Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Wednesday, August 28, 2019

محرم الحرام۔۔۔۔۔۔۔حقیقت فسانہ بن گٸی۔


 /از/ ظفر امام /صداٸے وقت۔عاصم طاہر اعظمی۔
                                            
--------------------------------------------------
             ماہِ محرم کی آمد آمد ہے ، ذو الحجہ کا مبارک و مسعود مہینہ رختِ سفر باندھے اپنے الوداعی " خدا حافظ " کہنے کو ١۴۴۰ھ کی دہلیز پر کھڑا ہے ، جونہی ذو الحجہ کا چاند شفقِ غیاب میں ہمیشہ کے لئے روپوش ہوگا تونہی اسلامی ہجری تاریخ جست لگا کر اپنے عروج و ارتقاء کی منزل میں ایک اور کمند ڈال دے گی ؛ 

      سال کے بارہ مہینوں میں سے جن چار مہینوں کے سروں پر خالقِ ارض و سماء و کون و مکاں نے حرمت و تقدس اور ادب و احترام کا تاج رکھا ہے ان میں سے ایک محرم کا مہینہ بھی ہے ، ان چار مہینوں کی تخصیص کے بغیر اللہ تبارک و تعالی نے اپنے قرآنِ مقدس کے اندر ارشاد فرمایا " إِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ عِنْدَ اللّٰهِ اثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِيْ كِتَابِ اللّٰهِ يَوْمَ خَلَقَ السَّمٰواتِ وَ الْأَرْضَ ، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ " { پ ١۰ _ سورۂ توبہ } ( بے شک اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کا حساب بارہ ہے اسی دن سے جس دن اللہ تعالی نے آسمان و زمین کو وجود بخشا تھا ، ان میں سے چار محترم و معظم ہیں ، یعنی ان میں قتل و قتال اور جنگ و جدل ممنوع ہے)
           اس آیتِ کریمہ میں ان چار مہینوں کو لاعلی التعیین مطلق رکھا گیا ہے ، البتہ تاجدارِ بطحا محمدِ عربی ﷺ نے اپنے مبارک قول کے ذریعے ان کی تعیین کردی ہے کہ ان چار مہینوں کے مصداق کون کون سے مہینے ہیں ، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جنابِ نبئ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا " أَلسَّنَةُ إِثْناَ عَشَرَ شَهْرًا ، مِنْهَا أَرْبَعَةٌ حُرُمٌ ، ثَلَاثٌ ‌‌‌مُتَوَالِیَاتٌ ، ذُوْالْقَعْدَةِ وَ ذُوْالحِجَّةِ وَ الْمُحَرَّمُ ، وَ رَجَبُ مُضَرَ الَّذِیْ بَيْنَ جَمّادِي وَ شَعْبَانَ "{ بخاری _ کتاب التفسیر ، مسلم _ کتاب القسامۃ } ( سال بارہ مہینے کے ہوتے ہیں ، ان میں سے چار محترم و معظم ہیں ، تین تو لگاتار ہیں ، یعنی ذی قعدہ ، ذی الحجہ ، محرم اور مضر قبیلہ کا وہ رجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے بیچ میں ہے )
           یہی نہیں بلکہ نزولِ قرآن سے پہلے بھی دورِ جاہلیت میں اہلِ عرب محرم کے مہینے کو محترم و مکرم سمجھتے تھے ، محرم کا مہینہ آتے ہی عرب کے جنگجو قبائل کی تلواریں نیام میں چلی جاتی تھیں ، لوگ اپنے باپ اور بھائی کے قاتل کو بھی اس مہینے میں قابلِ معافی سمجھتے تھے اور ان سے کسی طرح کا کوئی تعرض نہ کرتے تھے ؛
         اس آیتِ کریمہ ، حدیثِ رسول اور دستورِ اہلِ عرب کی روشنی میں یہ بات آفتابِ نیم روز و مہتابِ شب تاب کی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ محرم کے مہینے کی حرمت و تقدس اسی دن سے ہے جس دن سے اللہ تعالی نے آسمان و زمین کی تخلیق فرمائی ہے ، اس لئے وہ لوگ غلط فہمی کے شکار ہیں جو نری جہالت ، تعصبیت اور عدمِ آگہی کی بنا پر اس کی حرمت کی کڑیوں کو " سانحۂ حسین " کے ساتھ جوڑنے کی سعئ مذموم اور جرأتِ بےجا کرتے ہیں ، کہ محرم کے مہینے کی حرمت اس لئے ہے کہ اس میں نواسۂ رسولﷺ کی شہادت کا دلدوز و جگر سوز واقعہ پیش آیا تھا ؛
