Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 6, 2019

کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمہ کی شعبدہ بازی


از/ڈاکٹر سلیم خان/صداٸے وقت۔
=========================
وادی ٔ کشمیر میں کے دہشت زدہ ماحول  میں  جبکہ سارے اہم سیاسدزاں نظر بند ہیں  وزیر داخلہ امیت شاہ نےراجیہ سبھا میں صدارتی  حکمنامہ   پیش کیا جس کے مطابق  آرٹیکل 370 کی  صرف ایک شق  بچی  رہے گی  اور اس کی بایند پر دیگر سارے  سیکشن ختم ہو جائیں گے یعنی وہ ایک بے روح ڈھانچہ بن کر رہ جائے گا ۔  اس بات کو بی جے پی والے بہت بڑاتاریخی کارنامہ بنا کر پیش کر ہے ہیں حالانکہ یہی سب کانگریسی حکومت بھی خاموشی کے ساتھ کرتی رہی ہے۔   

ہندوستان  ایک دفاقی ڈھانچے پر کھڑا ہے۔ اس میں ایک مرکزی دفاقی حکومت اور ہر ریاست میں صوبائی حکومت  ہے۔ یہ دونوں عوام کی رائے منتخب ہوتی ہیں  اور قانون سازی کا کام بھی  کرتی ہیں لیکن ان کے اپنااپنا دائرۂ  کار ہے  ۔ جملہ ۹۷ شعبے ایسے جن میں مرکزی حکومت قانون بناتی ہے مثلاً دفاع، فوج ،امور خارجہ ، مواصلات وغیرہ ۔صوبوں کو ۶۶ شعبہ ہائے حیات میں قانون سازی کا حق ہے  مثلاً صنعت، زراعت اورجیل وغیرہ۔ کچھ شعبوں پر دونوں کا اختیار ہے جیسے تعذیری اور عائلی قوانین وغیرہ ۔ 
آئین کی دفع ۳۷۰ کے تحت  جموں اور کشمیر  کو خصوصی درجہ حاصل تھا  اس کے چلتے ابتدا میں صرف ۴ شعبوں پر مرکزی حکومت  اختیار حاصل  تھا لیکن اس بات کی گنجائش تھی صوبائی حکومت کی توثیق مرکزی قوانین جموں کشمیر میں نافذ العمل ہوسکتے ہیں ۔  اس کے تحت ایوانِ پارلیمان میں وقتاً فوقتاً کی جانے والی ترمیمات صوبائی حکومت کی منظوری سے  مختلف شعبوں میں  نافذ ہوتی رہیں ۔ اس   کے تحت ۷۰ سالوں کے اندر بتدریج  ۹۷  میں سے ۹۴ شعبوں مرکزی حکومت کا عمل دخل ہوچکا ہے۔ کانگریس نے یہ کام بغیر کسی شور شرابے کے کیا اب بی جے پی  صرف تین شعبوں کا اضافہ کرکے اب  اس کا سیاسی فائدہ اٹھاحاصل کرے گی ۔بی جے پی  جب حزب اختلاف میں تھی تب بھی کشمیر کی آگ پر اپنی سیاسی روٹیاں  سینکتی تھی  اور اب اقتدار میں آنےبعد عنقریب منعقد ہونے والے اسمبلی  انتخاب میں کامیابی کے لیے یہ پتہ کھیل رہی ہے۔ یعنی بڑی تبدیلی تو خاموشی سے  بغیر سیاسی فائدے کے  ہوگئی  مگرمعمولی تبدیلی کے لیے آسمان سر پر اٹھا یا جائے  گا ۔سچ تو یہ   بی جے پی نے ایک مرے ہوئے قانون کا گلا گھونٹا ہے۔
جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو جو لوگ تفریق و امتیاز گردانتے ہیں اور آرٹیکل ۳۷۰ کے خاتمہ کو مساوات کا ہم معنیٰ سمجھتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ  آرٹیکل ۳۷۱(اے) ناگالینڈ کے  لیے موجود ہے مگر چونکہ اس سے چھیڑ چھاڑ میں سیاسی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہے اس لیے اس کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتا۔ اسی طرح کی خصوصی مراعات ہماچل پردیش  کو بھی حاصل ہیں ۔اروناچل پردیش  میں  کوئی بلااجازت داخل نہیں ہوسکتا اور نہ زمین جائیداد خرید سکتا ہے۔ چین جیسے غیر جمہوری اور  جابر حکومت نے بھی ہانگ کانگ کی  خصوصی حیثیت کو تسلیم کیا ہے۔ ڈوگرا سماج کے ریزرویشن کی خاطر مہاراجہ ہری سنگھ نے ۱۹۲۷ ؁ میں جو قانون بنایا تھا اسی کو آرٹیکل ۳۵ (اے)  کی صورت میں دستور ہند کے اندر شامل کیا گیا ۔ اب ڈوگرا لوگوں کو بھی اس سے محروم کردیا گیا۔
