Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 10, 2019

مجدد تھانوی کے دیار میں۔۔۔۔۔۔۔قسط 6

*مجدد تھانویؒ کے دیار میں*
قسط ⑹
✏ فضیل احمد ناصری/صداٸے وقت۔
=========================
*حاجی صاحبؒ کا میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ سے تعلق کیسے ہوا؟*
حاجی امداداللہ صاحبؒ ابھی 18 سال کے ہی تھے کہ تصوف نے انہیں اپنی طرف کھینچا۔ مولانا نصیر الدین حنفی دہلوی اپنے وقت کے بڑے پائے کے عالم و مرشد تھے۔ یہ شاہ محمد آفاق کے خلیفہ تھے۔ شاہ اسحاق محدث دہلوی اور شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ سے انہیں شرفِ تلمذ حاصل تھا ۔ حاجی صاحب نے انہی مولانا نصیر الدین سے بیعت کر لیا۔ یہاں سے انہیں اجازت و خلافت بھی ملی۔ مولانا جلال الدین رومی کی مثنوی شریف کا اب تو لوگ نام بھی نہیں جانتے، ایک دور ایسا گزرا ہے کہ یہ علمِ ظاہر و باطن کے نصاب کا حصہ تھی۔ حاجی صاحب نے کمالِ تصوف کے لیے یہ کتاب مولانا شاہ عبدالرزاق سے پڑھی، انہوں نے مولانا شیخ ابوالحسن سے، انہوں نے اپنے والد مولانا مفتی الہی بخش کاندھلویؒ سے اور شیخ کاندھلویؒ نے خواب میں مصنفِ کتاب جلال الدین رومیؒ سے پڑھی۔ مصنف مرحوم نے خواب میں اپنے شاگرد کو حکم دیا کہ مثنوی کا چھٹا باب لکھیں، جسے شاگرد اسی مسجد میں مکمل کیا، جس میں آج خانقاہ امدادیہ اشرفیہ تھانہ بھون واقع ہے۔
مثنوی ایسی کتاب ہے کہ اسے پڑھ کر اہلِ دل کی تلاش کی خواہش جاگزیں ہوتی، پھر پروان چڑھتی ہے۔ حاجی صاحب نے یہ کتاب بطور وظیفہ پڑھی، مگر تصوف سے شدید لگاؤ نے آتشِ شوق کو اس درجہ بھڑکایا کہ تلاشِ مرشد میں پریشان رہنے لگے۔ شوق مخلصانہ ہو تو منزلیں خود ہی راستے دے دیتی ہیں۔ حاجی صاحب کے پردادا حافظ شیخ بلاقی تھے، خواب میں اپنے پرپوتے سے ملے، پھر کیا ہوا؟ حضرت تھانویؒ کی زبانی سنیے:
*ایک دن آپ نے خواب دیکھا کہ مجلسِ اعلیٰ و اقدس حضرت سرورِ عالم و مرشدِ اتم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ غایتِ رعب سے قدم آگے نہیں بڑھتا ہے، کہ ناگاہ میرے جدِ امجد حضرت حافظ بلاقیؓ تشریف لائے اور میرا ہاتھ پکڑ کر حضور نبویﷺ میں پہونچا دیا۔ اور آں حضرت ﷺ نے میرا ہاتھ لے کر حوالہ حضرت میاں جی صاحب چشتی قدس سرہ کے کر دیا۔ اور اس وقت بعالمِ ظاہر میاں جیؒ صاحب سے کسی طرح کا تعارف نہ تھا۔ بیان فرماتے ہیں کہ جب میں بیدار ہوا، عجیب انتشار و حیرت میں مبتلا ہوا کہ یارب! یہ کون بزرگوار ہیں کہ آں حضرت ﷺ نے میرا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا اور خود مجھ کو ان کے سپرد فرمایا۔۔

