Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 6, 2019

یہ عبرت کا وقت ہے ملک کی نازک ترین صورت حال!! مکمل مضمون ضرور پڑھیں!!


دارالعلوم دیوبند کی لائبریری پر ہی نشانہ کیوں؟
نئے نئے قوانین کیوں پاس کرائے جارہےہیں؟
آج ملک کے حالات اسقدر خطرناکی پر کیسے چلے گئے،
ہماری کوتاہیاں کیا ہیں؟ اور اب علاج کیا ہے؟
از/ ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی _ علی گڑھ /صداٸے وقت۔
=========================
اس وقت ملک آزادی کے بعد سے اب تک کی تاریخ میں سب سے زیادہ پُر خطر اور نازک صورت حال سے گذر رہا ہے، یہ حالات یوں ہی نہیں آئے ہیں بلکہ غیروں کی شبانہ روز محنتوں اور منظم کوششوں اور ہماری غفلت اور غلط پالیسیوں کے نتیجہ میں ہم پر مسلط ہوئے ہیں، یہ موقع اسباب و احتساب کا نہیں بلکہ مستقبل کے تحفظ کے لیے خاکہ تیار کرنے کا ہے، کیوں کہ اسباب و احتساب کی بحث چھڑی تو ہماری رگِ اختلاف پھڑکے گی، ہم وقت و حالات کی نزاکت سے قطعِ نظر مخاصمت و مخالفت سے باز نہ رہ سکیں گے۔
*پارلیمنٹ کے اس سیشن میں تین قانون پاس ہوئے ہیں، UAPA قانون محض مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے اور انھیں بلا دلیل دہشت گرد بنا کر جیلوں میں ٹھونسنے کا ایک ذریعہ ہے،* RTI قانون میں ترمیم کے ذریعہ حکومت نے اپنے آپ کو بالکل ہی محفوظ (Secure) کرلیا ہے، طلاقِ ثلاثہ قانون نے مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دینے کا الارم بجا دیا ہے، یہ اب تک کا سب سے لولا، لنگڑا، گنجلک اور غیر واضح قانون ہے، طلاق واقع نہیں ہوگی مگر مرد کو سزا ملے گی، نفقہ دینا پڑے گا، پھر سزا کاٹنے کے بعد اسی خاتون کے ساتھ رہنا ہوگا، اس درمیان متاثرہ خاتون اور بچوں کا ہر ممکن استحصال ہوگا، اس کی ذیلی شقوں کی رُو سے قانون حضانت، قانون نفقہ اور خلع کے ساتھ طلاق بائن کی ہر شکل کو کالعدم قرار دے دیا گیا، صرف طلاق رجعی کی اجازت دی گئی ہے جس کا اختیار بہرحال مرد کو ہے، مگر اس صورت میں عورت کیا کرے گی جب وہ صرف طلاق بائن اور خلع کا مطالبہ کرتی ہے، اس 
صورت میں کیا ہوگا،

 بہرحال اس موضوع پر مجھے یہاں کچھ نہیں عرض کرنا ہے، جو کچھ لکھنا تھا وہ ہم ۲۰۱۶ء میں لکھ چکے، بحمد للہ اہل علم نے اس کی پذیرائی کی تھی مگر افسوس کہ ارباب اختیار نے طالب علمانہ معروضات کو کوئی اہمیت نہ دی، اب بھی اگر طلاق ثلاثہ کے عنوان سے کوئی مہم چلائی گئی تو صرف قومی سرمایہ برباد ہوگا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا، اس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر اس قانون کی ذیلی شقوں کو خواتین کی تنظیموں کے ذریعہ چیلنج کیا جائے تو کچھ بات بن سکتی ہے، کیونکہ اس صورت میں بات وزن دار ہوگی جبکہ طلاق ثلاثہ کا عنوان ہی ہمارے موقف کو بے وزن کردیتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی یونیفارم سول کوڈ کے نفاذ کا ایجنڈا رکھتی ہے، طلاق ثلاثہ کا قانون لوگوں کے بقول اس کی طرف ایک قدم ہے، لیکن مجھے اس سے اختلاف ہے، بی جے پی کا مقصد صرف مسلمانوں کو پریشان کرنا اور مفلوج کرنا ہے، یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ دیگر وجوہات اور بالخصوص ہندوئوں کے مختلف طبقات کے پیش نظر بہت مشکل ہے اگرچہ ناممکن نہیں، طلاق ثلاثہ قانون کے لیے بی جے پی آخر اس قدر بے تاب کیوں ہوئی؟ اس کے جواب میں بہت سے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ یہ مسلمانوں کے دراصل اس چیلنج کا بی جے پی نے جواب دیا جو ’’دین دستور بچائو تحریک‘‘ کے ذریعہ بار بار کیا گیا کہ ’’شریعت میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘، اس میں شدت اس لیے آئی کہ بورڈ کے مؤقر اسٹیج سے وامن میشرم کو بار بار خطاب کا موقع دیا گیا اور انھوں نے کھل کر برہمنزم کے خلاف بات کی، یونیفارم سول کوڈ پر واویلا کیا، بی جے پی کو لعن طعن کیا، یاد رکھنا چاہیے کہ اقلیت میں رہنے والی قومیں چیخ پکار اور زبانی چیلنج سے نہیں مضبوط حکمتِ عملی اور خاموش حکمت سے مورچے فتح کیا کرتی ہیں، یہاں تو پشت پر کوئی سہارا بھی نہ تھا، گرتی ہوئی دیوار کا سہارا لینا اور اس کو سہارا دینا دونوں ہی حکمتِ عملی کے خلاف ہے اور پھر اس کے علاوہ ہم نے کوئی آپشن تیار بھی نہیں کیا، سوچیے ذرا طلاق بل پر راجیہ سبھا سے تمام سیکولر پارٹیوں نے واک آئوٹ کیا، آخرکیوں؟ UAPA بل کی لوک سبھا میں کانگریس نے مخالفت کی مگر راجیہ سبھا میں سپورٹ کیا، آخر کیوں؟ غور کیجئے بہت سے عقدے کھلتے چلے جائیں گے۔
*حیرت کی بات یہ ہے کہ NRC کا بل بھی پاس ہونے کی تیاری ہے، اس قانون کے تحت خبروں کے مطابق آئندہ یکم اپریل سے سیٹزن شپ کا رجسٹریشن شروع ہوگا اور اس میں ایسی پیچیدگیاں پیدا کی جائیں گی کہ کروڑ دو کروڑ مسلمانوں کی نیشنلٹی پر سوالیہ نشان لگا کر انھیں بے گھر کردیا جائے گا، بلکہ بہت ممکن ہے کہ ایسی فہرست تیار کرلی گئی ہو کہ کس کس کو اس کی زد میں لینا ہے، اس کے بعد کا منصوبہ مزید خطرناک ہے، ہم بار بار چیختے رہے، ہمارے طالب علمانہ اداریے اس کے گواہ ہیں، مگر ارباب اختیار نے کبھی گفتگو کے لائق بھی نہ سمجھا،* اب ہم طلاق کے عنوان سے آگے نہیں بڑھ پا رہے ہیں، ابھی تک اسی کے پیچ و خم میں الجھے ہوئے ہیںجبکہ حکومت نے ہمارے تشخصات کو ختم کرنے، بڑے پیمانے پر بے گھر کرنے، قتل عام کرنے کے بڑے بڑے منصوبے تیار کرلیے ہیں، سب کچھ بہت منظم انداز میں ہوگا، آپ کی شہنائیاں بھی بجتی رہیں گی، پیٹ پوجا بھی چلتی رہے گی، جلسے بھی ہوتے رہیں گے، جشن کی تیاریاں بھی جاری رہیں گی اور پریشانیوں کا دائرہ بھی تنگ ہوتا رہے گا، *دیکھا نہیں آپ نے کہ آپ تین طلاق پر ماتم کرتے رہے، جوہر یونیورسٹی اور دیوبند کے وقار پر بٹہ لگنے کا سوگ مناتے رہے اور ادھر