  شاہ جی کہتے ہیں دفع  ۳۵( اے) کے چلے جانے سے کشمیر میں سرمایہ کاری ہوگی اور خوشحالی آئے گی۔ کشمیر تو دور فی الحال پورا ملک بدحالی کی لپیٹ میں ہے۔ پچھلے دو ماہ سے شیئر بازار برابر گرتا جارہاہے۔ غیر ملکی سرمایہ کار نے ہزاروں کروڈ کے شیئر بیچ دیئےہیں ۔ پرامن علاقوں میں بھی سرمایہ کاری نہیں ہورہی ہے تو شورش زدہ وادی میں کون جائے گا؟ جو سرکار امرناتھ یاتریوں کو تحفظ نہیں فراہم کرسکتے وہ بیرونی سرمایہ کاروں کی حفاظت کا بندوبست کیسے کریں گے ؟ ہردن  کسی نہ کسی بڑی کمپنی کے دیوالیہ کی خبر آتی ہے۔ ایس بی آئی کا منافع بھی چار گنا کم ہوگیا ہے۔ امیت شاہ کو سوچنا چاہیے کہ اگرجموں  کشمیر میں امن ہوتا  معین علی اور عادل رشید جیسے کشمیری نوجوان انگلینڈ کی طرح ہندوستانی ٹیم کو بھی ورلڈ کپ میں  کامیابی سے ہمکنار کرتے۔
اس معمولی تبدیلی  سے قبل غیر معمولی  حفاطتی انتظامات کرنے پڑے ۔ سیاستدانوں کو نظر بند  کیا گیا اور ا انٹر نیٹ  کی خدمات معطل  کرنی  پڑی۔ یہ  اس  کا ثبوت ہے کہ اپنے سارے لاولشکر کے باوجود ۷۰ سالوں میں ہم کشمیری عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہے۔ ان میں سے ۱۱ سال بی جے پی نے مرکز میں  حکومت کی ہے۔  چار سالوں تک اسے صوبے کی مخلوط حکومت میں بھی شامل ہونے کا موقع ملا لیکن عوام کا اعتماد نہیں حاصل کیا جاسکا ورنہ سرحد کے دونوں جانب والے کشمیر میں  اقوام متحدہ کی زیر نگرانی غیر جانبدارانہ  استصواب کراکے پورا کشمیر ہندوستان کے ساتھ شامل کیا جاسکتا تھا ۔  منقسم کشمیر کو یکجا کرنے کے بجائے حکومت نے جموں کشمیر صوبے سے لداخ کو الگ کردیا ہے۔  لداخ میں گوکہ آبادی نسبتاً کم ہے لیکن رقبہ کے لحاظ سے وہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ جموں کشمیر میں تو خیر یونین ٹیری ٹیری ہونے کے باوجود ایک صوبائی حکومت ہوگی لیکن لداخ کو تو اس سے بھی محروم کردیا چونکہ  وہاں کے بودھ عوام احتجاج نہیں کرتے اس لیے ان کا حق سلب کردیا گیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کشمیریوں کے جذبۂ حریت  اور لداخیوں کے حق کی پامالی کو بندوق کی نوک سے دبایا جاسکتا ہے ؟ تاریخ شاہد ہے کہ مجاہدین آزادی کا لہو رائیگاں نہیں جاتا ۔
جموں کشمیر کا قدیم صوبہ فی الحال ۷ حصوں میں منقسم ہے۔ اس میں سے تین جموں  لداخ اور کشمیر کا ایک حصہ حکومت ہند کےساتھ  ہے ۔ اسی طرح گلگت، بلتستان اور کشمیر کا دوسرا حصہ پاکستان کےپاس ہے۔  اسی طرح اکسائی چین کا علاقہ چین کے قبضے میں ہے۔ رقبہ کے اعتبار سے دیکھیں تو چین کے پاس سب سے کم یعنی 37،555 مربع کلومیٹر کا علاقہ ہے۔ اس سے بڑا علاقہ پاکستان کے پاس یعنی 78،114 مربع کلومیٹرہے۔ ہندوستان کے ساتھ جو علاقہ ہے  اس کاکل رقبہ 101387 مربع کلو میٹر  بنتاہے لیکن اس میں سے تقریباً 59 فیصد لداخ ہے جو اب الگ ہوجائے ۔ اس جموں کشمیر کا نیا صوبہ اکسائی چین سے تھوڑا سا  بڑا ہوگا ۔  ۲۰۱۱؁ کی مردم شماری کے مطابق  لداخ کی آبادی سب سے کم یعنی صرف 290492  ہے۔  جموں کی 5,350,811 اور کشمیر 6,907,623ہے۔ اس طرح جب جموں کشمیر کے صوبائی انتخابات ہوں گے تو اسمبلی حلقہ  کشمیر میں زیادہ ہوں گے اس لیے کہ جملہ ۲۲ ضلعوں میں ۱۳ کشمیر اور ۹ جموں میں ہیں۔ 
