Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, August 26, 2019

شریعت پر چلنے کا فیصلہ ہمیں خود کرنا چاہٸے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسلم پرسنل لا بورڈ۔

*شریعت پر چلنے کا فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے*
#مسلم_پرسنل_لا_بورڈ کے دو روزہ ورکشاپ میں حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب کا بیان
کولکاتا۔۔۔صداٸے وقت/ذراٸع۔.
=========================
کولکاتا میں منعقد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے دو روزہ تفہیم شریعت ورکشاپ کے پہلے دن عالیہ یونیورسٹی ہال کی ایک نششت سے خطاب کرتے ہوئے مجلس استقبالیہ تفہیم شریعت ورکشاپ مغربی بنگال کے کنوینر اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے معزز رکن حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب نے اپنے افتتاحی کلمات میں کہا کہ شریعت پر چلنے کا فیصلہ مسلمانوں کو خود کرنا ہوگا, حکومت کی روش کو ہم اپنی مجبوری بنا سکتے ہیں نہ ہی قبول کر سکتے ہیں ۔ جہاں ہر دور میں حکمرانوں نے اپنی طاقت کا بے جا مظاہرہ اور غلط استعمال کیا ہے وہیں ہر دور کے مسلمانوں نے بھی شریعت کے پرچم کو بلند رکھنے میں کوئی کسر 
باقی نہیں رکھی ہے .

حضرت مولانا ابو طالب رحمانی صاحب نے  کہا کہ ظلمت کی آندھیاں قیامت تک چلتی رہیں گی وہیں دین اسلام کا چراغ بھی قیامت تک روشن رہے گا , انہوں نے مزید فرمایا کہ مسلمان حوصلہ رکھیں دنیا کے ہر کچے اور پکے مکانوں میں اسلام داخل ہوکر رہے گا۔ *مسلمان اجتماعی اور انفرادی طور پر پوری طاقت سے یہ فیصلہ کرے کہ ہم اپنے وطن عزیز ہندوستان کی معزز عدالتوں اور پولس تھانوں پر جھگڑے او مقدموں کا بوجھ نہیں ڈالیں گے , عدالت میں کروڑوں مقدمات زیر التوا ہیں, جج حضرات کو آرام کا موقع نہیں ملتا ہے, پولس تھانوں میں پولس کی نوکری کرنے والے ہمارے ہندوستانی بھائی بہن لوگوں کے جھگڑے, ٹرافک نظام ,سیاست کے لنگڑے لولے بیانات کی الجھن , روز کے چھوٹے بڑے فتنے فساد اور ملک میں سازشی طور پر شر پھیلانے والے لوگوں سے نپٹتے نپٹتے پولس والوں کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ ان کی زندگی میں آرام اور چھٹی نام کی کوئی چیز نہیں, ان کے بیوی بچے ان کی نگرانی اور محبتوں سے محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں. ایسی صورت میں مسلمان اپنے معاملات کو اپنے گھروں میں اپنے بزرگوں سے مل کر دار الافتاء اور دار القضاء کے مشورہ سے سلجھا لیں تو ہندوستانی عدالت اور پولس محکمہ پر بڑا احسان ہوگا*.
شرعی قوانین کے واقف کار سپریم کورٹ کے وکیل جناب ایم آر شمشاد صاحب نے کہا کہ جب بھی طلاق وغیرہ کا کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو سیدھے طلاق ہی کی بات ہوتی ہے نکاح کی بات نہیں کی جاتی اگر اس معاملہ میں پہلے نکاح کی بات کی جائے تو شاید اس سے عدالت کو بھی مسئلہ کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ نکاح سے نکلنے کے جو مختلف طریقے ہیں طلاق اسی دائرہ کا ایک چھوٹا سا پہلو ہے ۔عوام میں یا عدالتوں میں نکاح کو ختم کرنے کا جو طریقہ ہے اس کے صرف ایک ہی طریقہ پر بات ہوتی ہے سسٹم  کا جو قانون ہے وہ ہندوستان کے دستور سے نکلا ہے۔ *ایک ہی وقت ایک ہی محفل میں تین طلاق بول کر نکاح ختم کرنے کے مسئلہ پر بات تو ہوتی ہے لیکن اس کے اور بھی طریقے ہیں اس پر بات نہیں ہوتی. ایم آر شمشاد صاحب نے بتایا کہ نکاح ختم کرنے کے نو(٩) طریقے ہیں لیکن صرف ایک ہی طریقہ پر بات ہوتی ہے اور یہی طریقہ عام طور پر مشہور ہو گیا ہے* ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد تین طلاق قانون کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ہندوستان کی حکومت کے ذریعہ بنایا گیا قانون تین طلاق ایک بہت ہی غیر مناسب قانون ہے جس میں ایک پرسنل اور ذاتی معاملہ کو جس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس کو جرم قرار دیا گیا ہے اور اس جرم کی بہت سخت سزا متعین کی گئی ہے اس طرح کے الفاظ جو سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد بے معنی ہو چکے ہیں اس میں جرم اور سزا کو جوڑنا بہت ہی غیر مناسب بات ہے۔
امارت شرعیہ پٹنہ کے مفتی جناب سعید الرحمان صاحب نے وراثت میں عورتوں کے حقوق کے موضوع پر بات کرتے ہوئے فرمایا کہ *اسلام میں بہت سی حالتیں ایسی ہیں جس میں عورتوں کو مرد سے زیادہ حصہ ملتا ہے اور صرف چند حالتوں میں  مرد کو جہاں اسلام میں عورتوں کے مقابلہ زیادہ حصہ دیا وہ اس لیے کہ مردوں پر مالی بوجھ زیادہ ہے اور عورتوں پر کوئی مالی ذمہ داری نہیں ہے* ۔ اسلام نے عورتوں کے حقوق کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ عورتیں مقدس اور پاکیزہ ہستی ہیں ان کے حقوق کی رعایت بھی ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔
آرگنائزر تفہیم شریعت کمیٹی مفتی تبریز عالم صاحب نے اپنی مختصر تعارفی کلمات کے درمیان کہا کہ *اس ورکشاپ کا یہ مقصد ہے کہ ملک کے اندر مسلم پرسنل لا کے معاملہ میں جو غلط فہمیاں پھیلی ہوئی ہیں وہ دور ہوں*۔ اس سے قبل آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے تعدد ازدواج کے موضوع پر تفصیلی روشنی ڈالی اس کے علاوہ اس ورکشاپ میں مولانا قاری شمس الدین صاحب قاسمی , مولانا شرافت ابرار صاحب قاسمی , مولانا حکیم عبد الرحمان صاحب جامی, مولانا ضیاء الدین صاحب قاسمی , مولانا تبو طلحہ صاحب قاسمی , محمد رافع محمود صدیقی , محمد نور الدین, مفتی محمد شمس تبریز صاحب قاسمی, قاضی فلاح الدین صاحب قاسمی , قاضی ضمیر الدین صاحب قاسمی  اور دیگر علماء اس ورکشاپ میں موجود تھے.