Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 11, 2019

اماں جان!!!

      
*ماں کی محبت میں ڈوب کر اک دلجلے بیٹے کی خونِ جگر سے لکھی ہوٸی داستانِ داغِ مفارقت*
      *بقلم جمشيد جوھر* /صداٸے وقت
=======================
پڑوس کی قریبی عورتوں نے غسل دینے کے بعد اماں جان کو چارپاٸی پر ڈال کر آخری دیدار کے لۓ بیچ صحن میں رکھ دیا۔
خوشبو میں بسے ہوۓ سفید کپڑوں میں ملبوس آج اماجان تمام تفکرات سے بے فکر ہوکر گہری نیند سورہی تھیں
کیوں نہ سوتیں ،
زندگی کے طویل سفر سے انھیں جو آج ہی آرام ملاتھا
میں اماجان کے سرہانے جاکر ٹھیک چہرے کے روبہ رو سراپاۓ ادب ہوکر کسی پتھر کے مجسمے کی طرح کھڑا ہوگیا
آہ ہہہہہہہہ زندگی کی ساری نیرنگیاں اور رعناٸیاں کھونے کے باوجود بھی آج یہ بوڑھا چہرہ کس قدر گُلنار ہورہا تھا
چہرے کی جھریوں سے پانی کے قطرے  سچے موتیوں کی مانند چمک رہے تھے اور ہر قطرہ اپنے اندر گویا ایک اک سورج  سمویا ہوا تھا

اس پر معنی خیز تبسم کی لکیریں جنت اور مغفرت کا پتہ بتا رہی تھیں
میں مسلسل دیکهے جارہا تھا بس دیکھے ہی جارہاتھا
اس خیال سے کہ اب اس مقدس کتاب کی تلاوت کبھی نصیب نہیں ہوگی
دل کے تہ خانے میں اک طوفان  مچاہوا تھا جس کے شرارے رہ رہ کے آنکھوں کے راستے نکل رہے تھے
جی تو چاہ رہاتھا چیخ چیخ کے دہاڑیں مار کے روٶں
مگر عقل کہ رہی تھی جوش میں ہوش کھونا نہیں۔
دیکھتے دیکھتے اب میری آنکھیں پتھرانے لگیں، مجھ پر غنودگی کی کیفیت طاری ہونے لگی
اور میں ماضی کے عمیق سمندر میں ڈوبتا چلا گیا
بہو اے بہو اری سنتی ہو
کوٸیں کے پاس برتن  مانجھتی ہوٸی عورت سے اماجان مخاطب تھیں۔
جی اما کیۓ نا سن رہی ہوں
عورت بولی
ارے بہو کمال ہوگیا
جانتی ہو آج رات میرے منے نے تراویح کی نماز میں پانچ پارے پڑھ ڈالے
ارے ابھی تو اس نے دَور بھی نہیں کیاہے
پہلی بار محراب سنایا ہے
ہے نا خوشی کی بات؟
اماجان کی بانچھیں کھل رہی تھیں
اور جس دن دستار بندی ہوٸی اس دن تو پھولے نہیں سمارہی تھیں
خود اپنے ہاتھ سے سب کا منھ میٹھا کرارہی تھیں
متعدد بار ایسا ہوا کہ  آدھی رات کو سفر سے واپسی ہوٸی تو ڈانٹنے لگیں اتنی رات آتے ہو بڑی تشویش رہتی ہے ہم لوگوں کو۔ چونکہ ہمارا تعلق جنگلی علاقے سے ہے گھر تک آنے میں آج سے پندرہ سال قبل گاٶں کے نزدیک گذرنے والے دریا میں پُل بھی نہیں بنا تھا دریا کے نشیب و فراز کا اندازہ معلوم تھا اسلۓ بلا خوف وخطر اتر جاتا تھا چنانچہ اسی دریا میں مَیں نے تیرنا سیکھا تھا ۔