                         ماہِ محرم کی فضیلت کے لئے یہی بات کافی ہے کہ اسے باری تعالی نے حرمت و تقدس کا خلعتِ فاخرہ عطا کیا ہے ، علاوہ ازیں اس کی فضیلت میں نبئ رحمتﷺ نے متعدد احادیث بھی ارشاد فرمایا ہے جس سے اس کی فضیلت میں مزید تاکید اور حسن پیدا ہوجاتا ہے ،
             چنانچہ ایک حدیث میں اللہ کے نبیﷺ نے اس کی فضیلت پر روشنی ڈالتے ہوئے ارشاد فرمایا جس کے راوی سیدنا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں " أَفْضَلُ الصِّيَامِ بَعْدَ رَمَضَانَ شَهْرُ اللّٰهِ الْمُحَرَّمُ " { مسلم شریف ، کتاب الصیام } ( رمضان کے روزوں کے بعد سب سے افضل روزہ اللہ کے مہینہ " محرم " کا ہے )
                   ایک دوسری روایت میں فاتحِ خیبر حضرت علی کرم اللہ و جہہ سے مروی ہے کہ ایک شخص جنابِ نبئ کریم ﷺ کی بارگاہِ عالیہ میں حاضر ہو کر آپ سے استفسار کیا ، " یا رسول اللہ! اگر میں رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے کا روزہ رکھنا چاہوں تو آپ میرے لئے کون سا مہینہ تجویز فرمائینگے"؟ تو اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ " اگر تو رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں روزہ رکھنے کا خواہش مند ہے تو محرم کے روزے رکھا کرنا ، کیونکہ یہ اللہ تعالی کا مہینہ ہے ، اس میں ایک دن ایسا ہے کہ جس میں اللہ تعالی نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی تھی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ قبول فرمائینگے ؛ [ ترمذی ، کتاب الصیام ]
          یہ تو ماہِ محرم کے عمومی دنوں میں روزہ رکھنے کی فضیلت کا ذکر تھا ، لیکن اللہ کے نبیﷺ نے اس مہینے کے ایک خاص دن ( یومِ عاشوراء ) میں روزہ رکھنے کا بطورِ خاص حکم فرمایا ، اور آپ خود بھی زندگی کی آخری رمق تک اس پر کار بند رہے ، چنانچہ حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی ایک روایت ہے جس کو محدثِ کبیر امامِ جلیل ، امام مسلم علیہ الرحمہ نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف " مسلم شریف " میں نقل فرمائی ہے ، عَنْ أَبِی قَتَادَۃَ أَنَّه قَالَ قَالَ النَّبِيُّ ﷺ " صِيَامُ عَاشُوْرَاءَ إِنِّيْ أَحْتَسِبُ عَلَي اللّٰهِ أَنْ يُكَفِّرَ السَّنَةَ اللَّتِيْ قَبْلَه " ( عاشوراء کے روزے سے متعلق میرا گمان اللہ تعالی کے بارے میں یہ ہیکہ وہ ان کے بدلے میں پچھلے ایک سال کے گناہ معاف فرمادینگے )
             اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ اور مشہور صحابی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کی ایک متفقہ روایت ہے جس میں انہوں نے فرمایا کہ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشوراء کا روزہ فرض تھا ، پھر جب رمضان کے روزے نازل ہوئے تو آپ ﷺ نے یہ کہہ کر " إِنَّ عَاشُوْرَاءَ يَومٌ مِنْ أَيَّامِ اللّٰهِ ، فَمَنْ شَاءَ صَامَه وَ مَنْ شَاءَ تَرَكَه " ( بےشک عاشوراء اللہ کے دنوں میں سے ایک دن ہے ، پس جو شخص اس کا روزہ رکھنا چاہے وہ رکھے اور جو نہ چاہے وہ نہ رکھے ) اس کی ( عاشوراء کے روزوں کی ) تنسیخ فرمادی ؛
