Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 6, 2019

علمإ کرام سے ایک سوال ؟؟؟

از/سمیع اللہ خان/ صداٸے وقت۔
=========================
مورخہ ۵ اگست، ۲۰۱۹ کو *مولانا ارشد مدنی صاحب نے* دہلی کی ایکتا کانفرنس میں کہا کہ:
*" ظالم ہونے سے بہتر ہیکہ مظلوم بن کر مر جائیں "*
چونکہ یہ بات قومی سطح کے مؤقر قائدِ ملت کی زبانی ادا ہوئی ہے، اور مسلمان اسے بڑے پیمانے پر وائرل بھی کررہےہیں اسلیے اس کا نوٹس لینا بہت ضروری ہے ـ

*یہ بات قوم کے نظریے سے جڑی ہوئی بات ہے اسلیے امانتًا عرض پرداز ہوں ورنہ کہاں حضرت کی جوتیاں اور کہاں میں.*
بھارت کے موجودہ حالات کے تناظرمیں حضرت کی یہ بات جسے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بطور نظریہ قبول کرکے وائرل کررہی ہے نظرانداز کرنے جیسی نہیں ہے، اسلیے ہم علمائے کرام سے درخواست کرتےہیں کہ وہ اس بات پر روشنی ڈالیں:
" من قتل نفسا بغیر نفس او فساد فی الارض فکانما قتل الناس جمیعا "
اس آیت میں ایک مظلوم کی موت کو ساری انسانیت کی موت قرار دیا گیاہے، خدانخواستہ کیا سَر ظالم کے حوالے کیا جائے؟

الله کے رسولﷺ کے فرامین بھی مستقل اس بابت موجود ہیں:
" انصر اخاڪ ظالمًا او مظلوماً "
اس ارشادِ نبوی کے مطابق ظالم کو ظلم سے روکنا اور مظلوم کا ظلم کو برداشت نہیں کرنا یہ ان کی مدد کا طریقۂ نبوی بتلایا گیاہے. نیز مؤرخین اور مفسرین نے مظلوموں کے ظلم کو برداشت کرنے کی خصلت کو ظالم کی مدد قرار دیاہے، چہ جائیکہ " مظلومیت پر مرنے " کی ترغیب دی جائے!
" افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر "
یہاں تو افضلِ جہاد ہی ظالم کے مقابلے میں مظلوم کی موت کے بجائے حق گوئی کو قرار دیاگیاہے.
اس کے علاوہ الله کے نبیﷺ نے تو امت مسلمہ پر " مظلومیت کی موت " کو آنے والے وقت میں ان کے لیے (نعوذباللہ) عذاب و بلا سے تعبیر کیا ہے، اور اس سے متعلق " وھن " یعنی " زندگی پرستی " کی وبا کو احادیث میں تفصیل سے بیان کیا گیاہے جس کا انجام مظلومیت کی موت بتایا گیاہے _
اور ترمذی کی ایک روایت جو دیگر کتبِ احادیث میں بھی درج ہے، اس کے مطابق تو…
إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوُا الظَّالِمَ فَلَمْ يَأْخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ أَوْشَكَ أَنْ يَعُمَّهُمُ اللَّهُ بِعِقَابٍ
ترجمہ: اگر لوگ کسی کو دیکھیں جو ظالم ہواور وہ اس کو اپنے بازؤں ( روکنے کی خاطرقوت ) سے کام نہ لیں تو عنقریب ہے کہ اللہ اپنی طرف سے عذاب نازل کردے جو تمام لوگوں کو اپنے گھیرے میں لے لیگا۔(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)
ان تمام صورتوں میں دیکھا جائے تو " مظلوم ہونا" ایک منحوس وصف نظر آتا ہے، چہ جائیکہ اپنی نیت اور رضامندی سے مظلوم ہوا جائے، وہ بھی بیس کروڑ کی اکثریت کا؟ یاللعجب!
اسلامی تاریخ میں عالم اسلام پر بد سے بدتر حالات پیش آئے ہیں، کیا کبھی مظلومیت کی موت کو ترجیحی خانے میں رکھ کر عامۃ المسلمین کو مرنے کی دعوت دی گئی ہے؟

علمائے کرام سے درخواست ہے کہ وہ اس مسئلے کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اس پر روشنی ڈالیں، تصویب یا تردید جو بھی شریعت کی روشنی میں صحیح لگے اس کا اظہار فرمائیں،
اور الله کے واسطے اس جائز، مہذب اور واجبی سوال کو گستاخی اور تعصب کی بھینٹ نا چڑھائیں، اکابر ہمارے سروں کے تاج تھے، ہیں اور، رہیں گے __
طالبِ دعا، سائل: ✍
*سمیع اللّٰہ خان*
ksamikhann@gmail.com
(یہ عریضہ حضرت مدنی کی خدمت میں بذریعہ ای میل پوسٹ کیا ہے)
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=2971662773057940&id=100006427384294