کشمیر میں دفعہ ۱۴۴ نافذ ہوگئی، انٹرنیٹ سروسز بند ہوگئیں، اور پھر صبح کو راجیہ سبھا میں صدارتی حکم کے ذریعہ دفعہ 870 اور 35A کو کالعدم دے دیا گیا، آئندہ مزید کیا ہوگا کچھ نہیں کہا جاسکتا، مجھے یقین ہے کہ اس بار ۱۵؍ اگست کو لال قلعہ کی فصیل سے ملک کی جمہوریت کو ڈکٹیٹرشپ میں تبدیل کرنے والے خطرناک اعلانات ہونے والے ہیں، کشمیر کا تشخص ختم کرنا اس جانب پہلا قدم ہے۔*
*ہم نے بار بار لکھا کہ بدلتے ہوئے ہندوستان میں مدارس کے تحفظ کے تئیں ہم کو سنجیدہ اقدامات کرنے چاہئیں، سال دو سال قبل ہم نے لکھا تھا، کہ اور مجلسوں میں تو بار بار کہا تھا کہ بی جے پی اگر دوبارہ اقتدار میں آئی تو کھل کر مدارس پر ہاتھ ڈالے گی، جس کی ابتدا وہ پہلے ہی کر چکی تھی، مگر کسی نے نہ سنا، اب صورت حال یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند جیسے ادارہ کی لائبریری کی عمارت کو انکوائری کا موضوع بنایا گیا، انکوائری کے لیے پوری طرح فورسز بھیجی گئیں، یہ ایک پیغام تھا کہ جس کو تم سب سے زیادہ محفوظ و محترم سمجھتے ہو، جس پر تمہیں سب سے زیادہ ناز ہے دیکھو وہ بھی ہماری دسترس سے باہر نہیں، ورنہ ایک تعمیراتی کام کی انکوائری کے لیے ایسے فورس نہیں بھیجی جاتی، پھر ملک بھر میں کتنے مٹھوں، مندروں، گردواروں اور نجی عمارتوں اور گھروں کے نقشے پاس کرائے جاتے ہیں، حقیقت میں ایک فیصد لوگ بھی نقشہ پاس نہیں کراتے، پاس کرانے میں اتنی شقیں ہوتی ہیں اور قانونی پیچیدگیاں اور مطالبات ہوتے ہیں کہ جو لوگ پاس بھی کراتے ہیں وہ رشوتیں دے کر کراتے ہیں، آفیسر بدلتے ہیں تو کبھی بھی پھر رشوت کا بھوت منہ پھاڑ دیتا ہے، اس جنگل راج میں صرف دارالعلوم کی لائبریری کیوں نظر آئی؟ سوال ہے غور و فکر کے لیے۔*
اس کے علاوہ بھی متعدد مدارس کے متعلق رپورٹ ملی ہیں جہاں پولیس پہنچ چکی ہے، اول تو ملک میں رہ کر ملک کے قانون کی خلاف ورزی خود ایک جرم ہے، دوسرا جرم وقت رہتے تحفظ کی فکر نہ کرنا ہے۔
*رامپور کی عظیم الشان محمد علی جوہر یونیورسٹی پر بلڈوزر چلانے کے لیے دشمن بے تاب ہے،* اعظم خاں یا ان کی پارٹی سے مجھے کوئی سروکار نہیں بلکہ میں تو ہمیشہ ان کی پارٹی اور ان کا ناقد رہا، مگر اس یونیورسٹی کی تعمیر یقینا مستقبل میں ایک تاریخی کارنامہ شمار کیا جائے گا، اس کی بربادی کے تصور سے بھی نیند اڑ جاتی ہے، یاد رکھیے کہ اگر جوہر یونیورسٹی برباد ہوئی تو پھر ہمارے ادارے اور ہماری تنظیمیں بھی محفوظ نہیں، اعظم خاں سے سینکڑوں اختلاف ہوسکتے ہیں اور ان کی ہزاروں غلطیاں بھی ہیں، مگر اس وقت موقع دوسرا ہے، ترجیحات دوسری ہیں، اس وقت جوبھی زبان کھولے گا اس کی فائلیں کھولنے کا کھیل شروع ہوچکا ہے، اعظم خاں ایک قد آور لیڈر تھا، وہ ٹوٹ گیا اور اس کی یونیورسٹی ٹوٹ گئی تو بہت کچھ ٹوٹنے میں دیر نہیں لگے گی، اس لیے اس وقت اس کی حفاظت ملی فریضہ ہے، *اس