Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 6, 2019

آرٹیکل 370 کے ختم کٸے جانے پر ریشان احباب کے لیٸے منفرد تجزیہ۔۔۔!!!

*مفتی محمد نوید سیف حسامی ایڈووکیٹ*/صداٸے وقت ۔
=========================
کل سے قبل بہت سوں کو تو پتہ ہی نہیں تھا کہ دستور کی شق *تین سو ستر* تھی کیا، کل جیسے ہی خبر پھیلی وہ پریشان ہونا شروع ہوگئے اور پریشان بھی ایسے ہوئے گویا کشمیر میں خلافت قائم تھی جسے ختم کردیا گیا یا وہاں شرعی قانون چلتا تھا جسے کالعدم کردیا گیا 
وغیرہ وغیرہ...
 
جموں کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت اور وہاں سے مسلسل اہل اسلام پر زیادتی کی خبروں کی وجہ سے *غیر کشمیری مسلمان* کشمیر و اہل کشمیر کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہے جبکہ *غیر کشمیری غیر مسلم* وہاں ہندوؤں کی اقلیت، دہشت گردی کے واقعات کے پھوٹ پڑنے اور پڑوسی ملک سے دراندازی کے واقعات کی کثرت کی بنا پر کشمیر کو اپنا حصہ مانتے ہوئے کشمیریوں کو ہندوستان سے لاتعلق مانتا ہے...
کل جمہوریت کے مندر میں شق 370 کو ختم کرنے کی کاروائی کی گئی اور عملا ختم بھی کردیا گیا...دوپہر سے اہل قلم و ورق نے اپنا محاذ سنبھال لیا ہے، جلد لکھنے اور چُبھتا ہوا لکھنے کے چکر میں مسئلہ کے چاروں طرف نظر نہیں جاتی..

. *موجودہ مرکزی حکومت نے کیا ہوگا تو غلط ہی کیا ہوگا* اس رجحان نے بعض دفعہ متوقع نقصان سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے...
آئیے دیکھتے ہیں اس *تبدیلی* سے کشمیریوں کا کیا فائدہ ہوگا...
1) کشمیر اب عام ہندوستان کی طرح ہوچکا ہے، جیسے آپ کا علاقہ اور شہر ہے ویسے ہی، نتیجہ میں وہ ان ساری مراعات سے فائدہ اٹھا سکے گا جس سے باقی سارا ہندوستان مستفید ہوتا ہے، جیسے *آر ٹی آئی* کی دستیابی *آر ٹی ای* کا لزوم، سپریم کورٹ کے فیصلے، وغیرہ....
2) یہاں غیر کشمیریوں کے مستقل قیام کی اجازت نہ مل سکنے کی بنا پر کشمیر ملک کے باقی حصے کے اپنے اپنے شعبوں میں ماہر افراد کی خدمات سے محروم تھا...اب اس کی راہیں کھلی گی...(تفصیلات گوگل کرلیں)
3) بعض تحریروں میں کشمیری خواتین کے روایتی حقوق کا ذکر کیاگیا ہے کہ یہ بھی ختم ہوجائیں گے، یہ جملہ اچھے خاصے ناواقف لوگوں کو پریشان کررہا ہے، وہ سمجھ رہے ہیں کہ اب کشمیری خواتین کو بے پردہ رہنا ضروری ہوجائے گا ان کو ذلیل کیا جائے گا وغیرہ...  پورے ملک کی مسلم خواتین کی جو قومی حیثیت ہے وہی کشمیری خواتین کی بھی ہے، پہلے وہ باہر شادی نہیں کرسکتی تھیں اگر کرلیتیں تو کشمیری ہونے کا حق کھو بیٹھتی تھیں اب تو کوئی فرق باقی نہیں رہا....

