Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 5, 2019

پیام عید الاضحیٰ۔۔۔!!!


شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/صداٸے وقت/عاصم طاہر اعظمی۔
=========================
زندگی ایک امتحان ہے'اور دنیا امتحان گاہ ۔ اس کارگہِ عالم میں آنکھیں کھولنے والے ہر فرد بشر کی زندگی متنوع امتحانات کے راستوں سے گذرتی ہے اور ناکامیوں کی منزلوں میں داخل ہوکر فنا ہوجاتی ہے'،
لیکن اسی کرہ ارض پر ہر دور ہر زمانے میں کچھ ایسی نابغۂ روزگار ہستیاں رونما ہوتی رہی ہیں'جو ان راستوں پر شاہراہوں پر صبر واستقامت ،عزم واستقلال،اذعان ویقین کی غیر معمولی قوتوں کی بدولت کامرانیوں کے وہ نقوش ثبت کرگئیں، اور حوصلہ شکن حالات میں،ہوش ربا آزمائشوں کی راہوں میں ،وحدانیت کا وہ فانوس روشن کرگئیں جو قیامت تک کے لئے قافلہ ایمان ویقین کی راہوں میں خورشید جہاں تاب اور بدر کامل
بن روشنی بکھیرتا رہا۔
عید الاضحٰی کا مبارک دن اسی قافلہ عشق و وفا کی لازوال قربانیوں کی داستان پیش کرتاہے جس کا ورق ورق سالار کارواں کی عزیمت واستقامت اور  خوفناک آزمائشی لمحات میں عدیم المثال صبر و رضا کی شعاعوں سے معمور 
ہے'، 

ابتلاء و آزمائش کی سنگلاخ وادیوں میں عشق وارفتگی کی حیرت انگیز مثالوں سے معمور یہ تاریخ اس جلیل القدر پیغمبر اور اس عظیم المرتبت  رسول سے منسوب ہے' دنیا نے جس کی عظمتوں کے ترانے ابراہیم خلیل اللہ کے نام سے گائے ہیں'،خداوند عالم نے جسے اپنا ولی اور دوست کہ کر پکارا، بارش کے قطروں کی طرح آزمائشوں میں جس نے ،صبر ورضا،اطاعت وعبدیت،خودسپردگی، وسرافگندگی، اور قربانی وجاں سپاری کے بےمثال اوصاف کے ذریعے سرخروئی کے ان گنت عنوانات وقت کے صفحات پر رقم
کر کے انسانیت وعبدیت کی لافانی مثال قائم کردی۔
عراق کے اوز نامی بستی میں کفر وشرک کی تاریکیوں میں خدا کے اس پیغمبر نے سیکڑوں معبودوں کے درمیان ایک خدا کی پرستش کا اعلان کیا، توحید کا چراغ جلایا، انسانیت کی قندیل روشن کی،
اس وحدت کا اعلان ہونا تھا کہ مصائب کا طوفان امنڈ پڑا،ابتلاؤں کی وہ آندھیاں چلیں کہ اچھے اچھے سورماؤں کے قلوب ہل جائیں، معاشرہ بیگانہ ہو گیا،باپ کی شفیق آنکھوں میں بے رحمی کی چنگاریاں اتر آئیں،ایمان پر ثابت قدمی کی پاداش میں الم انگیز دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہوا،،
قال اراغب انت عن آلہتی یا ابراہیم لئن لم تنتۂ لارجمنک وھجرنی ملیا،،
اسی باپ نے جس کی نگاہیں بیٹے پر محبت کا سائبان تھیں جس کی باتیں شفقتوں کے پھول نچھاور کرتی تھیں اب انگارے برساتے ہوئے یہ دھمکیاں دے رہی تھیں کہ،،اے ابراہیم تونے ہمارے معبودوں سے بغاوت کی ہے'اگر تم نے اپنے طرزِ عمل میں تبدیلی پیدا نہیں کی تو یاد رکھنا میں تمہیں سنگ سار کردوں گا اگر تو خیریت چاہتا ہے تو میری نگاہوں سے دور ہوجا،،
