Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 26, 2019

مولانا مودودی اور امین احسن اصلاحی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باہمی تعلقات کا ایک روشن زاویہ۔


خالد ہمایوں/ صداٸے وقت۔
=========================
جماعت اسلامی کے بانی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ نے جب اسلام کی دعوت و تحریک کا آغاز کیا تو ان کی آواز پر لبیک کہنے والوں میں مولانا امین احسن اصلاحی نمایاں ترین علمی شخصیت تھے، سرائے میر کے مدرستہ الاصلاح کے فارغ التحصیل، جماعت میں انہیں نائب امیر کا عہدہ دیا گیا۔ انہیں مولانا حمید الدین فراہی ؒ ایسے عظیم دینی سکالر سے شرف تلمذ حاصل تھا۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ مولانا شبلی نعمانی ؒ کو اپنے جن دو شاگردوں پر ہمیشہ فخر رہا، ان میں ایک سید سلیمان ندوی ؒ تھے اور دوسرے حمید الدین فراہی۔ مولانا ندوی نے شبلی کے سیرت النبی کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا تو فراہی نے ’نظم ِ قرآن‘ کا نظریہ پیش کیا، اسی نظریے کی روشنی میں مولانا اصلاحی نے ”تدبر قرآن“ ایسی شاہکار 
تفسیر لکھی ۔

قیام پاکستان کے بعد جب مولانا مودودی ؒ نے جماعت اسلامی کے پروگرام کے چوتھے نکتے (انقلاب قیادت) کو اپنی عملی جدوجہد میں شامل کرنا چاہا تو جماعت کے کچھ اہم افراد نے اختلاف کیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ابھی انتخابی سیاست کے خارزار میں اُترنے کا وقت نہیں آیا، ابھی وابستگان جماعت کی مزید فکری و عملی تربیت ہونی چاہئے۔ اختلاف بڑھا تو ارکان کے درمیان ریفرنڈم ہوا، جس میں اکثریت نے مولانا مودودی ؒ کے موقف پر صاد کیا۔ اس کے بعد چند لوگ جماعت سے علیحدہ ہو گئے، ان میں مولانا امین احسن اصلاحی بھی تھے۔
مولانا اصلاحی الگ ہو گئے، لیکن اختلاف کی گرد نہیں اُڑائی، خاموشی اور وقار کے ساتھ قرآن مجید کے درس اور تفسیر نویسی کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1964 ءمیں جب اپوزیشن نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ایوب خان کے خلاف بطور صدارتی امیدوار نامزد کیا تو مولانا مودودی اور ان کی جماعت نے محترمہ جناح کا ساتھ دیا۔ اس پر مولانا اصلاحی نے اختلاف کا اظہار کیا۔ خیر، تھوڑے دن ماحول غبار آلود رہا، پھر مولانا بدستور اپنی تصنیفی اور تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف ہو گئے۔
مولانا جماعت سے الگ ضرور ہو گئے، لیکن مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے لئے خیر خواہی کے جذبات تادم مرگ ان کے دل میں موجود رہے۔ جماعت کے لوگ ان کے علم و فہم سے مستفید ہونے کے لئے ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہتے تھے۔ 1977ء میں جب اپوزیشن اور ذوالفقار علی بھٹو کے درمیان کشمکش عروج پر چلی گئی اور بظاہر افہام و تفہیم کے سارے دروازے بند ہو گئے، تو اس اثنا میں مولانا مودودی ؒ نے چند ایسی تجاویز پیش کر دیں، جن پر اگر بھٹو صاحب سنجیدگی سے عمل کرنے کی کوشش کرتے تو ملک مارشل لاءکے عذاب سے محفوظ ہو جاتا۔ مولانا اصلاحی مدت سے گوشہ نشین تھے، سیاست کی شورشوں سے عموماً دُور ہی رہتے، لیکن مولانا مودودی ؒ کی طرف سے پیش کی گئی مذکورہ تجاویز ان کے دل کو لگیں۔ انہوں نے مدیر ”وفاق“ مصطفی صادق کے توسط سے مولانا مودودی تک اپنے جذبات پہنچوائے اور کہا: اصلاح احوال کے لئے اس سے بہتر راستہ ممکن نہیں، میری جہاں ضرورت ہو، مَیں حاضر ہوں۔ ان تجاویز پر عمل درآمد سے ملک خون خرابے سے بچ جائے گا۔ 9 اپریل (1977) کو جب مَیں اپنے دوست سمیع اللہ بٹ کے ہمراہ مولانا اصلاحی ؒ کی خدمت میں حاضر ہوا، تو انہیں مولانا مودودی کی تجاویز کے ضمن میں رطب اللسان پایا۔
امریکہ میں مولانا مودودی ؒ انتقال کر گئے، تو اگلے روز مولانا اصلاحی اچھرہ میں واقع مولانا مودودی ؒ کی رہائش پر تشریف لائے اور مولانا کے صاحبزادے حسین فاروق مودودی سے تعزیت کرتے ہوئے کہا: ان کی عظمت کا اندازہ لگایئے کہ مجھ ایسے سخت مزاج کے آدمی کو 17 برس تک برداشت کیا۔
ماہنامہ ترجمان القرآن کے ایک شمارے میں مولانا اصلاحی کی 1976ء کے زمانے کی ایک گفتگو پڑھی تو یادوں کا ایک ہجوم اَمڈ آیا۔ اصلاحی صاحب کے مخاطب سلیم منصور خالد تھے۔ سلیم صاحب نے تھوڑے دن پہلے مولانا کو خط لکھا تھا۔ مولانا کو وہ خط اپنے اسلوب اور مواد کے اعتبار سے پسند خاطر ہوا، فرمانے لگے:
”ہم دُنیا میں لوگوں کے خط اکٹھے کرنے نہیں آئے، ویسے بھی مجھے یہ بات مبتذل سی لگتی ہے کہ دوسروں کے خط سنبھالتے پھرو، لیکن واقعہ یہ ہے کہ آپ کا خط اتنے عمدہ جذبات پر مشتمل تھا کہ مَیں نے اسے سنبھال کر رکھا ہے“۔
سلیم منصور خالد لکھتے ہیں: اس رات اور پھر اگلے روز ناشتے کے دوران مولانا اصلاحی صاحب نے جو گفتگو فرمائی۔ مَیں نے اس کے تفصیلی نوٹس محفوظ کر لئے تھے ، جن میں سے اپنے چند سوالات اور مولانا امین احسن اصلاحی کے جوابات کو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
O مولانا، اگر آپ میری گزارش کو گستاخی پر محمول نہ فرمائیں، تو عرض یہ ہے کہ بعض اوقت افراد پر آپ بڑے سخت الفاظ میں تبصرہ فرماتے ہیں، یوں گاہے چوٹ پر لطف آتا ہے اور بسا اوقات جھٹکا سا لگتا ہے؟
٭….دیکھئے، مَیں بنیادی طور پر ادب کا طالب علم ہوں اور ادب کے ذریعے سے قرآن تک پہنچا ہوں۔ ادب میں تجربے اور مشاہدے کو ٹھیک ٹھیک بیان کرنے کے لئے بعض اوقات الفاظ کے روایتی سانچے ساتھ نہیں دیتے، اس لئے غیر معمولی انداز یا روایت سے ہٹ کر کوئی اسلوب اختیار کرنا پڑتا ہے تاکہ بڑے سے بڑا مضمون مختصر الفاظ میں جملے کا روپ اختیار کر لے۔ اس کے لئے کبھی تو مسجع و مقفی انداز اختیار کرنا پڑتا ہے اور کبھی ایک یا دو سخت الفاظ بھی مضمون کا احاطہ کر لیتے ہیں۔
O آپ کے بعض جملے بڑے گہرے مطالعے کا نچوڑ ہیں، جیسے ،پڑھے کم، لکھے زیادہ، یا دیکھنا، پکنے سے پہلے سڑ نہ جانا، وغیرہ، اس حکمت و دانش کا ماخذ کیا ہے؟ مطالعہ یا مشاہدہ؟
٭….مولانا نے آہ بھری اور گویا ہوئے: بھلا ہمارے نصیب میں کہاں یہ حکمت سے لبریز جملے! یہ اور اس طرح کے متعدد جملے مولانا محمد علی جوہر کی دانش کا مظہر ہیں۔ مَیں تو بس انہیں دہراتا ہوں۔
