Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 27, 2019

ہم یوں ہی نہیں دھتکارے گٸے۔!!!

✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت۔
=========================
یوں تو ہمارے لیے حالات پچھلے 70 برسوں سے کبھی اچھے نہیں رہے، مگر امریکہ کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد تو جیسے فتنوں کی باڑھ آ گئی ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لیبیا، فلسطین، یمن اور ہندوستان میں ہمارے لوگ اتنے مارے گئے، اتنے مارے گئے کہ پچھلے 500 برسوں میں بھی اتنے نہیں مارے گئے تھے۔ پوری روئے زمین خون سے لالہ زار ہو گئی۔ آسمان رو پڑا۔ در و دیوار آہیں بھر رہے ہیں۔ سمندر سسکیاں لے رہا ہے۔ بیابان و خیابان اپنے سینے پیٹ رہے ہیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ 11 ستمبر 2001 میں ہوا تھا۔
ہندوستانی سطح پر دیکھیں تو ہمارے 
ساتھ کیا نہیں ہوا؟ دہشت گرد ہمیں سمجھا گیا۔ جیلوں میں ہم گئے۔ عصمتیں ہم نے لٹوائیں۔ جانیں ہم نے گنوائیں۔ مسجدیں ہم نے کھوئیں۔ سرکاری مراعات ہم محروم ہوئے۔ حکومتی دفاتر ہمارے لیے نہ رہے۔ ہمیں کاروبار میں بھی آگے بڑھنے نہیں دیا گیا۔ یہ ساری باتیں ہوئیں، مگر ہم ہر زخم بھول کر حکومت سے پر امید رہے۔ ہمیں لگا کہ حالات بدلیں گے۔ فضا سازگار ہوگی۔ وقت ہمارا غلام ہوگا، لیکن پھر 2014 آ گیا۔ اب حکومت میں ایسے لوگ آگئے کہ ہماری قسمت کی سیاہی مزید سیاہ ہو گئی۔ اب ہماری داستانِ الم مزید درد ناک ہونے لگی۔ موب لنچنگ کی اصطلاح اور عمل ہمارے خلاف متعارف کرایا گیا۔ بابری مسجد کے مسئلے پر گالیاں ملنے لگیں۔ احکامِ شرع میں کھلی مداخلت ہونے لگی۔ گرفتاریوں کا سلسلہ اگرچہ تھم گیا، مگر ظلم و جبر کے دوسرے ہتھکنڈے زور و شور سے اپنائے گئے۔ اب نہ جانے کیا کیا پاپندیاں ہمارے سامنے آئیں گی۔ پچھلے  پانچ سال تو بہت برے گزرے، بڑے بھیانک۔ لگتا ہے کہ یہ پانچ سال اور بھی برے گزریں گے۔

