Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 12, 2019

جمعیة الاصلاح۔۔۔۔۔جہاں خیالات کو آواز اور احساسات کو زبان عطا ہوٸی۔


از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى
آكسفورڈ/صداٸے وقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دار العلوم ندوة العلماء ميں داخله لينے سے پہلے ميں نے ضلع جونپور كے دو مدرسوں ميں تعليم حاصل كى، ايك مدرسه ضياء العلوم مانى كلاں، جو درس نظامى كا پابند تها، يہاں دوسال فارسى اور ايك سال عربى پڑهى، دوسرا مدرسه مولانا آزاد تعليمى مركز، اسرہٹه جس ميں مولانا حميد الدين فراہى كے نصاب كا اثر تها،  اس اداره ميں مزيد تين سال تك عربى كى تعليم حاصل كى، ان دونوں مدرسوں ميں نصاب كى كتابوں پر زور تها، يہاں فارسى وعربى كى كتابوں كے  سمجهنے كى اچهى مشق بہم آئى، غير درسى كتابوں كے مطالعه كا  موقع كم ملا، اس لئے ميرى معلومات كى دنيا محدود   تهى، اور عقلِ تجزيه نگاردرسيات كے دائره ميں محصور۔
سنه 1978 ميں ندوة العلماء ميں داخله ليا،  صبح سويرے احاطۂ دار العلوم ميں داخل ہوا، نمود صبح كا وه منظر كتنا حسيں تها، ديدار روئے يار  نہايت  دلنشيں تها،  كرن كرن روشنى بلنديوں سے اتر رہى تهى، اور زمين كے ظلمتكده كو رنگينيوں سے معمور كر رہى تهى، دار العلوم كى پر شكوه  عمارت سے مرعوب ہونا قدرتى تها، صاف ستهرے دفتر جہاں ہر چيز قرينه سے تهى، مہتمم صاحب كى پر وقار وسنجيده شخصيت،   طلبه كى بهيڑ،  ہنگامه ،ہلچل، جوش وخروش، داخله كے امتحانات، غير معمولى انتظام وانصرام، دار الاقامۂ شبلى وسليمانيه  كى روايات، وسيع سپورٹ گراؤنڈ، ان ميں سے ہر چيز نے توجه مبذول كى، دلچسپى ميں اضافه كيا، اور ايك نئى زندگى شروع ہوئى، دل كى دهڑكنيں بڑهيں،  اس در وديوار كے اندر وه افسانے پڑهے  جو ان كہے تهے، وه تصور ذہنوں ميں مرتسم ہوئے جو بے زباں تهے۔
اس  انتقال مكانى نے ميرى علمى وعقلى ترقى ميں بنيادى كردار ادا كيا، فروغ خود آگہى سے دل ونظر جگمگانے لگے،  فكر وخيال كى رہگزر آباد ہونے لگى، ماضى، حال اور مستقبل كا فرق نماياں ہوا، اس وقت ہندوستان كے ديہات ماضى ميں جى رہے تهے، ندوه ميں ماضى كى روايتوں پر ناقدانه نگاه ڈالنے كى تربيت ہوئى، حال  كے ساته مبصرانه سبك خرامى كى مشق كرائى گئى، اور مملكت فردا كى  صراط مستقيم سے روشناس كرايا گيا، يہاں معلومات ميں وسعت  پيدا ہوئى، تجزيه وتحليل كى عادت ہوئى، اور تنگ نظرى وتعصب سے نجات ملى،  جب  مطالعه سے جى اكتاتا، تكان غالب ہوتى،  اورحوصلے پست ہونے لگتے تو بام ودر سے ايك ندائے آسمانى سنائى ديتى جو شياطين انس وجن كے اتباع سے روكتى، اور  ايك پاكيزه  روشنى نظر  آتى جو ظلمت پست ہمتى كو دور كرديتى اور راسته كے خطرات 
كا صفايا كرديتى۔

