Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, August 11, 2019

عید الاضحیٰ ،تاریخ اور پیغام۔ !!!


عبد الرازق اعظمی /صداٸے وقت۔
=========================
دنیا کے تمام مذاہب میں کچھ ایام خصوصیت کے حامل ہوا کرتے ہیں جس میں اس مذہب کے پیروکار اس کی روداد کے لحاظ سے خوشی یا غمی کا اظہار کرتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے مذہب نے بھی ہمیں دو دن بطور عید(عید الفطر،عید الاضحی) عطا کئے ہیں جسے ہم اپنا اسلامی و مذہبی تیوہار تسلیم کرکے مسرت و شادمانی کے ساتھ مناتے ہیں۔
عید ایک چھوٹا سا تین حرفی لفظ ہے جو لفظ"عود"سے نکلا ہے، جس کے معنی لوٹ آنے اور بار بار آنے کے ہیں چونکہ عید کا دن ہر سال لوٹ آتا ہے اسی لئے اس کا نام عید پڑ گیا عید کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تاریخ ، تاریخ کا کوئی دور ایسا نہیں جو عید کے تصور سے آشنا نہ ہو قدیم تاریخی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمدن دنیا کے آغاز کے ساتھ ہی عید کا بھی آغاز ہو گیا تھا عیدالفطر کے مثل عید الاضحی بھی اس امت کے لیے ایک عظیم الشان تیوہار ہے، اسلام کا شعار اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی عظیم  یادگار ہے عیدالاضحیٰ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کا دن ہے اس دن میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب عمل قربانی کرنے کا ہے قربانی کے تین دن ہیں دسویں گیارہویں اور بارہویں ذی الحجہ ان دنوں میں قربانی کرنے  (خون بہانے) سے زیادہ محبوب یا بڑا ہوا اللہ تعالی کے نزدیک کوئی عمل نہیں چنانچہ اللہ کے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ما عمل ابن آدم من عمل يوم النحر أحب إلى الله من اهراق الدم( عیدالاضحیٰ کے دن ابن آدم کا کوئی عمل اللہ کے حضور قربانی کرکے خون بہانے سے بہتر نہیں)اللہ کے نام پر خون بہانا یہ ان دنوں کا محبوب عمل ہے۔ آگے حدیث میں فرمایا:وإنه ليأتي يوم القيامة بقرونها و اشعارها و اظلافها( اور یہ قربانی کا جانور جسے تم قربانی کر کے بھول جاتے ہو بعد میں تمہیں یاد بھی نہیں آتا، اللہ تعالی قیامت کے دن اسی جانور کو اس کے سینگوں،بالوں اور کھروں کے ساتھ زندہ کھڑا کریں گے کہ میرے بندے یہ تیری قربانی ہے لہذا قربانی کو بڑے ہی اہتمام سے دل کی خوشی کے ساتھ کرنا چاہیے اس لیے کہ باوجود وسعت و استطاعت کے اگر کوئی قربانی نہیں کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے حدیث میں ہے:من كان له سعة ولم يضح فلا يقربن مصلانا ( جس شخص کے پاس وسعت و طاقت ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے)
*قربانی کی عظیم الشان تاریخ*
اوپر ذکر ہو چکا ہے کہ قربانی ہر امت میں ہوتی چلی آرہی ہے لیکن کسی کی قربانی کو وہ عظمت،اہمیت و وسعت وہمہ گیری حاصل نہیں ہوئی جو سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی عظیم الشان قربانی کو حاصل ہوئی سیدنا ابراہیم علیہ السلام سے اللہ تعالی نے  کئی امتحانات لئے، انھیں کٹھن اور مشکل گھاٹیوں کو پار کرنا پڑا کیونکہ "وہ جن کے رتبے ہیں سوا ان کی مشکل ہے سوا"۔۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بوڑھاپے میں اللہ سے دعا کی رب هب لي من الصالحين( اے میرے رب مجھے ایک صالح بیٹا عطا کردے)اللہ تعالی نے دعا قبول فرمائی، فبشرناه بغلام حليم( ہم نے ابراہیم کو ایک حلیم بیٹے کی بشارت دی)مانگ رہے ہیں "صالح بیٹا" اور دیاجارہاہے "حلیم بیٹا"۔۔
