلام کی بنیاد پر تبدیلی چاہتے ہیں. انہیں یہ معلوم ہے یہ امت ساری انسانیت کی بھلائی کیلئے برپا کی گئی ہے. یہ مقصد ہمارے اداروں کے پیش نظر ہمہ وقت رہنا چاہیے، دعوت الی اللہ، علمی تیاری، قرآن و سنت سے شغف، قربانی اور حوصلہ مندی ہماری پہچان ہو. اسلام کیا چاہتا ہے، یہ دنیا کو بتائیے، قیام عدل ہی اسلام کا مقصود ہے. کمزور طبقات کی مدد دین کی ترجیح ہے. افراد سازی کیجئے، دعوت کا کام کرنے والے نوجوان تیار کیجئے، اسلام کا تعارف اور شبہات کا ازالہ دونوں ضروری ہے. آج مذہب ایک اہم فیکٹر بن گیا ہے، اس لیے مطالعہ مذاہب بہی بہت ضروری ہے.
آخر میں دوبارہ اپنی خوشی اور مسرت کا اظہار کیا اور مذاکرے میں حصہ لینے والے معلمین و معلمات کے جذبات و احساسات کی تحسین کی.
طاہر مدنی 23 جولائی 2019