 اسی طرح کئی سال گزر گئے کہ ایک دن حضرت استاذی مولانا محمد قلندر محدث جلال آبادیؒ نے میرے اضطرار کو دیکھ کر بکمالِ شفقت و عنایت فرمایا کہ تم کیوں پریشان ہوتے ہو؟ موضع لوہاری یہاں سے قریب ہے۔ وہاں جاؤ اور حضرت میاں جی صاحب سے ملاقات کرو، شاید مقصودِ دلی کو پہونچو اور اس حیص و بیص سے نجات پاؤ۔
جناب ایشاں (حاجی صاحب) فرماتے ہیں کہ جس وقت حضرت مولانا سے میں نے یہ سنا، متفکر ہوا اور دل میں سوچنے لگا کہ کیا کروں؟ آخر بلا لحاظِ سواری وغیرہ میں نے فوراً راہ لوہاری کی لی اور شدتِ سفر سے حیران و پریشان چلا جاتا تھا، یہاں تک کہ پیروں میں آبلے پڑ گئے۔ بہ کشش و کوشش آستانۂ شریف پر حاضر ہوا اور جیسے ہی دور سے جمالِ با کمال جنابِ شاں ملاحظہ کیا، صورتِ انور کو، کہ خواب میں دیکھا تھا، بخوبی پہچانا، اور محوِ خود رفتگی ہو گیا۔ اور آپے سے گزر گیا۔ اور افتاں و خیزاں ان کے حضور میں پہونچ کر قدموں پر گر پڑا۔ حضرت میاں جی صاحب نے میرے سر کو اٹھایا اور اپنے سینۂ نور گنجینہ سے لگایا اور بکمالِ رحمت و عنایت فرمایا کہ تم کو اپنے خواب پر کامل وثوق و یقین ہے؟ یہ پہلی کرامت من جملہ کرامات حضرت میاں جی صاحب کی ظاہر ہوئی اور دل کو بکمالِ استحکام مائل بہ خود کیا* (امداد المشتاق، ص 13،14) ۔
*علمِ تسخیر چاہتے ہو یا علمِ کیمیا؟*
اس طرح حاجی صاحبؒ میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ کے دامن سے وابستہ ہو گئے اور سالہا سال ان سے استفاضہ کیا۔ پھر وہ مبارک وقت بھی آیا کہ چاروں سلاسل میں انہیں خلافت بھی عطا کی۔ دانا پیر اپنے مرید کو ہر وقت جانچتا رہتا ہے۔ خلافت دینے کے بعد میاں جی صاحب نے عجیب و غریب سوال کر دیا: علمِ تسخیر چاہتے ہو یا علمِ کیمیا؟ جو مانگوگے دے دوں گا۔ حاجی صاحب رونے لگے اور فرمایا: میں نے دنیا کے واسطے آپ کا دامن نہیں پکڑا۔ خدا کو چاہتا ہوں، وہی مجھ کو بس ہے۔ یہ جواب سن کر شیخ بہت خوش ہوئے اور گلے لگا کر بلند ہمتی کی دعا دی۔
*میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ کا تعارف*
میاں جی نور محمد جھنجھانویؒ کا نام آگیا ہے تو ان کے بارے میں بھی کچھ نہ کچھ جان لینا ہی چاہیے۔ یہ اپنے وقت کے مشہور بزرگ تھے۔ علمائے دیوبند کے سلسلۂ تصوف کی جڑ یہی جھنجھانوی صاحبؒ ہیں۔ یہ حضرت سید احمد شہیدؒ کے خلیفۂ اجل اور سادات میں سے تھے۔ 41 ویں پشت پر سیدنا حضرت علیؓ تک سلسلۂ نسب پہونچ جاتا ہے۔ وہ کوئی باقاعدہ عالم نہ تھے۔ صرف حافظ تھے، مگر فارسی زبان پر کامل عبور رکھتے تھے۔ عربی کتابیں بھی تھوڑی بہت پڑھی تھیں۔ حسن پور لوہاری میں تدریسی خدمات انجام دیں ۔ وطنی تعلق جِھنجھانہ ضلع مظفر نگر سے تھا۔ یہ قصبہ بھی جلال آباد اور تھانہ بھون کی طرح شاملی میں شامل ہو گیا ہے۔ 1786ء میں پیدا ہوئے۔ 1843ء سنِ وفات ہے۔ خلفا میں حاجی امداداللہ سمیت حافظ ضامن شہیدؒ اور شیخ محمد محدث تھانویؒ بہت مشہور ہیں۔ تھانہ بھون کا خانقاہی سلسلہ انہیں تینوں کے ذریعے جاری ہوا۔
[اگلی قسط میں پڑھیں: حاجی صاحبؒ کے مزید احوال]