       ان کے علاوہ اور بھی متعدد روایات متعدد طرق سے مختلف صحابۂ کرام سے عاشوراء کے روزے کی فضیلت کے باب میں وارد ہوئی ہیں ، جن کا احاطہ کرنا یہاں دشوار ہے ، البتہ عاشوراء کے دن کی تعیین سے متعلق کہ آیا وہ دسویں محرم کا دن ہے یا نویں محرم کا ، اہلِ علم و ہنر اور فکر و نظر کا اولِ دن سے ہی اختلاف رہا ہے ، جس کی تفصیل مطولات میں موجود ہے ، برسبیلِ تذکرہ یہاں اتنا بتادینا مناسب سمجھتا ہوں کہ اس اختلاف کی بنیاد ، جو حدیث ہے اور جس کی وجہ سے اہلِ علم کا مناقشہ اس باب میں در آیا ہے وہ وہ حدیث ہے جس کے راوی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں ، جس کو امام مسلم نے مسلم شریف میں " کتاب الصیام " کے تحت نقل کیا ہے ، جس میں مروی ہے کہ جب اللہ کے نبی ﷺ نے دسویں محرم کا روزہ رکھا اور صحابۂ کرام کو بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم فرمایا تو لوگوں نے عرض کیا ، " اے اللہ کے رسول! اس دن کو یہود و نصاری بڑی تعظیم و اہمیت دیتے ہیں " ( ان کے پوچھنے کا مقصد یہ تھا کہ حضور والا تبار تو یہود و نصاری کی مخالفت کا حکم فرماتے ہیں ، جبکہ دسویں محرم کو روزہ رکھنا ان کی عین موافقت کرنا ہے ) تو اس کے جواب میں شارع علیہ السلام نے ارشاد فرمایا " فَإِذَا كَانَ العَامُ المُقْبِلُ ، إِنْ شَاءَ اللّٰهُ صُمْنَا الْيَوْمَ التَّاسِعَ " ( کہ ان شاء اللہ آئندہ سال سے ہم لوگ نویں محرم کو روزہ رکھینگے ) اور ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں " لَئِنْ بَقِيْتُ إِليٰ قَابِلٍ لَأَصُوْمَنَّ التَّاسِعَ " ( اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ رکھونگا ) لیکن اتفاق سے آپ علیہ السلام آئندہ سال آنے سے پہلے ہی دنیا کو الوداع کہہ گئے ؛
                    آپ علیہ السلام کے وصال کے بعد مذکورہ بالا حدیث میں مندرج " یوم التاسع " ( نویں دن ) کے لفظ نے علماءِ امت ، فقہاءِ ملت اور نکتہ دایانِ شریعت کے مابین کئی نظریاتی اختلاف کو جنم دے دیا ، اور ہر ایک نے اپنے نکتۂ اختلاف کا مدار اسی لفظ " یوم التاسع " کو قرار دیا ، چنانچہ بعض حضرات اس بات کی طرف گئے ہیں کہ آپ علیہ السلام کا یہ قول کہ " اب آئندہ سال زندہ رہنے پر نویں محرم کو روزہ رکھونگا " یہ ناسخ ہے دسویں محرم کے لئے ، گویا کہ آپ نے اپنے اس قول کے ذریعے پہلے والے حکم کو منسوخ کردیا ، لہذا اب صرف نویں محرم کو روزہ رکھا جائے کیونکہ فرمانِ نبی کے بموجب یہی " یومِ عاشوراء " ٹھرا ، جب کہ بعض حضرات نے فرمایا کہ نہیں بلکہ اصل یومِ عاشوراء تو وہی دسویں دن ہے ، آپ کے اس فرمان کی وجہ سے دسویں دن کے یومِ عاشوراء کا حکم مرتفع نہیں ہوگا ، بلکہ آپ کے پیشِ نظر صرف یہود و نصاری کی مخالفت کرنا تھی ، اس لئے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ نویں کو بھی روزہ رکھ لیا جائے تاکہ دونوں پر ( یومِ عاشوراء کے روزے اور مخالفتِ یہود ) عمل ہوجائے ، اور اس کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو سننِ کبری للبیہقی نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کی سند سے نقل کیا ہے جس میں انہوں نے آپ ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی نقل فرمایا ہے " صُوْمُوْا التَّاسِعَ وَ الْعَاشِرَ و خَالِفُوا الْیَہُوْدَ " ( نویں اور دسویں محرم کو روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو ) { سنن کبری للبیہقی _ ص/ ۲۷۸ ج/ ۴ )
