Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, July 4, 2019

اقلیتوں کو مطمٸن کرنا وزیر اعظم کی ذمے داری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مولانا سید ارشد مدنی۔

جمعیۃ علما ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس میں ملک کے تشویشناک حالات پر غوروخوض، ماب لنچنگ کے خلاف قانون سازی پر زور، جھارکھنڈ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانے کی تیاری
*نئی دہلی۴؍جولائی:/صداۓوقت*
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظرآج مرکزی دفترجمعیۃعلماء ہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیۃعلماء ہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا سید ارشد مدنی منعقد ہوا ،اجلاس میں بابری مسجد مقدمہ ، آسام شہریت معاملہ سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بدتر صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیاگیا ساتھ ہی دوسرے اہم ملی اور سماجی ایشوز پر تفصیل سے غوروخوض ہوا ،اس اہم اجلاس میں ممبران نے ملک کے موجودہ حالات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔اس پس منظر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے موجودہ حالات خاص طور پر مسلم اقلیت اور دلتوں کیلے تقسیم کے وقت سے بھی بدتر اور خطرناک ہوچکے ہے ایک طرف جہاں آئین اور قوانین کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش کی جارہی ہے وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کوبھی ختم کردینے کی خطرناک روشاخیتارکی جارہی ہے ۔ 

ہندوستان صدیوں سے اپنی مذہبی غیر جانبداری اور رواداری کے لئے مشہورہے سیکولرازم اور رواداری نہ صرف ہندوستان کی شناخت ہے بلکہ یہی اس کے آئین کی روح بھی ہے ،آج ملک میں اقلیتوں خاص طورسے مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیادپر نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے اب تک بہت سے لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں انہوں نے انتباہ دیا کہ اگر آئین اور قانون کی بالادستی قائم نہیں رہی تو یہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوگا ،مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند اپنے قیام سے آج تک ملک میں اتحاد ویکجہتی ، امن وآشتی اور بھائی چارہ کے فروغ کے لئے سرگرم رہی ہے ،جمعیۃعلماء ہند کا یہ مشن آج اور بھی ضروری ہوگیا ہے ، کیونکہ ایک خاص سوچ اور نظریہ کی متحمل سیاسی قوتیں ملک کو سیکولرازم اور مذہبی غیر جانبداری کی راہ سے ہٹاکر پورے ملک میں نفرت اورفرقہ پرستی کا ماحول پیداکرنے کے درپے ہیں انہوں نے کہا کہ صدیوں سے مل جل کر ساتھ رہتے آئے ہیں،اس ملک کی مٹی میں ہمارے بزرگوں کا لہو شامل ہے،ان کی قربانیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں،ملک کی اقلیتوں کو مطمئن کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کیوں کہ وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتا ہے ، آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ یہ ملک کسی خاص مذہب کی نظریہ کے بینادپر چلے گا یا قومیت کی بنیادپریا سیکولرازم کے اصولوں پر ؟ مولانامدنی نے انتباہ دینے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں کسی ایک نظریہ اور مذہب کی بالادستی چلنے والا نہیں ہے یہ ملک سب کا ہے ہندوستان ہمیشہ سے گنگاجمنی تہذیب کا علمبردار ہے اور اسی راہ پر چل کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے ۔