Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Friday, July 12, 2019

ہجومی تشدد کے واقعات میں انتظامیہ بھی ذمہ دار ہو گی، اترپردیش میں بل تیار

واٸس آف امریکہ کی خبر۔
نئی دہلی — مورخہ ١٢ جولاٸی ٢٠١٩۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھارتی ریاست اتر پردیش کے لاءکمیشن نے ماب لنچنگ یعنی ہجومی تشدد اور قتل کے خلاف ازخود کاروائی کرتے ہوئے ایک مسودہ قانون تیار کیا ہے جس کے مطابق حملہ آوروں کو سات سال اور اپنی ڈیوٹی سے غفلت برتنے پر پولیس افسران یا مجسٹریٹ کو تین سال تک قید کی سزا ہو سکے گی۔ یہ مسودہ وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو پیش کر دیا گیا ہے۔

اس مسودہ کا نام ”اترپردیش ہجومی تشدد مخالف بل 2019“ ہے۔ لاء کمیشن کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ آدتیہ ناتھ متل کی رپورٹ کے مطابق موجودہ قوانین کافی نہیں ہیں اور ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف مجرموں کو سزا دی جائے بلکہ غفلت برتنے کے لیے انتظامیہ کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔
مسودے میں کہا گیا ہے کہ ہجومی تشدد کو الگ جرم مانا جائے تاکہ شرپسندوں میں خوف پیدا ہو۔
اس میں سفارش کی گئی ہے کہ ہجومی تشدد سے متاثر شخص کے زخمی ہونے کی صورت میں حملہ آوروں کو سات سال تک کی جیل اور ایک لاکھ روپے تک جرمانہ، شدید چوٹیں آنے پر دس سال تک کی جیل اور تین لاکھ روپے جرمانہ اور ہلاک ہونے کی صورت میں بامشقت عمر قید اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کی سزائیں سنائی جائیں۔
بل میں لکھا گیا ہے کہ مقامی پولیس افسر یا ضلع مجسٹریٹ اگر ڈیوٹی سے غافل پایا جائے تو اسے ایک سال کی جیل ہو جو تین سال تک بڑھائی جا سکے اور پانچ ہزار جرمانہ کیا جائے۔ ماحول خراب کرنے والوں کو چھ ماہ کی جیل ہو۔
ایک سیاسی جماعت ایس ڈی پی آئی کے قومی سیکٹری اور ہجومی تشدد کے خلاف کئی مظاہروں کی قیادت کرنے والے ڈاکٹر تسلیم رحمانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ قوانین پہلے ہی موجود ہیں تاہم ایک نیا قانون بنایا جا رہا ہے اس سے کچھ خوف ضرور پیدا ہو گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے سیاسی نیت کی ضرورت ہے۔ قانون پر عمل درامد بہت ضروری ہے جو کہ سیاسی قوت ارادی کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔

رحمانی کہتے ہیں کہ بھارت میں حجومی تشدد کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں کے کیسز میں ابتدائی طور پر گرفتاریاں تو ہوتی ہیں لیکن بعد میں مقتولوں پر بھی مختلف جرائم کے الزامات لگا دیئے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حجومی تشدد کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے پہلو خان کو گائے کا اسمگلر ثابت کیا گیا۔ جھارکھنڈ میں تبریز پر حملہ کر کے اس کو ہلاک کر دینے والوں پر قتل کے مقدمات قائم ہوئے۔ لیکن تبریز کو بھی چور بتانے کی کوشش کی گئی۔ لہٰذا جب ہم مظلوم کو ملزم اور مجرم بتانے لگیں گے تو ہمارے قوانین غیر موثر ہو جائیں گے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور ایک معروف قانون داں محمود پراچہ نے مجوزہ بل پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق ملک میں پہلے سے ہی قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ بل میں سزائیں بہت کم رکھی گئی ہیں۔
دریں اثنا اترپردیش میں بی جے پی کے یوتھ ونگ بھارتیہ جنتا یووا مورچہ کے کارکنوں نے ایک مقامی مدرسے دار العلوم فیض عام کے طلبہ سے زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوانے کی کوشش کی۔ انکار کرنے پر ان پر حملہ کیا گیا جس میں کئی طلبا زخمی ہیں۔
پولیس نے کیس درج کر لیا ہے اور معاملے کی تفتیش کی جا رہی ہے۔