یہ اشارہ ہے اس طرف کی ابراہیم تم پر اور تمہارے اس بیٹے پر ہماری طرف سے وہ امتحانات اور آزمائشیں آئیں گی جس میں پورا اترنے کے لیے صالح کے ساتھ ساتھ صفت حلم کی بھی ضرورت ہے حلم ، قوت برداشت اور صبر و تحمل کی ضرورت ہے ہم ایسا بیٹا دے رہے ہیں جو صالح ہونے کے ساتھ ساتھ صفت حلم سے بھی متصف ہے
چنانچہ کئی امتحانات اور آزمائشوں کو پار کیا کہ اللہ کی طرف سے ایک اور امتحان آگیا جو سابقہ تمام پر بھاری تھا یہ امتحان اس وقت آیا جب فلما بلغ معه السعي بیٹا جب چلنے پھرنے کے لائق اور اس قابل ہو ا کہ آپ کے لئے سہارا بن سکے اور  آپ کے کاموں میں ہاتھ بٹا سکے تو اللہ تعالی نے بذریعہ خواب تھا یہ امتحان اس وقت آیا جب وہ چلنے پھرنے کے لائق اور اس قابل ہوا کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کا سہارا بن سکے اس کے کاموں میں ہاتھ بٹا سکے اللہ تعالی نے بذریعہ خواب حکم دیا کہ ابراہیم اپنے اس لاڈلے بیٹے کو اپنے ہوتھ سے ذبح کرو ہم تمھیں آزمانا چاہتے ہیں۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ اس وقت حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر مبارک 13 سال تھی۔۔۔
حضرت ابراہیم کے پاس خواب کے ذریعہ یہ حکم آ پہنچا کہ آپ اپنے بیٹے کو ذبح کریں تو بسر و چشم قبول کر لیا، کسی حیلہ حوالہ اور کسی تاویل کا خیال نہیں آیا اور نہ پلٹ کر اللہ تعالیٰ سے اس کی حکمت ومصلحت پوچھی کہ یا اللہ!  باپ بیٹے کو ذبح کرے یہ دنیا کے کسی قانون میں نہیں اترتا۔۔۔۔۔۔۔کوئی نظام زندگی اس کی اجازت نہیں دیتا کوئی ہوش مند اور سمجھدار اس کو اچھا نہیں سمجھتا۔۔۔۔۔۔۔ کسی مذہب میں یہ روا نہیں۔نہ عقل و خرد کے معیار پر اترتا ہے۔۔۔۔۔۔ آخر اس میں حکمت و مصلحت کیا ہے؟
نا!!! بلا چوں چرا اس کو قبول کر لیا اور سر تسلیم خم کر دیا کہ اللہ کا امر ہے اسے ہر حال پورا کرنا ہے سمجھ میں آئے تو سمجھ میں نہ آئے تو لیکن چونکہ اللہ کے اس امر کا تعلق دوطرفہ تھا اس کا تعلق جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تھا وہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام سے بھی تھا تو بیٹے سے اس کا تذکرہ کیا تاکہ بیٹے کے اندر کے جذبات بھی معلوم ہوجائیں چنانچہ بیٹے سے کہا:يبني إني أرى في المنام أني اذبحك فانظر ماذا تری،کہ بیٹے میں خواب دیکھ رہا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں بتا تو اس معاملے میں کیا کہتا ہے۔
بیٹا بھی خلیل اللہی خاندان کا تھا اس نے جواب دیا:يا ابت افعل ما تومر ستجدني ان شاءالله من الصابرين، ابا جان! اس امر الہی کو کرگزرئے اورجہاں تک میرا تعلق ہے آپ فکر نہ کریں آپ مجھے انشاءاللہ  صبر و ضبط کرنے والا پائیں گے گلہ و شکوہ کرنے والا اور اعراض کرنے والا نہیں پائیں گے۔
کیا عجیب جواب ہے بیٹے کا بیٹے نے بھی کسی تاویل کا سہارا نہیں لیا اور نہ اس حکم کو عقل کے معیار پر رکھنے کی کوشش کی نہ باپ سے اس حکم کی حکمت ومصلحت پوچھی بلکہ مکمل جاں سپاری اور اطاعت شعاری کا ثبوت دیا۔
اللہ اکبر!