وقت سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کو ہراساں کرنے کا طریقہ یہ اپنایا گیا ہے کہ ہر ایک پیچھے ایجنسیاں لگا دی گئی ہیں، اب جس کی کچھ بھی غلطی ہے وہ بولنے اور کچھ کرنے سے قاصر ہے، خواہ وہ غلطی محض الزام ہو یا واقعی غبن، غصب، بے جا استحصال اور اوقاف میں خُرد بُرد حقیقتِ واقعہ ہو، یہی لوگ آئندہ حکومت کے مواقف کے ترجمان بنیں گے، ’’وعدہ معاف گواہ کا قاعدہ بہت پرانا ہے‘‘، اس وقت بولنے کی اجازت صرف اس کو ہے جس کا بولنا حکومت کے لیے کار آمد ہے، یہ کبھی یوں کار آمد ہوتا ہے کہ بی جے پی کمیونل چہرے کے طور پر عام ہندوئوں کو دکھاتی ہے، کبھی عالمی منظر نامہ پر اقلیت کے انٹیلکچول چہرے کے طور پر استعمال کرتی ہے، بہت سے بولنے والے ہیں، جن کی صبح و شام مخالفت کے باوجود نہ بی جے پی ان پر کان دھرتی ہے، نہ ان کو چھیڑتی ہے اور نہ کوئی فائدہ ہی ہوتا ہے، اس وقت ضرورت ہے کہ ایسے تمام لوگوں سے امیدیں توڑ کر سماج کے وہ لوگ میدان میں آئیں جن کی نہ کہیں فائلیں ہوں نہ ان کی دُم دبی ہو، جو کچھ دور چلنے کا حوصلہ بھی رکھتے ہوں، ایسے لوگ اپنے قائدین سے مل کر مستقبل کا لائحہ عمل بنائیں،*
*یاد رکھیے اس وقت ایمان اور شریعت پر عمل کے علاوہ تین چیزیں مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرسکتی ہیں،*
*ان میں سے پہلی چیز* مسلکی عصبیت اور سلکی تنگیوں سے باہر آ کر شریعت کی وسعتوں کو ملحوظ رکھنا، *دوسرے* تمام لوگوں کا متحد ہونا، *تیسرے* دیگر اقدامات کے ساتھ سڑک کی لڑائی (Street Fight)، جمہوریت اور اقلیت میں یہ تینوں ہی چیزیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں، اگر ان کی اہمیت کو اب بھی نہ سمجھا گیا تو اگلے چند مہینے بہت اچھی طرح سمجھا دیں گے۔ (اللہم احفظنا من کل شر و مکروہ)
*مودی کے دورۂ اسرائیل کے وقت جب وہ فلسطینی مظلوم بچے سے نہیں ملا تھا تو کچھ عقل کے مارے اس پر واویلا کر رہے تھے، اس وقت ہم نے لکھا تھا کہ* ہر ملک اپنی خارجہ پالیسیوں میں اپنے مفادات کو سامنے رکھتا ہے، ہندوستان کی خارجہ پالیسی بھی اپنے مفادات پر مبنی ہوتی ہے، جب تک خلیجی ممالک کی اسرائیل سے دوستی ڈھکی چھپی تھی یا تعلقات مخالفت کے پردہ میں استوار تھے تب تک یہاں کی خارجہ پالیسی میں بھی اسرائیل کو وہ مقام حاصل نہ تھا، جب ذرا تعلقات میں وسعت آئی، سعودیہ میں امریکی فوجی اڈہ قائم ہوا تو ہندوستان میں اسرائیلی سفارت خانہ کھلا اور جب سعودیہ امارات اسرائیل کے سامنے برہنہ ہوکر سامنے آگئے تو ہندوستان کے فرسٹ رینک کے آفیسر اسرائیل ٹریننگ کے لیے جانے لگے، جب ہم نے عرب ممالک کی پالیسیوں پر نقد کیا تو بعض عقل کے کورے کہنے لگے اپنے ملک کے حالات سے بے خبر چلے ہیں دنیا پر تنقید کرنے، ذرا غور کیجئے تو جس تیزی کے ساتھ سعودیہ و امارات کی پالیسیاں بدلی ہیں اور اسرائیل سے تعلقات استوار ہیں