      مظالم اور ستم رانیوں کی اس فضا میں بدستور راہ حق پر خدا کا یہ پیغمبر ثابت قدم رہا،قوم کی سفاکیت اس کے پائے استقلال میں جنبش پیدا نہ کرسکی،
      یہ دیکھ کر وقت کے فرمانروا نے شعلوں کا جہنم تیار کیا اور اس میں انہیں جھونک دیا گیا مگر ایمان تھا کہ اس کی روشنی میں مزید اضافہ ہو گیا،یقین تھا کہ وہ چٹان صفت ہوگیا،انہوں نے آگ کے شعلوں میں داخل ہونا گورا کرلیا، وطن کی ہجرت برداشت کرلی، اعزہ واقربا کی جدائی سہ لی،مگر اپنے مشن پر اپنے ایمان پر اور توحید کے سرمائے پر ذرا بھی آنچ نہ آنے دی،قوم سے، خاندان سے،اقرباسے،اصحاب اقتدار سے کھلے لفظوں میں اپنے مشن کا اعلان کر دیا،،
      انا برءاء منکم ومماتعبدون من دون اللہ کفرنا بکم وبدا بیننا وبینکم العداوۃ والبغضاءابدا حتی تؤمنوا باللہ وحدہ،،
سن لو،ہم تم سے بیزار ہیں'تمہارے معبودوں سے بھی ہمارا کوئی رشتہ نہیں ہے' تمہارے نظریات کو ہم تسلیم نہیں کرسکتے، ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی کی دیوار حائل ہے اور یہ دشمنی اس وقت تک رہے گی جب تک تم ایک خدا پر ایمان نہیں لاتے،،
گھر بار وطن کو خیرباد کہ کر ایک غیر آباد سرزمین پر قدم رکھا تو اس ویرانے میں بیوی اورشیر خوار بچےکو چھوڑ کر ہجرت کا حکم ہوا،سرتسلیم خم کرکے اس بیابان میں زندگی کے آخری سرمائے سے بھی آنکھیں بند کرلیں،ایک عرصے کے بعد حکم الٰہی پرجب واپس آئے تو لخت جگر اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا تھا اس حالت میں اپنی مرادوں کو سامنے دیکھ کر کیا کچھ خوشی کا ٹھکانہ رہا ہوگا اس کا اندازہ کیسے اور کیوں کر لگایا جاسکتا ہے'لیکن آزمائش کے سخت جان سلسلہ کا حیرت ناک اور جانکاہ مرحلہ ابھی باقی تھا، قدرت نسل انسانی کے لئے اس صبر آزما آزمائش اور اس میں روشن ہونے والی جذبۂ عشق کی قندیل کو قیامت تک کے لیے باقی رکھنا چاہتی تھی، یہی وجہ تھی کہ فخر دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر نازل ہونے والے کلام مقدس میں آزمائشی لمحات کے علاوہ
حضرت خلیل اللہ کے تسلیم ورضا کے روح پرور مناظر کی بھی تصویر کھینچ دی ہے'۔،،وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو ایک روز ابراہیم نے اس سے کہا،بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے اس نے کہا ابا جان،جو کچھ آپ کو حکم دیا جارہا ہے اسے کر ڈالئے آپ ان شاءاللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے،آخر کو جب ان دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور ابراہیم نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرادیا اور ہم نے ندا دی کہ اے ابراہیم تونے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں (الصفت آیت 104)
  حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس اکلوتے لخت جگر کی قربانی کا خواب دیکھا تھا جو برسہا برس کی تمناؤں اور آرزوؤں کا ثمرہ تھا جو بڑھاپے کی آہ سحر گاہی اور نالۂ نیم شبی کا نتیجہ تھا، ایک طرف زندگی کے آخری سرمائے کی الفت تھی دوسری طرف پروردگار عالم کی اطاعت کا تقاضا تھا،ایک جانب جگر کے ٹکڑے کی محبت تھی دوسری طرف خالقِ کائنات کا حکم سامنے موجود تھا، ایک طرف  آنکھوں کو نور، دل کو سکون وقرار کی سوغات عطا کرنے والے ایک معصوم وجواں سال بیٹے کی زندگی تھی،دوسری طرف رب الارباب کا عشق تھا جو اس دعوے محبت پر ثبوت کا مطالبہ کررہا تھا۔ لیکن آسمان کی نگاہوں نے حیرت و استعجاب کے عالم میں وہ نظارا دیکھا، کہ عشق الٰہی سے معمور اور ایمانی حرارت سے مخمور اس بوڑھے باپ نے جو اپنے اندر سچے عشق کی آگ کے علاوہ اپنے گھلے ہوئے جسم میں پہاڑوں سے بھی زیادہ مضبوط کلیجہ رکھتا تھا بغیر کسی پس وپیش کے،بغیر کسی تردد کے محبوب کی راہ میں معصوم بچے کی گردن پر چھری رکھ
   کر جاں سپاری ووفاشعاری کا وہ نادر کارنامہ انجام دیا کہ دنیا اس کے مثال سے پہلے بھی خالی تھی اور آج بھی خالی ہے، خدا کی راہ میں بیٹے کی زندگی نثار کرنے والی اس فرزانگی پر۔ جس کا نظارہ دیکھنے کی افلاک کے اندر تاب نہیں تھی،وقت کی گردش ایک لمحے کے لیے جہاں رک گئی تھی،قدرت کو کیونکر پیار نہیں آتا،پروردگار عالم کی رحمت کو کیسے جوش نہ آتا،
   سو اس کی رحمتوں نے اس وفاشعار بندے کے ہاتھ کو پکڑ لیا اور ہاتف غیبی نے آواز دی کہ تم اس سخت اور ہوش ربا آزمائش میں کھرے
    اترے، تمہارے عشق کا امتحان و مطلوب تھا سو وہ پورا ہوا اور تم اب سرخ رو ہوچکے ہو، اس لیے اب قیامت تک آنے والی نسلوں کے لیے اس سنہرے کردار کو،اس پیارے عمل کو، عبدیت واطاعت، سرافگندگی وجاں نثاری اور عشق و وفا کی علامت اور پیمانہ قرار دیا جائے گا۔۔۔۔اور پھر قدرت نے اس بے نظیر عمل کے نتیجے میں قربان ہونے والی جان کو وہ رفعت عطا کی کہ اب تک جتنی قربانیاں روئے زمین پر ہوئی ہیں اور قیامت تک جس قدر بھی جانیں اس راہ میں قربان ہوں گی اسی ایک جان کا فدیہ قرار پائیں گی۔
عید الاضحٰی کی تاریخ اسی لیے آتی ہے'کہ امت مسلمہ کے قلب میں تسلیم ورضا کی روح پھونک دے،یہ لمحہ اسی لیے بار بار آتا ہے'کہ اسوۂ ابراہیم کی پیروی میں بندہ خدا کے ادنی اشارے پر اپنی بڑی سے بڑی متاع کو قربان کرنے کا جذبہ پیدا کرسکے، اس یادگار کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہے'کہ انسان عبدیت واطاعت کا پیکر بن جائے، یہ رسم وفا اسی لیے جاودانی سے سرفراز کی گئی ہے کہ بندہ مخلوق کی غلامی سے آزاد ہو کر ایک خدا کی غلامی میں داخل ہوجائے۔