4) وہاں بیشتر مقامی کاروبار ہی چلا کرتے تھے، اب وہاں مختلف سرمایہ کار اپنا مال لگائیں گے، ترقیاتی کام ہوں گے، کشمیری اب اپنا ہنر باقی ہندوستان میں دکھا سکیں گے....معاشی سطح بلند ہوگی...
5) کشمیریوں کے بے گھر ہونے کی بات بھی پڑھنے میں آئی ہے، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ انہیں جوڑا گیا ہے، اولا تو یہ امر قابل لحاظ رہے کہ یہودی قوم کی دلی وابستگی بیت المقدس اور اطراف و اکناف کے علاقوں سے مذہب کی بنیاد پر ہے اور وہاں خارجی دراندازوں کا خوف بھی نہیں ہے جبکہ کشمیر میں ہندوؤں کے لئے مذہبی وابستگی والا ایسا کچھ خاص معاملہ نہیں اور یہاں پڑوسی ملک سے دراندازی کا مستقل خوف لگا رہتا ہے ایسے میں کس کا گردہ ہے کہ اپنی پرامن جگہ چھوڑ کر وہاں قیام کرے...
6) یہ ضروری نہیں کہ کشمیری صرف کشمیر میں ہی رہیں جیسے آپ اپنی زمین گھر بیچ کر پورے ملک میں کہیں بھی بس سکتے ہیں اسی طرح کشمیریوں کو بھی حق ہے کہ اپنی زمین بیچیں....بہت ممکن ہے کہ بہت سے لوگ نقل مکانی کرنا چاہتے تھے ہوں گے لیکن کوئی بیرونی خریدار نہیں مل سکتا تھا لیکن اب یہ آسانی انہیں دستیاب ہوگی...
7) کل تک وہاں رنبیر پینل کوڈ پر عمل ہوتا تھا جو کچھ تبدیلی کے ساتھ انڈین پینل کوڈ ہی کی طرح ہے...کوئی شرعی قانون تو ہرگز بھی نہیں ہے...
شق 370 کا ختم ہونا کوئی مذہبی معاملہ بالکل بھی نہیں ہے، ہندوستانی ہونے کی حیثیت سے ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہمارے ملک نے تکمیل کے ایک اور مرحلہ کو عبور کیا ہے، طریقہ کار بھی مرکزی حکومت کا غیر دستوری نہیں ہے، دستور کی  رعایت کرتے ہوئے ہی *شق 370* کو ختم کیا گیا ہے....خدشات اپنی جگہ پر ہیں لیکن وہ خدشات صرف کشمیر کے ساتھ نہیں بلکہ پورے ملک کی مسلم عوام کے ساتھ ہیں...
شق 370 کے ختم کئے جانے کا مطالبہ نیا بھی نہیں ہے، کانگریس نے سیکولرازم کے اظہار کے چکر میں کبھی اسے ختم کرنے کی کوشش نہیں کی، کل جب ایک ہی دن میں اسے تہہ تیغ کردیا گیا تو بہت سوں نے انگلیاں دانتوں تلے دبالیں کہ کیا یہ اتنا آسان تھا؟؟ اگر آسان تھا تو کانگریس نے اب تک کیوں نہیں کیا؟؟؟
ہم موجودہ خطروں کی بنسبت متوقع خطروں سے زیادہ پریشان رہتے ہیں...این آر سی کا مسئلہ ملک کی پوری آبادی کے لئے ہے کسی نے واضح الفاظ میں لکھ دیا کہ یہ صرف مسلمانوں پر لاگو ہوگا.... کشمیر کا ایشو بی جے پی کے ایجنڈے میں 2014 کے الیکشن سے پہلے سے شامل ہے، ان پانچ سالوں میں اس نے ایسی فضا بنائی جو اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکا سکے...

کسی بھی مسئلہ پر پریشان ہونا مسئلہ کا حل نہیں ہے، ڈر جانے والے کیا کسی کو سنبھالیں گے؟؟؟ خواہ مخواہ ڈرنا اور گھبرانا ہماری فطرت بن چکی ہے یا بنتی چلی جارہی ہے، لاعلمی اس کا بڑا سبب ہے، کشمیری اگر چاہیں تو اس تبدیلی کو اپنے لئے خوش آئین بنا سکتے ہیں، *آج کشمیری وہیں کھڑے ہیں جہاں 1948 میں حیدرآباد دکن کھڑا تھا جب اسے انڈین یونین میں ضم کرلیا گیا تھا اور اس کی الگ شناخت مٹانے کے لئے تین مختلف ریاستوں آندھرا پردیش، کرناٹکا اور مہاراشٹرا میں تقسیم کردیا گیا تھا، وہی حیدرآباد اپنی منفرد پہچان کے ساتھ آج بھی قائم ہے...کشمیریوں کو چاہئے کہ انڈین یونین میں ضم ہونے والی ریاستوں کی غلطیوں سے سبق حاصل کرے...*
مضمون نگار سے رابطے یا اپنی رائے کے اظہار کے لئے
+91 9966870275
muftinaveedknr@gmail.com