بیٹے کی سلیقہ مندی اور اس کی اطاعت شعاری،شاعر سوالیہ انداز میں پوچھتا ہے۔
یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی
سکھایا کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے کو لے کر منی کے منحر تک پہنچ گئے قرآن کہتا ہے:فلما اسلما وتله للجبین، جب یہ دونوں جھک گئے یعنی باپ نے ذبح کرنے اور بیٹے نے ذبح ہونے کا پختہ ارادہ کر لیا اور جب اسماعیل کو پیشانی کے بل زمین پر لٹا دیا لٹانے سے پہلے حضرت اسماعیل نے اپنے والد سے کہا: ابا جان!  مجھے خوب اچھی طرح باندھ دیجئے تاکہ میں زیادہ تڑپ نہ سکوں اور اپنے کپڑے بھی خوب سمیٹ لیجئے تاکہ خون کے چھینٹے نہ پڑیں اپنی چھری تیز کر لیجئے اور جب میری والدہ کے پاس جائیں تو انہیں میرا سلام کہہ دینا۔
یہ جانگداز الفاظ بوڑھاپے میں اکلوتے بیٹے کی زبان سے سن کر ایک باپ کے دل پر کیا گزر سکتی ہے؟
لیکن حضرت ابراہیم استقامت کا پہاڑ بن کر جواب دیتے ہیں کہ بیٹا تم اللہ کا حکم پورا کرنے میں میرے کتنے اچھے مددگار ہو یہ کہہ کر اپنے معصوم بچے کو بوسہ لیا، پرنم آنکھوں سے بیٹے کو باندھ دیا۔۔۔۔۔
باندھ کر زمین پر لٹا دیا اور گلے پر چھری چلانا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ ملائکہ ششدر و حیران ہیں چشم فلک نے  اس جیسا منظر کبھی نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔چھری اٹک رہی ہے چل ہی نہیں رہی ہے وہ بھی کسی کے حکم کی محتاج ہے۔
پھر کیا ہوا ابراہیم کےاس  والہانہ عمل کو دیکھ کر آسمان سے ندا آئی"جو چیز ہم تم سے دیکھنا چاہتے تھے وہ دیکھ لی تم نے خواب سچ کر دکھایا اب انہیں چھوڑ دو ہم انہیں ذبح کروانا نہیں چاہتے تھے ہم تو بس تمہارے جذبات اور دل کی کیفیت دیکھنا چاہتے تھے واقعی تم ایک بڑے امتحان سے گزرے ہوں کٹھن آزمائشوں سے دوچار ہوئے ہو تمہارا امتحان بڑا مشکل تھا ہم مخلصین کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں"۔
سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا یہ پورا واقعہ جو درحقیقت قربانی کے عمل کی بنیاد ہے روز اول سے امت کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ تمہارے دلوں میں یہ احساس یہ علم یہ  معرفت اور یہ فکر پیدا ہوجائے کہ اللہ تعالی کا حکم ہر چیز پر مقدم ہے۔تمہاری تمام تر کامیابیوں کے راز اسی میں پنہاں ہیں کہ تم اللہ کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کردو چاہے تمہاری عقل قبول نہ کر رہی ہو تمہارے سماج کے خلاف معلوم ہو رہا ہو تمہاری طبیعت اس کو پورا کرنے میں بوجھ محسوس کر رہی ہو۔
قربانی کا سارا فلسفہ یہی ہے اس لئے قربانی کے معنی ہیں"اللہ کا تقرب حاصل کرنے کی چیز" یہ لفظ" قربانی" قربان سے نکلا ہے اور لفظ "قربان" قرب سے بنا ہے یہ قربانی جہاں فی نفسہ ایک عظیم عبادت اور شعاراسلام ہے وہیں یہ قربانی امت مسلمہ کو عظیم الشان سبق بھی دیتی ہے کہ یہ امت اپنے آپ کو کامل مسلمان بنائے سراسر اتباع اور اطاعت کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرے اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کی صحیح اور حقیقی روح "جذبہ اتباع" کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھ لے۔