اسی تیزی کے ساتھ وطن عزیز کے حالات اور پالیسیوں میں تبدیلی آئی ہے، سوچیے ہم جس اسلام کی یہاں تصویر پیش کرتے ہیں اس کے برخلاف مسلم ممالک کا کیا رویہ ہے اور سعودیہ کس راہ پر چل پڑا ہے، *جب سعودیہ مفتی عام اسرائیل سے جنگ کو حرام کہے، حماس کے خلاف متحد ہونے کو ملی فریضہ کہے، جب سعودیہ تجزیۂ نگار کساب العتیبی منصوص مسجد اقصیٰ کے تقدس کو پامال کرتے ہوئے اسے محلے کی مسجد قرار دے، جب سعودی بلاگر محمد السعود اسرائیل سے مسجد اقصیٰ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لینے کی درخواست کرے تو پھر اس ملک کی حکومت جو کچھ کر رہی ہے اس پر تعجب کیسا؟* پارلیمنٹ میں اگر اویسی کو مسلم ممالک کی مثال دی جائے تو تعجب کیسا؟ کل تک تو آپ کہتے تھے کہ عرب ممالک کی پالیسیوں پر تنقید کرنا ہی فضول ہے، ہم نے تو پہلے اور بہت پہلے لکھا تھا کہ ہندوستان آج بھی مسلمانوں کے لیے دنیا بھر میں سب سے پرسکون ملک ہے، جس قدر اپنے تشخص کے ساتھ مسلمان یہاں رہتا ہے دنیا کے کسی ملک حتی کہ سعودیہ میں بھی نہیں رہتا ہے، ہم نے لکھا تھا کہ ضرورت ہے کہ اس کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں کیونکہ یہود جو اسلام کے سب سے بڑے دشمن ہیں ان کو یہ کبھی بھی گوارا نہیں، آخر وہ سب کچھ رفتہ رفتہ آنکھوں کے سامنے ہے، *جس تیزی کے ساتھ عربوں کے تعلقات اسرائیل سے بڑھے، اسی تیزی کے ساتھ ہند- اسرائیل دوستی میں اضافہ ہوتا گیا، اس وقت وہ اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے، اور اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ اسی دوستی اور سرپرستی کا نتیجہ ہے، کیونکہ نسل پرست کی دوستی نسل پرست سے ہی ہوسکتی ہے* اور قرآن مجید کی زبان میں جو حقیقت بیان کی گئی ہے وہ کچھ یہی کہانی سناتی ہے لتجدن اشد الناس عداوۃ للذین اٰمنوا والذین اشرکوا۔
*یہ باتیں میں نے اس لیے لکھی ہیں اور ان کی فوری اہمیت اس لیے ہے کہ ابھی یکے بعد دیگرے کئی قوانین میں ترمیم کی تیاری ہے،* سب سے اہم ترمیم سوسائٹی ایکٹ سے متعلق ہے، کسی بھی قوم کی کمر توڑنے اور اس کی ترقی پر قدغن لگانے کا آسان طریقہ ہے کہ اس کی تنظیموں کو ختم یا محدود کردیا جائے، اگر تنظیموں پر ہاتھ ڈالا گیا تو صرف ہمارا اتحاد ہی ہمیں بچا سکتا ہے، جس طرح مختلف فیہ مسائل میں ہاتھ ڈالا گیا تو صرف شریعت کی وسعتیں ہی تحفظ فراہم کرسکتی ہیں کیونکہ یکے بعد دیگرے مسائل کھڑے کرنے کی مکمل تیاری ہے۔
اچھی طرح سمجھ لیجئے کہ یہ وقت ہے رجوع و انابت الی اللہ کا، شریعت کو گلے لگانے کا یہ وقت ہے اتحاد امت کا، اپنی روش کو بدلنے اور اپنے رویّہ کو درست کرنے کا، اب بالکل بھی وقت نہیں بچا ہے، اگر اب بھی کوئی خاکہ اور لائحہ عمل نہ تیار کیا گیا تو اس ملک میں آئندہ طویل عرصہ تک ہماری نسلیں غلام ہوں گی۔
ڈاکٹر طارق ایوبی ندوی
مدیر: ماہنامہ ندائے اعتدال، علی گڑھ