مگر یہ حقیقت کیسی تلخ اور المناک ہے'کہ اس سبق آموز لمحے کو پیروان اسلام نے دنیا کی دوسری قوموں کی طرح ایک تیوہار اور تفریح کا سامان سمجھ لیا ہے'،وہ ایک رسم کے تصور میں جانوروں کو قربان کرکے دلوں کے بوجھ کو ہلکا کرلیتے ہیں'،انہیں اس موقع پر قربانیوں کے مقاصد کا کبھی خیال بھی نہیں آتا، اس عمل میں جاں نثاری کے جذبات کا احساس تک نہیں ہوتا۔وہ جذبات جو دلوں کو عشق الٰہی کی حرارت سے آشنا کرتے ہیں'،وہ کیفیات جو وجود کو محبت الٰہی سے سرشار کرجاتی ہیں'،وہ تڑپ جو راہ خدا میں زندگی کی ہر متاع کو لٹادینے جذبہ پیدا کرتی ہے'۔ اسلام پر عمل کرنے کا داعیہ پیدا کرتی ہے'،
یہی وجہ ہے کہ یقین کے نور اور اسوۃ ابراہیم کی روح سے خالی رسم بندگی کا یہ عمل ہرسال انجام پاتا ہے مگر لوگوں کے قلوب میں انقلابی کیفیات کی شمع جلانے سے محروم رہتا ہے' ،بے سمت زندگیوں کا رخ تبدیل کرنے سے عاجز رہتا ہے'،اسوہ خلیل اللہ کے جذبات کی ہلکی سی پھوار بھی ان قلوب کی خشک وادیوں میں نہیں پڑتی،نتیجتا ملت کی ملت اور قوم کی قوم غیر اللہ کی طاقتوں کی غلامی کی زنجیروں سے گراں بار ہوگئی،زندگی کے ہر مرحلے میں غیروں کی دست نگر ہوگئی، اس کی فلک رساعظمتیں سرنگوں اور عصمتیں تار تار ہوکر رہ گئیں،زمین اپنی ساری وسعتوں کے باوجود اس پر تنگ ہوچکی ہے'آج پیروں کی ٹھوکریں کھانے کے لئے سنگریزوں کے انبار کم ملیں گے مگر قوم مسلم کے بریدہ سر ہر جگہ نظر آجائیں گے، روئے زمین کے اکثر خطوں میں جانوروں کی لاشیں خال خال ہوں گی مگر اہل اسلام کا خون آبادیوں سے لیکر دشت و صحرا کے ایک اک چپے پر بکھرا ہوا نظر آجائے گا،
یہ دلدوز اور روح فرسا مناظر اسی وجہ سے رونما ہوئے ہیں کہ رب العالمین کے محبوب پیغمبر خلیل اللہ کے اسوے سے نگاہیں پھیر لی گئی ہیں،اس کے پیغام عبدیت واطاعت کو یکسر فراموش کردیا گیا ہے قربانی کی روح تک رسائی کے سارے دروازے بند کرلئے گئے ہیں،
    ذلت و نکبت کی تاریک دشت و صحرا سے نکلنے کے لیے،
    پستیوں کی گھٹاؤں میں  عروج واقبال کا چراغ جلانے کے لئے، ترقی کی شاہراہوں کی دریافت کے لئے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے'کہ قوم مسلم اسوۂ ابراہیمی کو سچے جذبے سے اختیار کرے، رب العالمین کی راہ توحید میں عبدیت کا چراغ روشن کرے،زندگی کے سفر کی صحیح سمت متعین کرے، اپنے اندر محبت الٰہی کی شمع روشن کرے، زندگی کے ہر مرحلے میں اس حقیقی معبود سے وفاداری کا عہد کرے،جس کی وفاداری اور محبت کا ثبوت اس کے خلیل نے اپنے سرمایہ زندگی قربان کرکے پیش کیا تھا۔ معصیت اور خدا بیزاری کے ماحول میں صبر و استقامت کے ساتھ چٹانوں کی مانند راہ اسلام پر قائم رہے، قربانی کے مرحلے میں نذر ہونے والے جانوروں کی ظاہری شکل وصورت کے جائزے کے ساتھ ساتھ اپنے دل کی دنیا کا بھی جائزہ لے کہ اس میں جاں سپاری،جاں نثاری کے جذبات کی لہریں موجود ہیں'یا نہیں،فداکاری کے جذبہ بیکراں سے دل کی وادیاں شاداب ہیں یا نہیں، کہ یہی قربانی کی روح اور یہی حقیقت میں رسم بندگی ہے'، جو زندگی کی تمام متاع کو قربان کردینے کی اسپرٹ پیدا کرتی ہے'
آج جب اس سنہرے لمحے میں مہربان آقا کا دریائے کرم جوش پرہے اس کی رحمتوں کا سمندر تموج پذیر ہے،اس کے فضل کی بدلیاں ہرسو امنڈ رہی ہیں۔
ملائکہ کی مقدس جماعتوں کے جھنڈ در جھنڈ اپنے نورانی پروں کو پھیلائے ہوئے سطح ارض کی گلی کوچوں میں استقبال کے لئے بے تاب ہیں'،اوربندوں کے استغفار میں غرق ہیں'۔ہمیں بھی ان کی نوازشات کا احترام کرنا چاہیے،ان کی عنایتوں کا تقاضا ہے'کہ سر سے پاؤں تک سرافگندگی کا ثبوت فراہم کریں،اور قربانی کے مقدس عمل کے وقت خدا سے یہ عہد کریں کہ ہمارا طرز عمل،ہمارا طریقہ کار، ہماری حرکت وسکون،
ہماری زندگی اور زندگی کی تمام دوڑ دھوپ،ہماری دشمنی اور دوستی،ہماری وفاداری اور بے اعتنائی غرض ہماری زندگی کی ایک اک کرن اور موت اور ایک اک متاع سب اسی پروردگار عالم کی ذات کے لئے مخصوص ہوگی'جس کے نام پر ابراہیم علیہ السلام نے اپنی زندگی اور زندگی کی تمام متاع قربان کردی تھی کہ خدا کے یہاں انہیں اوصاف کی اہمیت اور انہیں جذبات کی قدر ومنزلت ہے'یہی عید الاضحٰی کی روح اور اس کا پیغام ہے'،اور یہی چیز شریعت کو مطلوب اور قربانی کا مقصود ہے،
وگرنہ ان کیفیات کے بغیر اور مذکورہ جذبات سے خالی قربانی کا عمل محض ایک رسم دنیا ہے جس سے خداوندعالم بے نیاز ہے  کہ اس کی بارگاہ میں نہ صورت کی رسائی ہے نہ اجسام کی،نہ وہاں گوشت پہنچتاہے نہ خون،سوائے جذبہ عمل،جذبہ اطاعت،اور روح بندگی ورسم جاںسپاری کے،
لن ینا اللہ لحومھا ولا د ماؤھا ولکن ینالہ التقوی منکم،،
سید الطائفہ علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول کہ عید الاضحٰی کی عہد ساز تاریخ میں منی کی وادیوں میں رونما ہونے والی قربانی، محض خون اور گوشت کی قربانی نہیں تھی بلکہ درحقیقت یہ روح اور دل کی قربانی تھی،یہ ماسوا اللہ اور غیر کی محبتوں کی قربانی تھی،یہ خدا کے سامنے اپنے تمام جذبات وخواہشات اور تمام آرزؤں اور تمناؤں کی قربانی تھی،اس قربان گاہ پر رب دوجہاں کے آگے اپنے ارادوں،اپنی مرضیات، اپنی پسند وناپسند کی کے سارے اختیارات کو فنا کردینے کا عمل تھا،
جانور کی ظاہری قربانی مزکورہ تمام اوصاف عبدیت اور عشق ومحبت کے اندرونی نقش پا ظاہری عکس اور اسی خورشید حقیقت کا ظل مجاز تھا۔
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار شواجی نگر