ملک ان سارے انقلابات سے گزرتا رہا اور ہم موج مستی اور ذخیرہ اندوزی میں لگے رہے۔ سچ کہیے تو اللہ اور رسول کا باغی ہم سے زیادہ کوئی نہیں۔ دشمن تو دشمن ہیں۔ چھ دہائیاں چھپ کر ہم پر وار کرتے رہے اور ہم انہیں تاڑ نہ سکے۔ ہمیں حلوے کے ساتھ زہر کھلاتے رہے اور ہم بے تکلف کھاتے رہے۔ جب ہم پوری طرح بے دست و پا ہو گئے۔ ہماری صحت مکمل جواب دے گئی۔ ہمارے قویٰ کمزور سے کمزور ہو گئے۔ ہماری قوتِ فکر و نظر سلب ہو گئی۔ ہماری بینائی ختم ہو گئی۔ ہمیں ہر طرح مفلوج اور نہتا کر دیا گیا تو اب کھلے دشمن سامنے آ گئے۔ اب ہمارا سامنا آستین کے سانپوں سے کم، کھلے دشمنوں سے زیادہ ہے۔ اب ہمارے لیے گھر سے باہر نکلنا مشکل ہو گیا۔ داڑھی ہمارے لیے وبالِ جان گئی۔ شرعی لباس ہمارے جی جنجال بن گیا۔ ہم ہر جگہ مار کھانے لگے، لیکن ہم اب بھی نہ سدھرے۔ ہم نے اللہ اور رسول سے زیادہ دشمنوں پر اعتماد کیا۔ ہمیں رسولﷺ کی زلفِ مبارک نہیں، انگریزوں کے بال اچھے لگنے لگے۔ رسولﷺ کی داڑھی نہیں، اسلام دشمنوں کا کلین شیو نظر میں جچنے لگا۔ رسولﷺ کی وضع قطع نہیں، فرنگیوں کی تہذیب و تمدن خوب تر معلوم ہوئی۔ پیغمبرﷺ کی طرزِ حیات کو ہم نے مسترد کر دیا۔ صحابہؓ کا رنگ و آہنگ اب کون اپنا رہا ہے؟ ہم شکایتیں کرتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہو رہا۔ دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے: کیا ہم میں سے ہر شخص ظالم نہیں؟ جس کا جہاں بس چل رہا ہے وہاں ضرور ظلم کر رہا ہے۔ والدین اپنی اولاد پر بلڈوزر چلا رہے ہیں۔ بچے اپنے ماں باپ کو دھتکار رہے ہیں۔ بھائی بھائی پر گرج رہا ہے۔ مسجد کے ٹرسٹی ائمہ پر ظلم کر رہے ہیں۔ مدارس کے مہتمم اساتذہ پر ستم ڈھا رہے ہیں۔ صدر المدرسین عام مدرسین پر جفاؤں کے ہتھوڑے برسا رہے ہیں۔ ڈاکٹر مریضوں کو لوٹ رہے ہیں۔ وکیل اپنے مؤکلین کو مار رہے ہیں۔ دینی اور غیر دینی اداروں کے سربراہان اپنے ماتحتوں پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں۔ شٖیر فروش دودھ کے نام پر سفید زہر بیچ رہے ہیں۔ دکان دار اپنے گاہکوں کو اینٹھ رہے ہیں۔ قرض لینے والے واپسی کا ارادہ تک بھول جاتے ہیں۔ پڑوسی اپنے پڑوسی کے راز فاش کر دیتا ہے۔ ظالم کون نہیں ہے؟
جب موبائل نہیں تھا تو ہمارے گھرانوں میں اللہ اور رسول کے خلاف اتنی بغاوت نہیں تھی۔ جاہل بھی اللہ سے بے تحاشا ڈرتے تھے۔ ہمارے گھروں میں قرآن کی تلاوت چلتی تھی۔ تہجد کا مزاج بھی بنا ہوا تھا۔ نمازی کسی بھی حال میں ترکِ نماز کا روا دار نہ تھا۔ حرص و ہوس کا دور دور تک پتہ نہ تھا۔ آج ہمارے گھر سینما میں تبدیل ہو گئے۔ مندروں اور چرچوں میں بدل گئے۔ جوا خانے اور زنا کے اڈے بن گئے۔ اب ہمارے گھروں میں اسلام بالکل ویسا ہی اجنبی ہو گیا، جس طرح مکہ میں اپنے ابتدائی دور میں تھا۔ یہ حدیثِ رسول بھی ہے: بدا الاسلام غریباً و سیعود غریباً۔ اتنی ساری برائیوں کے بعد بھی اگر ہم یہی سوچ رہے ہیں کہ ہمارا اچھا دور پھر آئے گا۔ ہمارا تابناک ماضی پھر الٹی زقند لگائے گا۔ ہماری مجاہدانہ تاریخ پھر مرتب ہوگی تو یقین جانیے ہم احمقوں کی جنت میں رہ رہے ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا شان دار دور اور اسلاف جیسی کامیابیاں پھر ہماری قدم بوس ہوں تو عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاق کا ہمیں جامع بننا پڑے گا۔ ہماری پریشانی یہ ہے کہ عقائدِ اسلام سے برائے نام بھی واقف نہیں۔ اصلاح کے عنوان سے کوئی بھی کھڑا ہو ہم اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ کبھی قادیانی ہمیں اچک لیتا ہے۔ کبھی مہدوی پھانس لیتا ہے۔ کبھی شکیلیت شکار کر لیتی ہے۔ کبھی جاہل واعظ اپنی بھیڑ کا حصہ لیتا ہے۔
عبادات میں بھی ہمارا کوئی حصہ نہ رہا۔ رمضان اور جمعہ کے علاوہ ہم کسی عبادت سے واقف نہیں۔ معاملات میں ہماری بے اعتدالی بالکل واضح ہے۔ معاشرت میں ہم جیسا کوئی نااہل نہیں۔ اخلاق سے تو کوئی آشنائی نہیں۔ پھر ہمیں کامل اسلام کی طرف آنا ہوگا۔ پھر انہیں راہوں پر چلنا پڑے گا جن پر ہمارے اکابر کے نقوش آج بھی تازہ ہیں، بصورتِ دیگر عالمِ کفر کا ظالمانہ نظام اسی طرح عروج پر رہے گا اور حضرتِ مہدیؓ سے پہلے کوئی پرسانِ حال نہ ہوگا:
جسے فضول سمجھ کر بجھا دیا تم نے
وہی چراغ جلاؤ تو روشنی ہوگی