Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 8, 2019

مجدد تھانوی کے دیار میں۔۔۔۔۔۔قسط 3.

*مجدد تھانویؒ کے دیار میں*
قسط ⑶
✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
=========================
*مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کے ملفوظات*
دارالاہتمام سے نکل کر مجھے خانقاہ کے تاریخی حجروں کی زیارت کرنی تھی۔ ہم صحن کی طرف نکلے تو چھت کی طرف جانے والے راستے سے تھوڑا آگے دیوار پر ایک فریم دکھائی دیا، جس میں بانئ جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ کا ملفوظ نمایاں طور پر شائع تھا۔ ملفوظ یہ تھا:
*علما سے کہنا ہے کہ ان تبلیغی جماعتوں کی چلت پھرت، زور، محنت و کوشش سے عوام میں دین کی صرف طلب اور قدر ہی پیدا کی جا سکتی ہے اور ان کو دین سیکھنے پر آمادہ ہی کیا جا سکتا ہے، آگے دین کی تعلیم و تربیت کا کام علما و صلحا کی توجہ فرمائی ہی سے ہو سکتا ہے، اس لیے آپ حضرات کی توجہات کی بڑی ضرورت ہے* (ملفوظات، ص 142) ۔
آگے بڑھا تو ایک اور فریم میں یہ عبارت درج تھی:
*حضرت حکیم الامتؒ کے انتقال کے بعد حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی نے فرمایا: حضرت تھانویؒ نے بڑا کام کیا ہے۔ میرا دل چاہتا ہے کہ تعلیم تو ان کی ہو اور طریقۂ تبلیغ میرا ہو، اس طرح ان کی تعلیم عام ہو جائے گی* ۔ (ملفوظ 56)
وہیں اس کے بازو میں حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ کا یہ مشہورِ زمانہ شعر بھی فریم تھا:

نقشِ قدم نبیؑ کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے راستے
*مولانا محمد فاروقی محدث تھانویؒ کی نشست گاہ کی زیارت*
اب حجروں کی زیارت کا نمبر تھا۔ سب سے پہلے جس حجرے کی زیارت ہوئی، وہ شیخ محمد محدث تھانویؒ کی نشست گاہ سے متصل تھا۔ ڈیڑھ سو الہ پرانا۔ قدیم ترین وضع کا۔ کواڑیں لکڑی کی تھیں۔ انتہائی مضبوط اور سرد و گرم چشیدہ ۔ گھن نے شاید انہیں دیکھا ہی نہ ہو۔ لوہے کی طرح ٹھوس اور مستغنی۔ کواڑیں بند تھیں اور ان پر لوہے کا مضبوط ترین تالا ۔ مولانا سید حذیفہ نجم صاحب نے بتایا کہ یہ حجرہ اور بقیہ سارے حجرے مجدد تھانویؒ کے تعمیر کردہ ہیں۔ اوپر نیچے کل دس حجرے۔ بعض کھلے ہوئے اور بعض قفل بردار۔ تالا مسیح الامت حضرت مولانا مسیح اللہ خان جلال آبادیؒ کا لایا ہوا ہے۔ مولانا جلال آبادیؒ اصلاً علی گڑھ کے تھے۔ وہاں سے مجدد تھانویؒ سے استفادے کے لیے آتے تو کبھی کبھار تالے بھی لے آتے۔ یہاں قیام کے دوران اسی حجرے کے باہر اس کی دیوار سے متصل محدث تھانویؒ کی نشست لگتی۔ ان کے متعدد تحریری کام اسی نشست گاہ میں ہوئے۔ اس زمانے میں ان حجروں کا کوئی وجود نہیں تھا۔
*محدث تھانویؒ کون تھے؟*
شیخ محمد محدث تھانویؒ کا وطنی تعلق اسی تھانہ بھون سے تھا۔ یہ مجدد تھانویؒ کے استاذ، شاہ اسحاق محدث دہلویؒ کے شاگرد اور سید احمد شہیدؒ کے مرید تھے۔ 1230ھ مطابق 1815 میں پیدا ہوئے اور 1296ھ مطابق 1879 میں وفات پائی۔ ابتدائی تعلیم وطن سے رہی اور انتہائی تعلیم دہلی سے۔ فراغت کے بعد وطن کو ہی اپنی تدریسی سرگرمیوں کا مرکز بنایا ۔ بڑے ذی علم اور صاحبِ فضل و کمال تھے۔ تمام ہی اسلامی فنون میں کامل مہارت رکھتے۔ نسائی شریف پر ان کا حاشیہ بہت معروف ہے۔ اس کے علاوہ حزب البحر کی شرح، نیز مثنوی کا بابِ ہفتم انہیں کے قلم سے ہے۔
محدث تھانویؒ سید الطائفہ حاجی امداداللہؒ کے دور کے رشتے دار تھے اور مشہور مجاہد حافظ ضامن شہیدؒ ان کے پھوپھی زاد بھائی۔ وہ سید احمد شہیدؒ کے ہاتھ پر سات سال کی عمر میں ہی بیعت کر گئے تھے۔ عمر آگے بڑھی اور مرشد حیات نہیں رہے تو حاجی امداداللہ اور حافظ ضامن شہید کی پیروی میں میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ کو اپنا مرشد بنا لیا اور سارے ہی سلسلوں میں ان سے خلافت و اجازت پائی۔
محدث تھانویؒ کو انگریزی مظالم سے بھی گزرنا پڑا۔ 1857 میں تھانہ بھون پر فرنگی فوج کا قبضہ ہو گیا تو انہوں نے اپنے عزیز وطن کو خیر باد کہہ دیا اور کم و بیش 4 سال تک رام پور منیہاران میں روپوش رہے۔
محدث تھانویؒ کے علم و فن کا غُلغُلہ پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا۔ اسی علمی جلال و جمال سے متاثر ہو کر ریاست ٹونک کے نواب وزیر الدولہ نے تہذیب الاخلاق سے متعلق احادیث کے جمع و تدوین کے لیے ٹونک آنے کی دعوت دی۔ وہ 1861 میں تشریف لے گئے اور کام کی تکمیل کے بعد وہیں سے حج کو روانہ ہو گئے۔ اسی سفرِ حج میں شاہ اسحاق محدث دہلوی کے بھائی شاہ یعقوب محدث دہلویؒ سے ملاقات ہوئی اور ان سے صحاحِ ستہ کی اجازت کے ساتھ تمام اوراد و اذکار کی ان سے اجازت پائی۔ وطن میں ہی مدفون ہیں۔
*دوسرے حجروں کی طرف*
محدث تھانویؒ کے حجرے کی زیارت سے دل و دماغ مسرت کدہ بن گیا ۔ آگے بڑھا تو لگاتار چار مزید کمرے میرے سامنے تھے۔ بالکل اسی وضع کے۔ کمروں کے سائز بھی وہی۔ کواڑیں بھی اسی لکڑی کی۔ حضرت تھانویؒ کے سارے مریدین انہیں حجروں میں قیام کرتے ۔ مدرسہ امداد العلوم کے طلبہ بھی ان میں قیام کرتے۔ آج بھی یہ حجرے مدرسہ امداد العلوم خانقاہ تھانہ بھون کے طلبہ کے استعمال میں ہیں۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: حاجی امداداللہ مہاجر مکیؒ کا خلوت کدہ وغیرہ ]