ماب لنچنگ کے حالیہ واقعات اور خاص کر تبریز انصاری کے وحشانہ قتل پر اپنی سخت برہمی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ یہ قتل نہیں حیوانیت اور درندگی کی انتہاہے  اور ہندستان کے ماتھے پر کلنک اور بدنماداغ ہے ، انہوں نے کہا کہ ایسالگتاہے کہ جھارکھنڈ ماب لنچنگ کی ایک پریوگ شالہ بن گئی ہے،جہاں اب تک19 لوگ ماب لنچنگ کا شکار ہوچکے ہیں ، جس میں گیارہ مسلم ہیں اور دیگر دلت اور آدیواسی ہیں ، انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات تویہ ہے کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے باوجود یہ درندگی رک نہیں رہی ہے حالانکہ 17جولائی 2018 کو سپریم کورٹ نے اس طرح کے واقعات پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ایک فیصلے میں کہا تھاکہ کوئی شخص قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا اورمرکزسے اسے روکنے کے لئے پارلیمنٹ میں الگ سے قانون بنانے کی ہدایت بھی کی تھی لیکن اس کے بعدسے اب تک ماب لنچنگ کے واقعات ہورہے ہیں۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے اس آرڈر کے بعد بھی اب تک تقریبا 55لوگ ماب لنچنگ کا شکار ہوچکے ہیں اور این ڈے اے کے دوبارہ اقتدارمیں آنے کے بعد 26 مئی سے آج تک 8افراد ماب لنچنگ کا شکار ہوچکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے بعد وزارت داخلہ نے تو ماب لنچنگ کو روکنے کے لئے تمام ریاستوں کو ہدایت جاری کرکے موثر اقدامات کرنے کا حکم دیا تھا اب اگر اس کے بعد بھی اس طرح کے واقعات نہیں رک رہے ہیں تو پھر اس کا صاف مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حاصل ہے ِ؟صرف اتنا ہی نہیں ضمانت ملنے پر ان ملزمین کاسیاسی لوگ استقبال کرتے ہیں کیا یہی سب کاساتھ سب کاوکاش اورسب کاوشواش ہے،  اس لئے ان کے حوصلے بلند ہیں ۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہجومی تشدد ایک مذہبی مسئلہ  ہے جس میںمذہبی بنیادپر لوگوں کوتشدداور بربریت کانشانہ بنایا جارہا ہے، ۔اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں میدان عمل میں کھل کر سامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدام کریں، صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے حالات اس وقت انتہائی خراب ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اس طرح کے حالات ملک کے تقسیم کے وقت بھی نہیں تھے۔مار کاٹ خونریزی تو ہوئی مگرحکومت اور ملک کے سیاسی لوگ اس کے خلاف تھے، بابائے قوم مہاتماگاندھی جی نے اس کے خلاف مون برت رکھاتھا،اور واوقعہ یہ ہے کہ یہی چیز ان کی شہادت کا سبب بن گئی اسی لئے ہمار ا معاشرہ فرقہ وارانہ بنیاد پر تقسیم نہیں ہوا تھا۔اب ایک مخصوص نظریے کو ملک پر تھوپنے کی کوشش ہورہی ہے اور ہر شخص کو مجبور کیا جارہا ہے کہ اس کے نظریے کو تسلیم کرے۔مولانا مدنی نے مزید کہا کہ ان حالات میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اس ملک کی مٹی میں محبت کا خمیرشامل ہے۔