Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Thursday, August 29, 2019

ماہ محرم۔۔اور امت مسلمہ کا طرز عمل !


از قلم: عبداللہ المھیمن آسام ./صداٸے وقت۔
متعلم: دارالعلوم وقف دیوبند
موبائل:09476713264
  ========================
  ماہ محرم الحرام برکات وفضائل میں بے مثال ہے اور اسلامی سال کا آغاز بھی محرم الحرام سے ہی ہوتا ہے، پہلے لوگ تاریخ کا حساب سن نبوت یا حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری حج سے کیا کرتے تھے، لیکن باقاعدہ تاریخ کا آغاز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ہوا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کی دور خلافت میں سن مقرر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے صحابہ کرام کی مشاورت سے سن ہجری مقرر فرمائی، اور صحابہ کرام لا اس بات پر اتفاق تھا کہ سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سئ کیا جائے تب سے اسلامی سال کا آغاز ماہ محرم الحرام سے ہونے لگا۔ 

       ماہ محرم الحرام کی بہت ساری فضیلتیں ہیں جیساکہ قرآن و احادیث میں مذکور ہے، اللہ تبارک و تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُورِ عِندَ اللّهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِي كِتَابِ اللّهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَات وَالأَرْضَ مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ فَلاَ تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْ۔(التوبہ۳۶)
ترجمہ:اللہ تعالی کے پاس مہینوں کی گنتی بارہ مہینے ہیں اسی دن سے جب سے آسمان و زمین کو اس نے پیدا کیا ان میں سے چار مہینے ادب واحترام کئ لائق ہیں، یہی درست دیں ہے لہذا ان مہینوں میں تم اپنی جانوروں پر ظلم نہ کروں۔
        اس آیت کی تفسیر حدیث پاک میں ملتا ہے کہ سال کے بارہ مہینے ہیں جن میں سے چار حرمت والے ہیں(۱)ذوالقعدہ (۲) ذو الحجہ(۳) محرم الحرام (۴) رجب المرجب۔
        ماہ محرم بھی حرمت والے چار مہینوں میں سے ایک ہے اس کی فضیلت و حرمت کا تو زمانہ جاہلیت میں بھی خیال رکھا جاتا تھا، اور جنگ،قتل، چوری وغیرہ سے بھی گریز کرتے تھے، اگر ان مہینوں میں جنگ کا موقع آجاتا تو اسکو بعد والے مہینہ میں کر دیتے تھے اور لوگ ان چار مہینوں میں آسانی سے سفر کرتے تھے ان کو کوئی ڈاکو کا خطرہ بھی نہیں ہوتا تھا اس طرح سے اس کی فضیلت ثابت ہوگئی۔
         حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أفضل الصّيام بعد رمضان شهرُ الله المحرم(ترمذی ۱۵۷/ ۱)
ترجمہ: ماہ رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ ماہ محرم کا ہے۔
         ایک دوسرے حدیث میں ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من صام يوما من المحرم فله بكل يوم ثلاثون يوما  (اترہیب والترتیب  ۱۱۴/ ۲)
ترجمہ: جو شخص محرم الحرام کی ایک دن روزہ رکھے اور اس کو ہر دن کے روزہ کے بدلہ تیس روزہ کا ثواب ملے گا۔
       ماہ محرم الحرام کے بارے میں مؤرخین حضرات نے لکھا ہے کہ  یوم عاشورہ کے دن(ماہ محرم الحرام کے دسویں دن) آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہما السلام کو پیدا کیاگیا، اسی دن حضرت آدم وعلیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی، اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا، اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی، اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ گلِ گلزار ہوئی،اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی،اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ملاقات ہوئی،اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم سے نجات ملی،اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی، اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی، اسی دن حضرت ایوب علیہ السلام کو سخت بیماری سے شفا نصیب ہوئی، اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نکالے گئے، اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی، اور اسی دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا، اسی دن قریش خانہٴ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے،اسی دن حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہ سے نکاح فرمایا، اسی دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو میدانِ کربلا میں شہید کیا گیااور اسی دن قیامت آئے گی۔ (نزہة المجالس ۱/۳۴۷، ۳۴۸، معارف القرآن پ ۱۱ آیت ۹۸۔ معارف الحدیث ۴/۱۶۸)