اس ذہنى ساخت ميں جمعيت الاصلاح كا بڑا دخل تها، اس كى لائبريرى ميں مختلف موضوعات پر بہترين اردو كتابيں موجود تهى، ايك طرف فريم ميں مختلف درجات كے طلبه كے لئے ان كى سطح كى كتابوں كى فہرست آويزاں تهى، ہم نو واردوں كے لئے يه فہرست بہت مفيد ثابت ہوئى، اسى كى روشنى ميں كتابون كا مطالعه كرتے، بعد ميں جب اساتذه سے تعلق استوار ہوا تو ان كے مشوره سے كتابوں كا انتخاب كيا گيا،  اور جب دماغ نے خود سرى كى تو بغير مشوره كے ہر نافع وضار سے كسب فيض كيا گيا، سب سے پہلے زبان وادب سے متعلق كتابيں پڑهىں، پهر سيرت وسوانح كے موضوعات كا مطالعه كيا، اور اس كے بعد فكرى وفلسفيانه كتابوں پر نظر ڈالى گئى، مولانا ابو الحسن على ندوى، مولانا ابو الاعلى مودودى، سيد سليمان ندوى،  مولانا عبد السلام ندوى، مولانا عبد الماجد دريابادى، مولانا ابو الكلام آزاد، نياز فتحپورى، مہدى افادى،  مجنوں گوركهپورى، مولانا شبلى نعمانى، الطاف حسين حالى، حسين آزاد، ڈپٹى نذير احمد، سر سيد احمد خان وغيره  كى كتابون كا مطالعه كيا،  اور بعض كتابيں كئى بار پڑهيں۔
ہم طلبه ميں اس پر گفتگو ہوتى كه مطالعه كى جانے والى كتابوں ميں بہت سى باتيں سمجه سے بالا ہوتى ہيں، اور جو چيزين سمجه ميں آتى ہيں ان ميں سے اكثر ذہن ميں محفوظ نہيں رہتيں، كسى استاد نے رہنمائى كه سمجه ميں نه آئے تب بهى مطالعه جارى ركهيں، اور اس كى پرواه نه كريں كه كوئى بات ذہن ميں رہتى ہے كه نہيں، كيونكه جو  باتيں ذہن سے نكل جاتى ہيں وه بهى كہيں نه كہيں محفوظ ہوتى ہيں، يه واقعى بہت قيمتى بات ہے، اس سے مطالعه جارى ركهنے كا حوصله ملا، اور يه واضح ہوا كه جو بات آج سمجه ميں نہيں آرہى ہے وه كل سمجه ميں آسكتى ہے، تعقل وتفهم سے بالا مضامين اب كار آمد لگ رہے ہيں، اور بهولے بسرے نكتے اب ياد آرہے ہيں۔
الاصلاح كى  هفته وارى  بزم خطابت اور بزم سليمانى (مقاله نويسى) سے وابسته رہا، فن خطابت سے مناسبت نه ہونے كى وجه سے كوئى خاص ترقى نہيں كى، ليكن اس  كے باوجود پابندى سے پروگراموں ميں حصه ليتا رہا، اس كے لئے تيارى كرتا جس كا علمى  وفكرى فائده ہوتا ، مقاله نويسى ميں زياده دل لگا، عام طور سے يه پروگرام كسى استاذ كى صدارت ميں ہوتے جو رپورٹ بهى تيار كرتے اور ہر مقرر يا مقاله نگار پر تبصره بهى كرتے، ايك مرتبه مولانا عارف سنبهلى صاحب مرحوم صدارت فرما رہے تهے، وه خود مانے ہوئے مقرر تهے، انہوں نے ميرى تقرير پر تبصره فرمايا كه انداز تقرير كا نہيں بلكه تدريس كا ہے، ميں نے مولانا كے اس تبصره كابرا نہيں مانا، اور نه مولانا كو غلط ثابت كرنے كى كوئى كوشش كى، چنانچه آج تك مجهے تقرير كے مقابله ميں تدريس سے مناسبت زياده ہے۔
الاصلاح ميں كبهى كبهى مباحثے ہوتے تهے ، ان مباحثوں سے علمى بحث وگفتگو كا انداز معلوم ہوا، مخالف كى بات سمجهنے اور دلائل پركهنے كے ہنر ميں ترقى ہوئى، ايك مقابله آج تك ياد ہے، جس كا موضوع تها "ڈارون كا نظريۂ ارتقاء"، ايك جماعت اس نظريه كى حامى تهى، اور دوسرى جماعت اس كے خلاف، ميں دوسرى جماعت ميں تها، اور مجهے ياد ہے كه اس كے لئے ميں نے اس موضوع پر مولانا مودودى كى تحريريں پڑهيں اور ان كے دلائل كا استعمال كيا،  البته يه ياد نہيں پڑتا كه كون سى ٹيم جيتى۔
الاصلاح ميں  خطابت ومقاله نويسى كے سه ماہى، شش ماہى اور سالانه مقابلے ہوتے تهے، جن كے لئے زياده تيارى كرنى ہوتى، ان مقابلوں ميں بہت كم جيتنے كا موقع ملا، ليكن كبهى ہمت نہيں  ہارى، اصل چيز پروگراموں ميں شركت ہے، اور شركت كے بے شمار فائدے ہيں، اگر كوئى انعام نه بهى حاصل ہو تب بهى تقرير ومقاله كى تيارى ميں مطالعه سے فائده ہوتا ہے، اور دوسروں كى تقريروں اور مقالوں كے سننے كے بهى فائدے ہيں، ايك اہم فائده يه محسوس ہوا كه اسٹيج پر اور  پبلك  كے سامنے كهڑے ہونے اور بولنے كى ہمت ہوئى۔
غرض وه  ايك دهن تهى مطالعه اور غور وفكر كى، اكيلے پن سے دوستى تهى، ايك شوق تها جو ساتهيوں كو ديكهكر بڑهتا رہا، اور ايك جد وجہد تهى جسے جمود وركود سے بير تها، ہائے وه زمانۂ كسب كلفت ورنج ومحن، وه آسمانوں سے ستارے توڑ لانے كى آرزو، وه گلشن انسانوں كا  جہاں فرشتے ہر وقت ايك انوكهى داستان لكهتے:
راه عمل ميں شوق فراواں كى شرط ہے
جاتى نہيں ہے سعى طلب رائيگاں كبهى
الاصلاح سے كيا ملا؟  وه دهڑكنيں خاموشى جن كى ترجمان تهى ان كو زبان سے نوازا گيا، وه نغمے جو ضمير كے زنداں ميں پر فشاں تهے، انہيں كهلى فضاؤں ميں اذن پرواز ملا،  وه عالم نشاط وغم جو پہلے نا قابل بياں تهے انہيں گويائى ارزاں ہوئى، الاصلاح نے خيال وآواز كے درميان ايك رشته استوار كيا،  پرانے الفاظ وتعبيرات كے ڈيروں كو ريزه ريزه كيا، اور قصه هائے پارينه كو پائمال كيا، ان كى جگه نئى الفاظ وتعبيرات شور كرتے ہوئے آگے بڑهے، ان كو رنگ ورعنائى كا فسوں عطا ہوا،  اورمن كى دنيا ميں  ايك نيا مہذب شہر آباد ہوا۔