      ان کے علاوہ بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ پے بہ پے تینوں دن یعنی نویں ، دسویں اور گیارہویں تاریخوں کو روزے رکھ لئے جائیں کہ اس صورت میں یہود کی مخالفت بھی ہوجاتی ہے اور بالاتفاق یومِ عاشوراء پر عمل بھی ہوجاتا ہے ، ان کا مستدل وہ روایت ہے جو ابنِ عباس سے مروی ہے ، جس میں انہوں نے نبی علیہ السلام کا قول ان الفاظ کے ساتھ نقل کیا ہے " صُوْمُوْا عَاشُوْرَاءَ وَ خَالِفُوْا فِیْه الیَہُودَ ، صُوْمُوْا قَبْلَه يَوْمًا وَ بَعْدَه يَوْمًا " { مسندِ احمد ج / ١ ص / ۲۴١ ، سننِ کبری للبیہقی ج_ ١ ص_ ۲۸۷ } ( تم عاشوراء کا روزہ رکھو ، اور اس میں یہود کی مخالفت کرو ، روزہ رکھو اس کے ایک دن پہلے اور اس کے ایک دن بعد ) اس کے علاوہ اور بھی کئی کتابوں میں یہ حدیث مندرج ہے ، لیکن اس کی سند میں ابنِ علی لیلی اور داود بن علی نامی دو راوی ہیں جن کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے ، لہذا یہ قول درخورِ اعتناء نہیں ؛
        ماقبل کے ہردو قول میں سے کسی ایک قول میں عمل کرکے یومِ عاشوراء کے روزے سے عہدہ بر آ ہونے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے ، تاہم احوط یہی ہیکہ نویں اور دسویں محرم کے روزے رکھ لئے جائیں ، تاکہ نظریاتی اختلاف کی پرپیچ راہوں اور پرخار وادیوں میں اپنے دامن کو الجھائے بغیر بآسانی منزلِ مقصود تک رسائی ہوسکے ، واللہ أعلم بالصواب ...
              چاہیے تو یہ تھا کہ ہم اس پُر ازفضیلت و رحمت والے مہینے کے لئے سراپا شوقِ انتظار بنے اپنے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے ہوتے ، اس کے گُل کدۂ رحمت میں گُل گشت کرکے اپنے دامنِ مراد کو بھرتے اور اس کی بھینی بھینی برکت کی پُھواروں میں بھیگ کر اپنی قسمت کی لکیروں کو درخشانی و تابانی عطا کرتے؛
         لیکن! صد حیف کہ آج ہم ان فضیلتوں اور برکتوں کو یکسر پس انداز کرکے صرف اس خونچکاں داستان کی یادیں تازہ کرتے ہیں ( اور تازہ کرنے کا وہ طریقہ اپناتے ہیں جس سے شیطان بھی لجا جائے )جو آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے صحراءِ عرب میں پیش آیا تھا ، جس میں نواسۂ رسول ، ابنِ فاتحِ خیبر اور جگر گوشۂ آمنہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بڑی بےدردی سے شہید کردیا گیا تھا ، اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے خون کی چھینٹوں سے اس دن پوری نیلگوں فضا لالہ زار ہوگئی تھی ؛
           آج مسلمانوں کا المیہ یہ ہیکہ جب مغرب کی اوٹ سے محرم کا چاند جھانکتا ہوا اپنی آمد کا اشتہار دیتا ہے ، تو بےساختہ مسلمانوں کے ذہنوں میں محرم منانے کے بیہودہ طریقے انگڑائیاں لینے لگتے ہیں ، اور پھر جوں جوں محرم کا چاند ایام کی چلمن کو سرکاتا ہوا آگے بڑھتا جاتا ہے توں توں لوگوں کے ذہنوں میں بھی بتدریج ان خرافات کا اضافہ ہوتا جاتا ہے ، اکھاڑا کھیلنے کے لئے لاٹھیاں تراشتے ہیں ، ان کو تیل پلاتے ہیں ، ( اور پھر نہ جانے وہ لاٹھیاں جوشِ جنوں میں آکر کتنے مظلوموں کی آہیں اپنے دامن میں سمیٹتی ہیں ) حسین کے نام پر سبیلیں لگاتے ہیں ( اور العیاذ باللہ تصور یہ قائم کیا جاتا ہے کہ اس سے حسین کی پیاسی روح کو ٹھنڈک پہونچےگی ) دیگیں چڑھاتے ہیں ، مالیدہ اور پکوان تیار کرتے ہیں اور حسین کے نام پر ان کو بٹورہ کرتے ہیں ، کربلا کے شہید کے نام پر محفلِ مرثیہ خوانی منعقد کرتے ہیں ، اور پھر اس میں عزادارنِ حسین ایسی ایسی بے سر و پا من گھڑت کہانیاں اور طلسم آمیز افسانے بیان کرتے ہیں کہ سننے والوں پر رقت طاری ہوجاتی ہے ، اور  وجد میں آکر بےساختہ وہ گریبان چاک کرنے لگتے ہیں ، سینہ کوبی کرتے ہیں ، بال نوچتے ہیں ، دھار دار آلات سے اپنے جسم کو چھلنی چھلنی کر خون کی ندیاں بہاتے ہیں ، جسموں پر آگ کی چنگاریاں چھوڑتے ہیں اور پھر سماں میں نالہ و شیون ، نوحہ و ماتم اور آہ و بکا کا وہ و حشیانہ اور مہیب طریقہ پرواز کرنے لگتا ہے کہ ألأمان والحفیظ ؛
             اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل خراش و جگر تراش واقعہ اسلامی تاریخ کی پیشانی پر ایک ایسا بدنما داغ ہے جو ناسور بن کر صبحِ قیامت تک رستا رہے گا ، اور ایسا کیوں نہ ہو کہ یہ واقعہ اس پیشانی کو لہولہان کر کے سر انجام دیا گیا تھا ، جس میں بطحائی پیغمبر کے لعابِ دہن کے تابندہ نقوش ثبت تھے ، یہ ان انگلیوں پر نشتر لگا کر انجام دیا گیا تھا ، جن انگلیوں نے فاتحِ خیبر کے ہاتھوں کو پکڑ کر چلنا سیکھا تھا اور یہ اس جسمِ اطہر پر نیزہ مار کر انجام دیا گیا تھا جس میں سیدہ فاطمہ بتول کے خون کے دھارے بہہ رہے تھے ؛
               لیکن اس کے باوجود کسی کی شہادت یا وفات پر اس طرح کے جاہلانہ طرز پر نوحہ و ماتم کرنا ملتِ بیضاء کی روح اور شریعتِ مطہرہ کے مزاج کے سراسر خلاف ہے ،
                 چنانچہ نبئ کریم ﷺ نے کسی کی وفات پر نوحہ اور ماتم کرنے کو جاہلانہ رسم و رواج قرار دیتے ہوئے تہدید آمیز انداز میں ارشاد فرمایا " لَیْسَ مِنَّا مَنْ ضَرَبَ الْخُدُوْدَ وَ شَقَّ الْجُيُوْبَ وَ دَعَا بِدَعْوَي الْجَاهِلِيَّةِ " { بخاری ، کتاب الجنائز } ( جو گالوں پر تھپڑ مارے ، گریبان چاک کرے اور جاہلیت کی باتیں کرے ، وہ ہم میں سے نہیں ) اس حدیث شریف سے نوحہ و ماتم کرنے کی ممانعت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے ؛
      یہ ہے آج کی مسلم قوم کا طریقِ کار جو حقیقت کو چھوڑ افسانوں میں کھوکر یہود و نصاری کے شانہ بشانہ ہو کر اپنے ذہنی مرض ، اخلاقی انارکی اور فکری پراگندگی کا بھرپور ثبوت دیتے ہیں اور پھر امید کرتے ہیں ایک ایسی فضلِ باراں کی جس کا آبِ زلال حالات کا رُخ موڑ دے ، انتظار کرتے ہیں ایک ایسی روشن صبح کا جس کی وسعتوں میں تاریکی کی کوئی گنجائش ہی نہ ہو اور راہ تکتے ہیں ایسے حکمران کی جس کے میزانِ عدل میں انصاف اور رواداری کا عنصر غالب ہو ؛
             لیکن یاد رکھیں! اگر مسلمانوں نے اپنی خو نہیں بدلی اور حقیقت کے پردہ کو چاک کرکے افسانوں کے طلسم کو نہ توڑا تو پھر ان کا یہ خواب صرف خواب ہی بن کر رہ جائےگا جو کبھی بھی اپنی تعبیر کے شرمندۂ ساحل تک نہیں پہونچ سکتا ؛
        اللہ تعالی مسلمانوں کو صحیح سمجھ نصیب کرے اور سب کا خاتمہ بالخیر فرمائے ، آمین یا رب العالمین ......
                                  ظفر امام ، کشن گنجی 
                                   دارالعلوم " المعارف"
                                  کارکلا ، اڈپی کرناٹک