        انتہائی افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں بہت سارے بدعات،رسومات وخرافات پیدا ہوگئے ہیں،اس ماہ کی دسویں تاریخ کو اللہ تعالی نے ہم اتنی ساری فضائل عطا کیے ہیں جسکا تقاضہ تھا کہ ہم ان تمام انعامات پر اللہ تبارک و تعالی کا شکر بجالاتے، لیکن ہم اس کے بجائے بہت ساری رسومات و خرافات کو اس دن اپنے اوپر لازم کرلیا، مثال کے طور پر دسویں محرم کے دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر رنج و غم کا اظہار کرنا یہ بالکل غلط ہے کیونکہ حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تحد على ميت فوق ثلاث إلا على زوج فإنها تحد عليه أربعة أشهر وعشرا(بخاری۔۵۳۳۵)
ترجمہ: کسی مومنہ عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں سے زیادہ کسی میت پر سوگ منائے، مگر یہ کہ جس عورت کا شوہر انتقال ہوجائے چاہئے کہ وہ چار ماہ دس دن سوگ منائے۔
      اس حدیث سے پتا چلتا ہے کہ تین دن سے زیادہ کسی میت پر سوگ منانا جائز نہیں ہیں اور حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت تو آج ہی نہیں بلکہ اس واقعے کو چودہ سو برس گزر چکے ہیں،لیکن آج بھی ہمارے معاشرے میں حضور حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت پر سوگ مناتے ہیں ۔
         ایک دوسری بات یہاں یہ واضح کردوں کہ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو شہادت نصیب ہوئی اور شہید کبھی مرتا نہیں ہے، شہید زندہ ہوتا ہے جیساکہ قرآن مجید میں ہے:وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ (البقرہ آیت ۱۵۴)
ترجمہ: تم مت کہو اس شخص کو جو اللہ کے راستے میں قتل کردیا گیا مردہ بلکہ وہ زندہ ہے لیکن تم جانتے نہیں ہو۔
        اسی طرح دسویں محرم کے دن کھچڑی پکانا بھی غلط ہے کیونکہ دسویں محرم کے دن کھچڑی پکانا یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے بغض رکھنے والوں کا طریقہ کار ہے کیونکہ خوارج دسویں محرم کے دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کی خوشی میں کھچڑی(کھچڑا ایک خاص قسم کا کھانا جو گھی چاول وغیرہ ڈال کر بنایا جاتا ہے) پکاتے ہیں ۔
          ماہ محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھنا چاہئے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو محرم کی دسویں تاریخ کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ نے پوچھا تم روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس دن اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دی تھی، اس لیے موسی علیہ السلام نے اللہ کے شکریہ کے طور پر روزہ رکھا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت موسی علیہ السلام کی اتباع میں روزہ رکھا اور صحابہ کرام کو روزہ رکھنے کو حکم دیا ۔(بخاری و مسلم)
         یوم عاشورہ کے روزہ رکھنے طریقہ یہ ہے کہ دو روزہ رکھا جائے، ایک نویں محرم اور دوسرا دسویں محرم یا دسویں محرم اور گیارہویں محرم کی کیونکہ یہودی و نصاری ایک روزہ رکھتے تھے، اس لئے کہ حدیث پاک میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَھُوَ مِنْھُمْ۔
(أبو داؤد ، ح : ۴۰۳۱)
ترجمہ: جو شخص جس قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ انہی میں سے ہے۔
         اس حدیث کی بناء پر علمائے حضرات دو روزہ رکھنے کا حکم دیا تاکہ دوسری قوم کی مشابہت نہ ہو جائے۔
          اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ عطاء فرمائے، اور اپنے کرم سے سنت نبوی پر چلنے کا راستہ آسان فرمائے، اور ہر قسم کی غلط رسومات وبدعات سے تمام امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے۔
       آمین ثم آمین