یہی وجہ ہے مختلف مذاہب ،تہذیبوں اور زبانوں کے لوگ صدیوں سے پیار محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں،ہمارا اختلاف اور لڑائی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں صرف ان طاقتوں سے ہے جنہوں نے ملک کی سیکولر قدروں کو پامال کرکے ظلم وجارحیت کو اپنا شیوہ بنالیا ہے ، لیکن افسوس کہ عوام کے ذہنوں میں پہلے گائے کے نام پر اور اب جے شری رام کے نام پر مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔مگرامید افزابات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثیرت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ افسوس  اس پر ہے کہ سپریم کورٹ کے سخت ہدایت کے بعد بھی سرکار قانون سازی نہیں کررہی ہے اور بے گناہی کی ہلاکت  کو روکنے کے لئے مؤثر اقدامات سے پہلو تہی کررہی ہے چنانچہ جمعیۃ علماء ہند نے سڑک پر پر اترکراحتجاج اورجلوس کے بجائے اس کے خلاف عدالت عظمی ٰ میں قانونی چارہ جوئی کافیصلہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند نے پیش رفت کرتے ہوئے جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کردی ہے ۔  جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلا س ہجومی تشدد اور (ماب لنچنگ ) پر اپنی انتہائی تشویش کا اظہارکرتاہے ، ایک جمہوری ملک میں جہاں ایک مضبوط اورمستحکم جمہوری حکومت ہے عوام کا قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لینا اور حکومت اس لاقانونیت پر تماشائی بنی رہے یہ ایسا رویہ ہے جو ملک کو انتشار اور خانہ جنگی کی طرف لے جارہا ہے ، اگر ملک میں یہ لاقانونیت یونہی بڑھتی رہی تو اس کی آگ میں صرف اقلیتیں دلت اور ملک کی کمزور عوام ہی نہیںجلیںگے بلکہ اس کی لپٹ سے ملک کی سالمیت محفوظ نہیں رہے گی ، اور ملک کی ساری ترقی اور نیک نامی اس جنگل راج کی نذر ہوجائے گی اس لئے ہر محب وطن کا ملک سے محبت کا  یہ تقاضہ ہے کہ مذہب ونسل سے بلند ہوکر مسلم اور غیر مسلم متحدہوکر اس کے خلاف آواز اٹھائیں ، اور حکومت وقت سے بھی ہمارامطالبہ ہے کہ اپنی ساکھ اور ملک کی قدیم تہذیب وثقافت کی حفاظت کے لئے جلد ازجلد اس کے خلاف قانون بنائے اور چابک دستی سے اسے نافذ کرے کیونکہ حکومت کی خاموشی سے بین الاقوامی طورپر ملک کی نیک نامی پر سوالیہ نشان لگ رہا ہے اور مہذب دنیا میں ہماری رسوائی ہورہی ہے ۔  بابری مسجد تنازعہ سے متعلق ایک قرارداد میں کہاگیا کہ جمعیۃعلماء  ہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس مورخہ 3؍جولائی 2019؍بابری مسجد کے معاملہ پر غوروفکر کے بعد بابری مسجد کی تاریخی ، قانونی اور شرعی حیثیت کے  پیش نظر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ بابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی ، چاہئے بزورحکومت وطاقت اسے کوئی بھی شکل اور نام دیدیا جائے ، اس لئے کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیںہے کہ کسی متبادل کی امید میں مسجد سے دستبردارہوجائے لہذا جمعیۃعلماء ہند اس بارے میں اپنے پرانے موقف پر قائم ہے ، قانون اورشواہد کی بنیادپر سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا ہم اس کو قدرکی نظرسے دیکھیںگے۔  جمعیۃعلماء ہند کی ورکنگ کمیٹی نے کہا کہ  مسئلۂ کشمیر کا حل بندوق اور ظلم وجبر سے نہیں نکل سکتا بلکہ اسے آپسی بات چیت کے ذریعہ حل کیا جانا چاہئے ورنہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حالات بد سے بدتر ہوتے جائیں گے۔ ،انہوں نے کہا کہ ہمیں کشمیریوں کا دل جیتنے کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کشمیری عوام سے یہ اپیل بھی کی کہ وادی میں امن و اتحاد اور مشترکہ تہذیبی وراثت کو بچائے رکھیں،کیوں کہ یہی کشمیر کی روح ہے اور یہی کشمیریت ہے۔