فرمانے لگیں ہر انسان کے دوست کے ساتھ دشمن بھی ہوا کرتے ہیں کیا پتہ کون کہاں کس تاک میں بیٹھا ہو۔
خبردار آٸندہ اتنی رات مت آنا ۔
کتنی شفقت تھی اس ڈانٹ میں ۔
اس زمانے میں ہمارے گاٶں میں بجلی بھی نہیں بھی آٸی تھی لوگ روشنی کے لۓ دۓ۔ ڈھبری۔ لالٹین۔ لیمپ کاسہارا لیتے تھے اور تقریبات میں پیٹرومیکس جلا لیتے تھے ۔
مجھے خوب یاد ہے میرے منجھلے بھاٸی کی شادی تھی ہمارے تاٶ جہاں پیٹرومیکس جلانے کی تیاری کر رہے تھے وہاں ہمارے ہم عصربچوں کی بھیڑ قابل دید تھی چونکہ  یہ تقریب میرے گھر پر تھی اسلۓ میں کچھ زیادہ ہی اُتاولا ہوکر اچھل کود کر رہاتھا کہ اسی اچھل کود میں میرے جوتے کے نیچے ایک خطرناک سیاہ رنگ کا بچُّھو آکر کُچل گیا، بس اک شور بلند ہوا،کہ میں نے ایک بچھو ماردیا ہے۔ بھلے ہی یہ ایک اتفاقی کام تھا مگر اما جان نے اس واقعہ کو میری بہادری پر محمول کیا اور کہنے لگیں میرا بیٹا بڑا بہادر ہے ۔
میں بچپن میں انتہائی لاغر تھا اس لۓ احساسِ کمتری کا شکار ہوگیا تھا
گم صم رہنے پر  میرے احساس کو اماجان نے تاڑ لیا
ایک دن فرمانے لگیں بیٹا تم دہی چھوڑ کر دودھ پیاکرو حالانکہ  مجھے دہی مرغوب تھا۔
البتہ دودھ کی بالائی مجھے بیحد پسند تھی بس اس کمزوری کی تکنیک  کو اماجان نے کام میں لایا ۔گھر میں دودھ کی کمی نہیں تھی ہمیشہ ایک عدد بھینس گھر میں بندھی رہتی تھی والد صاحب کھڑاٶں پہن کر دودھ نکالا کرتے تھے کبھی خود اماجان دودھ دوہ لیا کرتی تھیں ۔
تو میں عرض کررہاتھا اماجان کی نٸی تکنیک کے بارے میں
اماجان نے ایک پاٶ دودھ کے اوپر بالائی رکھ دی اور کہا بیٹا یہ کھاٶ چنانچہ اس دن سے کھانے بھی لگا اور پینے بھی ۔
ایک بار میں اپنے دوستوں میں بیٹھا ہوا تھا کہ اماجان  آواز لگانے لگیں منےاومنے آکے دوده پیلے
حالانکہ وہ سادگی میں پکار رہی تھیں۔ مگر دوستوں کو مذاق سوجھا وہ لوگ مجھے شرمندہ کرنے لگے ابے یار اتنا بڑا ہوکرابھی بھی دوده پیتا ہے۔
میں نے عرض کیا کہ میں بچپن میں بہت لاغرتھا میں گھر سے باہر دوستوں میں کھیل رہا تھا کہ کھیل کھیل میں باہم یہ مشورہ ہوا کہ چلو آج شری کانت  چچا کی دکان چلتے ہیں
اور ہم سب گھر والوں کو بلا اطلاع کۓ چلے گۓ
آج صبح سے ہی موسم کامزاج بگڑا ہواتھا
دفعتًا زور دار ہواٶں کے ساتھ بارش شروع ہوگٸی اور ہم لوگ وہیں پھنس کر رہ گۓ۔
اِدھر گھر میں قیامت کا عالم تھا میں دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے یہ اندیشہ گھر والوں کو ہونے لگا کہ پتا نہیں  آندھی   مجھے اڑاکر کہیں لے تو نہیں گٸی۔
اور مجھے یہ فکر ستارہی تھی کہ آج تو خیر نہیں ۔