جموں کشمیر کے انتخابات عنقریب ہونے والے ہیں  اس لیے بی جے پی چاہے  گی کہ جموں کے سارے ہندو خوش ہوکر  اس کو ووٹ  دیں اور کشمیر کے ووٹ تین حصوں میں منقسم ہوجائیں تاکہ اس کو اپنی سرکار بنانے کا موقع مل جائے  لیکن جموں  کے شمالی  علاقوں میں بھی مسلمان آباد ہیں نیز کشمیر میں اس بار این سی اور کانگریس متحدہوکر انتخاب لڑ سکتے ہیں ۔ بی جے پی  چونکہ معیشت کے میدان میں بری طرح ناکام ہوچکی اور عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے سے قاصر ہے اس لیے عنقریب ہونے والے دیگر  چار صوبوں کے انتخاب جیتنے کے لیے بھی آرٹیکل ۳۷۰ کا استعمال کیا جائے گا۔  یہی وجہ ہے کہ جہاں جے ڈی یو جیسی بی جے پی کی حلیف نے اس کی مخالفت کا اعلان کیا ہے وہیں عام آدمی پارٹی نے حمایت کا فیصلہ  کردیا ہے ورنہ اس کے لیے دہلی میں حکومت بچانا مشکل ہوجائے گا۔  طلاق ثلاثہ اور یو اے پی اے میں بی جے پی کی حمایت کرنے والی بی جے ڈی ، وائی ایس آر کانگریس پہلے ہی ساتھ اب بی ایس پی بھی آگئی ہے اس لیے یہ قانون منظور بہ آسانی  ہوجائے گا ۔  لوک سبھا سے قبل  اسے راجیہ سبھا میں لانے کی وجہ  بھی یہ ہے کہ فی الحال وہاں پر حزب اختلاف کا رہنما  کشمیری  مسلمان ہے۔ اس کی مخالفت کو بھنا کر  عوام کو کانگریس سے برگشتہ بہت آسان ہے ۔ اس سے آرٹیکل ۳۷۰ کے کھیل میں قومی فائدہ کتنا  ہے اور سیاسی مفاد کس قدر  ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
آئین کی دفع ۳۷۰  کو سنگھ کے لوگوں نے اکتوبر ۲۰۱۵؁  کے اندر جموں کشمیر ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا لیکن عدالت  نے اسے منسوخ کرنے سے انکار کردیا ۔  اس کی دلیل یہ تھی کہ دفع ۳۷۰ کی شق ۳ میں کانسٹی ٹیونٹ اسمبلی کو یہ اختیار تھا کہ وہ صدر مملکت کو اس عارضی  قانون کی  منسوخی  کی درخواست کرے لیکن چونکہ ایسا کیے بغیر وہ تحلیل  ہوگئی اس لیے اب یہ آئین کا مستقل حصہ ہے۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تو اپریل ۲۰۱۸؁ میں اس نے بھی ہائی کورٹ کی تائید کردی ۔ اس لیے جس طرح پہلے صدر ریاست کو گورنر اور وزیراعظم کو وزیراعلیٰ میں بدلا گیا تھا اسی طرح  اب دستورساز اسمبلی  کو صوبائی اسمبلی میں بدل دیا گیا ہے ۔ صدر راج کے دوران چونکہ مجلس قانون ساز کے سارے اختیارات گورنر کے پاس ہوتے ہیں اس لیے ان کی درخواست  پر صدر مملکت اس آرٹیکل کو مسترد کردیاہے۔  اس کے خلاف عوامی احتجاج بھی ہوگا اور عدالتی چارہ جوئی بھی کی جائے گی۔ اس آئینی ترمیم کے بعد ممکن ہے  عدالت کے رخ میں تبدیلی آئے۔  نیشنل ہومن رائٹس کمیشن کا دائرۂ کار  سے جموں کشمیر کو محروم کرنے کے لیے ماضی میں  آرٹیکل ۳۷۰ کی مدد لی گئی تھی لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہوگا اور وادی کشمیر می انسانی حقوق کی پامالی پر قومی کونسل  نوٹس لے سکے گا۔   اس ترمیم کے دورس سیاسی  نتائج کا فیصلہ تو آنے والا وقت کرے گا لیکن سابق وزیرداخلہ چندمبرم نے اسے عظیم گناہ قرار دیا ہے۔