O جب آپ جماعت اسلامی میں تھے، تو آپ نے مولانا مودودی ؒ کے دفاع میں جس مضبوطی، گہرائی اور شدت کے ساتھ مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے جواب میں مضمون، نئی فرد قرارداد جرم، لکھا، عبدالرشید محمود گنگوہی صاحب کے جواب میں’ جماعت اسلامی پر الزامات اور ان کا جواب، لکھا، ویسا پُرزور اور جارحانہ نثر پارہ پھر دیکھنے میں نہیں آیا۔ اب آپ کا شمار مولانا کے مخالفین میں ہوتا ہے۔ آج جب اتنے سال گزر چکے ہیں، کیا آپ اپنی ان تحریروں، بالخصوص مضمون’ نئی فرد قرارداد جرم‘ کے بارے میں کچھ وضاحت فرمائیں گے؟ اور یہ کہ کیا آج بھی آپ اس تحریر کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں؟
٭…. آپ کے سوال میں دو تین باتیں وضاحت طلب ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے بے باکی سے یہ سوال پوچھ لیا ہے۔
اس میں آپ نے ایک بات تو یہی کہی ہے کہ مَیں مولانا مودودی ؒ کا مخالف ہوں۔ اس غلط فہمی کو دُور کرنے کے لئے نوٹ کر لیجئے کہ مَیں مولانا مودودی ؒ کا مخالف نہیں ہوں، بلکہ ان کے بعض اقدامات اور بعض خیالات میں اتفاق نہیں رکھتا، چونکہ علمی دُنیا میں یہ کوئی انَہونی بات نہیں ہے، اس لئے آپ اس اختلافِ فکر و نظر کو مخالفت کا نام نہ دیجئے۔ واقعہ یہ ہے کہ مَیں نے سماجی زندگی میں شخصی طور پر مودودی صاحب جیسا وسیع القلب اور نفیس انسان بہت کم دیکھا ہے۔ بہرحال وہ ایک انسان ہیں اور اس بشری تقاضے کے تحت ایک دو بار ان کا پیمانہ صبر چھلک بھی پڑا۔
آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ جب مَیں ہمہ وقتی کارکن کی حیثیت سے جماعت اسلامی کے مرکز سے وابستہ ہوا، تو سولہ سترہ سال پر پھیلے اس پورے عرصے میں مودودی صاحب نے میری عزت ِ نفس کا حد درجہ خیال رکھا اور اس امر کا بالخصوص اہتمام کیا۔ مثال کے طور پر ایک اسی بات کو لیجئے کہ انہوں نے میرے ماہانہ اعزازیے یا ضرورت کے وظیفے کو کسی رجسٹر میں درج نہیں کیا اور نہ اس کی وصولی کے لئے مجھ سے کبھی دستخط لئے، حالانکہ باقی سب ہمہ وقتی کارکنوں کا اعزاز یہ لکھا جاتا تھا۔ براہ راست ناظم مالیات کے ذریعے دیا جاتا تھا اور رسید وصولی پر دستخط بھی لئے جاتے تھے، مگر اس پورے عرصے میں مولانا مودودی ؒ نے مجھے براہ راست کبھی رقم نہیں دی اور یہ خیال رکھا کہ کہیں اس طرح مجھے ان کے زیر احسان ہونے کا احساس نہ ہو، بلکہ وہ ضرورت کے وقت یا متعین اوقات میں یہ رقم اپنی اہلیہ کے ذریعے میری اہلیہ کو پہنچا دیا کرتے تھے۔ آپ کو یہ بات سن کر شاید آج تعجب ہو کہ مَیں نے بھی پورا عرصہ اپنی اہلیہ سے یہ سوال نہیں کیا کہ کتنا اعزازیہ یا کتنی رقم بھجوائی گئی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ ایسی ناز برداری انہوں نے فقط میری ہی کی۔ حالات و واقعات کے تمام اُتار چڑھاﺅ کے باوجود، آج تک اس چیز کی میرے دل میں بڑی قدر ہے۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ کسی کی ایسی ناز برداری تو اس کی بیوی اور اس کے بچے بھی نہیں کر سکتے۔ پھر یہ بھی ہے کہ میری سخت سے سخت تنقید اور کڑے سے کڑے تبصرے کا، انہوں نے مجلس شوریٰ، اجتماعی یا انفرادی ملاقات تک میں مجھے کبھی دوبدو جواب نہیں دیا، بلکہ کم سے کم الفاظ اور نرم سے نرم لہجے میں جواب دینے کی کوشش کی۔ گاﺅں کی اس خاموش فضا میں جب مَیں سو چتا ہوں کہ اگر مَیں کسی کے ساتھ ایسا حسن ِ سلوک کرتا اور وہ جواب میں میرے ساتھ ایسا رویہ اختیار کرتا تو میرے لئے اس کے ساتھ سلسلہ کلام تک برقرار رکھنا مشکل اور سماجی تعلق کو نبھانا ناممکن ہو جاتا، لیکن مودودی صاحب نے طویل عرصے تک بڑی ثابت قدمی سے رفاقت اور دوستی کے اس تعلق کو نبھایا، لیکن جب میرے سامنے یہ دوراہا آیا کہ: ایسے ناز بردار اور شفیق دوست کا ساتھ دوں یا جس چیز کو درست سمجھتا ہوں اسے منتخب کروں؟ تو لامحالہ مَیں نے پہلی چیز کی قربانی دی اور دوسری چیز کا انتخاب کیا اور جہاں تک آپ کے سوال کے اس حصے کا تعلق ہے کہ مَیں نے مولانا مودودی ؒ کے دفاع میں جو تحریر لکھی، اس پر آج میرا کیا موقف ہے؟ تو اِس سلسلے میں دو چیزیں ذہن میں رکھیے: پہلی بات یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور مولانا مودودی ؒ کے خلاف جب پے در پے مضامین شائع ہوئے، تو ان خلاف ِ واقعہ باتوں کا جواب دینے کے لئے کسی کے کہنے یا توجہ دلانے پر نہیں، بلکہ سرا سر اپنے ذاتی ارادے سے مَیں نے وہ دو تین مضامین لکھے، جن کی جانب آپ نے اشارہ کیا۔ ایک مضمون تو مَیں نے اپنے دوست مولانا محمد منظور نعمانی صاحب کے مضمون پر لکھ کر ترجمان القرآن میں اشاعت کے لئے دیا، تو مودودی صاحب اسے بعینہ شائع کرنے میں متردّد تھے۔ انہوں نے کہا:’اِس کی شدت ِ بیان کو نرم کرنا پڑے گا‘۔ مَیں نے کہا:’ آپ مدیر ہیں، مناسب حد تک اپنا اختیار استعمال کر لیں‘۔ مودودی صاحب نے میری اس تحریر کو اتنا نرم بنا دیا کہ اس پر مَیں نے انہیں کہا: ”اب آپ اسے اپنے ہی نام سے شائع کیجئے“۔ لیکن بنیادی مضمون تو بہرحال میرا تھا، اس لئے ادارتی تدوین کے بعد وہ میرے ہی نام سے شائع ہوا۔
اس موقعے پر، یہ حقیقت مجھ پر واضح ہوئی کہ مودودی صاحب اپنے دفاع کے بارے میں نہ تو متفکر ہیں اور نہ اس کے حریص ہیں، بلکہ بے نیاز ہیں۔ کوئی اور ہوتا تو اس تحریر پر کئی بار ممنونیت کا اعتراف کرتا، لیکن مولانا مودودی ؒ نے مضمون شائع کرنے کے بعد ایک بار بھی یہ نہیں کہا کہ: ’آپ نے بہت خوب لکھا‘۔ بس ایک مضمون انہیں ملا اور وہ انہوں نے شائع کر دیا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ دفاع مَیں نے مولانا مودودی ؒ کا نہیں کیا تھا، بلکہ اپنا دفاع کیا تھا۔ وہ تنقید میرے امیرجماعت پر ہوئی تھی۔ دوسروں کے بارے میں تو مَیں کہہ نہیں سکتا، لیکن جب تک مَیں جماعت میں رہا ہوں، جماعت کی امارت کے لئے مَیں نے ہر بار اپنی رائے انہی کے حق میں دی تھی۔ اس لئے میری غیرت یہ گوارا نہیں کر سکتی تھی کہ میرے امیر پر کوئی بے بنیاد الزام تراشی کرے اور میرا قلم گواہی دینے کے بجائے خاموشی اختیار کئے رہے، اس لئے دراصل یہ مَیں نے ان کا نہیں، بلکہ اپنا دفاع کیا تھا اور آج بھی اپنے اس جواب پر قائم ہوں۔
سلیم منصور خالد لکھتے ہیں: جب یہ گفتگو اپنے نقطہ عروج پر پہنچی تو مولانا امین احسن صاحب نے بڑی وارفتگی سے بلیغ جملہ ارشاد فرمایا:” اب ہر کَہ و مہ مودودی صاحب کے علم کو چیلنج کر رہا ہوتا ہے اور انہیں ہدف ِ تنقید بنا رہا ہوتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اس ملک میں میرے سوا کسی کو ان پر تنقید کا حق نہیں پہنچتا“۔