مجلس عاملہ نے طلاق ثلاثہ بل پر یہ تجویز پاس کی کہ دستور ہند میں دیئے گئے حقوق کے تحت مسلمانوں کے مذہبی عائلی معاملات میں حکومت یا پارلیامنٹ کو ہرگز مداخلت کا حق نہیں ہے کیونکہ مذہبی آزادی ہمارا بنیادی حق ہے جس کی ضمانت دستور کی دفعہ 25تا28 میں دی گئی ہے ،لہذا ایسا کوئی بھی قانون جس سے شریعت میں مداخلت ہوتی ہے وہ مسلمانوں کے لئے ہرگز قابل عمل نہیں ہوگا،مسلمان بہر صورت شریعت پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔مسلمانوں کے مذہبی امور قرآن وحدیث کی بنیاد پر طے ہوتے ہیں،اسلئے سماجی اصلاحات کے لئے شریعت کو دوبارہ نہیں لکھا جاسکتا اور طلاق کے معاملے میں قرآن وحدیث ہی واحد دستور ہے۔مولانا مدنی نے کہا ایسامحسوس ہوتا ہے کہ مسلمانوں کاطلاق کے علاوہ کوئی دوسرا مسئلہ نہیں ہے،حالانکہ دوسری کمیونیٹی میں طلاق کا تناسب زیادہ ہے۔سروے کے مطابق 68%فیصد طلاق غیر مسلموں میں ہوتی ہے اور 32% تمام کمیونیٹی میں۔آخر یہ دوہرا معیار کیوں؟ایک دوسری تجویز میں کہا گیا کہ 26 جون کو اسٹیٹ کورڈینیٹر نے جن لوگوں کا پہلے سے این آر سی میں نام آچکا تھا اس میں سے ایک لاکھ دو ہزار چھ سو بیالیس(102642) کا نام خارج کردیا اور  گورنمنٹ نے ان لوگوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے صرف پندرہ دن کا موقع دیا ہے ، اسی فیصلہ کے خلاف آج جمعیۃعلماء ہند نے سپریم کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن داخل کی ہے جس میں یہ مطالبہ کیا ہے کہ یہ مدت پندرہ دن سے بڑھاکر ایک ماہ کردی جائے کیونکہ این آرسی کے ضابطہ میں کلیم اورآبجکشن کے لئے ایک ماہ کا وقت دیا جاتاہے، قابل ذکر ہے کہ این آرسی کی حتمی لسٹ 31 جولائی کو جاری کردی جائے گی ۔کیرالہ میں ریلیف کا جو کام ہورہاہے  اس کی رپورٹ پر اطمینان کا اظہارکیا گیا ، گزشتہ اپریل میں 40 مکانات متاثرین کے حوالہ کئے جاچکے ہیں باقی 28 تکمیل کے مراحل میں ہیں جو بہت جلد متاثرین کے حوالہ کئے جائیںگے ، اور95 مکانات کی مرمت کراکر متاثرین کے حوالہ کئے جاچکے ہیں ۔علاوہ ازیںورکنگ کمیٹی میں جمعیۃ علماء ہند کی مجلس منتظمہ (جنرل باڈی) کے انعقاد کا فیصلہ کیا گیا ہے جس میں ملک و ملت کے تعلق سے بہت سارے مسائل پر غور وخوض ہوگا۔ورکنگ کمیٹی نے ایک نمائندہ اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا ہے جس میں مذہبی ،سیاسی ،سماجی اور سیکولرزم پریقین رکھنے والے اشخاص و دانشوروں کو مدعو کیا جائے گا،جو ملک کے معاملات اور حالات کا جائزہ لیں گے اور مستقبل کے لئے لائحۂ عمل تیارکریںگے۔ورکنگ کمیٹی نے ریاستی، ضلعی اور مقامی یونٹوں کو متوجہ کیا کہ جمعیۃ علماء ہندکے تعمیری پروگرام خصوصا اصلاح معاشرہ کے پروگرام بطور تحریک چلائیں جس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سد باب ہوسکے۔ اجلاس مجلس عاملہ کی کارروائی مولانا سید ارشدمدنی کی صدارت میں ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی کی تلاوت کلام پاک سے ہوئی ،شرکاء اجلاس میں صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سیدارشدمدنی ، ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، ارکان میں مولانا حبیب الرحمن قاسمی اعظمی دیوبند ، مولانا محمد حنیف صالح گجرات ، مولانا اشہد رشیدی مرادآباد، مولانا سید اسجد مدنی دیوبند، مولانا فضل الرحمن قاسمی ، مولانا عبداللہ ناصربنارس، الحاج حسن احمد قادری پٹنہ ، مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی ، مولانا مفتی محمد اسماعیل مالیگاؤں،مفتی غیاث الدین حیدرآباد کے علاوہ مدعوخصوصی  کے طورپرمولانا عبدالقیوم قاسمی مالیگاؤں، مفتی عبدالقیوم احمدآباد، اورمحمد احمد بھوپال شریک ہوئے اجلاس کی کارروائی صدرمحترم جمعیۃعلماء ہند کی دعاپر اختتام پزیر ہوئی ۔