خدا خدا کرکے
بار ش تھمی تو گھر آیا تواماجان کی جان میں جان آٸی
دیر تک گلے لگاۓ روتی رہی
ادھروالد صاحب  گلاس لۓ بغير ہی ایک بَدھنا{لوٹا} پانی ایک ہی سانس میں  پی گۓ۔
میری تلاش میں جو انتہائی درجے کی پیاس لگ گٸی تھی۔
بارش کے زمانے میں ایک بار دریا میں چھلانگ لگایا توہمّت کرکے دریا پارکرلیا اس طرح کا یہ پہلا معرکہ میں نے سرکیا تھااور یہ سوچا کہ جاکر اماجان سے اس شجاعت کا تذکرہ کروں گا
اور وہ مجھے شاباشی کا تمغہ پیش کریں گی۔
مگر ایسا کچھ نہیں ہوا
بلکہ الٹا عتاب کا شکار ہونا پڑا
جیسے ہی میں نے اس واقعے کو چھیڑا اماجان سٹپٹا کر رہ گٸیں
کہنے لگیں جوانی آگٸی، بہادری دکھانے لگے۔ آنے دےتیرےابو کوپھرتجھے بتاتی ہوں ۔
بس میں نے کان پکڑلیا کہ اب آٸندہ کوٸی بات انہیں،نہیں  بتاٶنگا۔
جنازہ اٹھاٶ جنازہ اٹھاٶ
دیر ہورہی ہے ایک بزرگ کی آواز آٸی اور اس کے ساتھ ہی تصورات کا لامتناہی سلسلہ ٹوٹ گیا
وہ ذات کہ جس کی کوکھ میں ایک زمانے تک  پلتارہا، خونِ جگر پیتا رہا
آج اُسے خاک کے حوالے کر نے پر مقدر نے مجبور کردیا تھا ۔
آہ۔۔۔۔وقت کی یہ کیسی ستم ظریفی تھی کہ جس کے کاندھو ں پر کل تک میں  سواری کرتا  تھا آج وہی میرے کاندھے سوار ہے

لو آگٸی اماجان کی آخری منزل۔ قبرستان کے گرد انسانوں کا اک ہجوم  تھا۔ جو اماجان کی دعاۓ مغفرت کے لۓ حاضر تھا۔
اذان تو بہت پہلے ہوچکی تھی
اماجان! اب لوگ تیری نماز پڑھنے کے لۓ حاضر ہیں
آہ ہہہہہ  کس بے دردی سی لوگ مٹی ڈال رہے تھے اور میں
کانپتے ہاتھوں سے  قبر کی مٹی کو برابر کرتا جا رہاتھا
    کچھ ہی دیر میں اماجان منوں مٹی کے نیچے تھیں
لیکن ابھی بھی لگتا ہے اماجان کے  یہ جملے میری سماعت سے ٹکراکر بازگشت کرتے رہتے ہیں
جوانی آگٸیی ہے تجھے ، بہادری دکھانے لگے
گھر آنے دے تیرے ابو کو پھر بتاتی ہوں ۔
تیرے ابو کو پھر بتاتی ہوں
تیرے ابو کو۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور بے ساختہ پا گلوں کی طرح
میں رونے لگتا ہوں
یہ سزنش بھرا جملہ  بھلے ہی تصور میں آتا ہے مگر مجھے تھوڑی  دیر ہی کے لۓ  سہی یہ  سوچنے پر مجبور کردیتا ہے
کہ اماجان یہیں کہیں ہیں۔
اور انھیں نہ پاکر واقعی میں خلاٶں میں گھورنے لگتا ہوں
ساتھ ہی آنکھوں میں یادوں کے ڈھیر سارے جُگنو جھلملانے لگتے ہیں
اور اشکبار ہوکر میں گنگنانے لگتا ہوں۔
دل کے داغوں کو تری یاد سے دھولیتا ہوں
اپنے دامن کو یوں اشکوں سے بھگولیتا ہوں
گھرسے باہر میں نکلتاہوں مری ماں! جب بھی
تری تُربت سے گذرتاہوں تو رو لیتاہوں