Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 6, 2019

کشمیر میں عجلت پسندی۔۔۔معاشی بحران یا ٹرمپ کے مداخلت کا نتیجہ ہے ؟؟؟


- ضیاء الدین صدیقی، اورنگ آباد/صداٸے وقت۔
=========================
جب سے امریکی صدر ڈونالڈٹرمپ نے درمیانے کا کردار ادا کرنے کی بات کہی ہے ہر طرف ہڑکم مچ گیا ہے، ہر چیز عجلت پسندی کے ساتھ کی جا رہی ہے ،پہلے 11000نیم فوجی دستوں کی کشمیر روانگی ، پھر جھوٹ بول کر سیاحوںاور امرناتھ یاتریوں کو جلد وادی چھوڑنے کے احکامات، دوبارہ  25000 فوجیوں کی تعیناتی ، مقامی پولیس کو بےاختیار کردینا ،انٹرنیٹ ‘موبائل فون یہاں تک کہ لینڈ لائن فون کی خدمات بھی معطل کر دی گئی ہے ۔مین اسٹریم سیاستدانوں کی گرفتاریاں ،دفعہ 144 کا نفاذ اور کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہونے والاہے ۔5؍اگست2019 کو گیارہ بجے تک لوگوں کو یہ معلوم نہ تھا کہ کیا ہونے جارہا ہے ،لیکن یہ احساس تھا کہ 

کچھ بڑا ہونے جارہا ہے۔
وزیر داخلہ امیت شاہ نے راجیہ سبھا میں ریاست جموں و کشمیر کو دو ’’یونین ٹریٹری ‘‘میں تقسیم کرنے کاResolutionپیش کیا ۔ساتھ ہی  دفعہ370 کو بنیاد بنا کر اس کے کئی دفعات کو ختم کردیا گیا ۔ دفعہ 370 کی پہلی شق یہ ہے کہ’’ صدرجمہوریہ ‘ریاست جموں وکشمیر کے عوام کے ذریعے چنےہوئے نمائندوں سے ملکر دستور ہند کی دفعات ریاست میں نافذ کر سکتا ہے ۔‘‘ اس تبدیلی کے اطلاع نہ اپوزیشن کو دی گئی اور نہ قبل از وقت ’ڈرافٹ ‘تقسیم کیا گیا ۔تجویز کے دو گھنٹے بعد ’ڈرافٹ ‘ممبران کو دیا گیا اور دو گھنٹے کے اندر ہی رائے شماری کرکے اسے پاس کیے جانے کے اطلاع دی گئی ۔سیاسی جماعتوں سے بات ہوئی نہ کشمیریوں سے صلاح مشورہ ،نہ خود اپنی جماعت کے اہم لوگوں کو اعتماد میں لیا گیا ۔اس طرح تاناشاہی کا ’’دستوری تماشا ‘‘ایوان بالامیں مشاہدہ کیا گیا۔
لداخ کو مرکز کے تحت یونٹ طئے کیا گیا اور اسے اسمبلی نہیں دی گئی ۔جموں الگ سے ریاست کا مطالبہ کر رہا تھا اسے کشمیر کو بیلنس کرنے کے لیے ساتھ جوڑا گیا اور ریاست کے درجے سے مرکزی قطعہ بنا دیا گیا ،گویا وادی کے آبادی کو ’’متوازن ‘‘رکھنے کے لئےاب  جموں کے لوگوں کو استعمال کیا جائے گا ۔
دفعہ 370 کے تحت ریاست کو مخصوص درجہ دیا گیا تھا لیکن ماضی میں عملاً اس کی دی ہوئی تمام سہولتیں صدارتی Resolutionکے تحت دھیرے دھیرے ختم کردی گئی تھی۔ دفعہ 370 ایک ’’کھوکھلا ڈبہ‘‘ تھا جسے گذشتہ کل ختم کردیا گیا ۔ دفعہ 370 میں ایک آرٹیکل 35-A صدارتی احکامات کے تحت 1954میں جوڑ دیا گیا تھا ،آج اسے بھی ختم کردیا گیا ،جس کے تحت ریاست کے باہر کا کوئی شخص وہاں زمین جائیداد خرید نہیں سکتا ، اور نہ کاروبار کر سکتا تھا،وہاں کی نوکری حاصل نہیں کرسکتا تھا اور نہ وہاں کے اعلی تعلیمی اداروں میں داخلہ لے سکتا ۔لیکن ایسا کچھ کبھی ہوا بھی نہیں بلکہ بڑے کارپوریٹ ہاؤس اپنی ہوٹلس و کاروبار برسوں سے وہاں جاری رکھے ہوئے ہے ،باہر کے کیڈر کو وہاں اہم مناصب پر دیکھا جارہا ہے۔
عملاً دفعہ 370 اور 35A  کے ہٹنے سے کیا ہوجائے گا ؟پہلے ہی کیا تھا کہ ان کی موجودگی میں اب کچھ کر لیا جائے گا ۔ وزیر داخلہ جانتے ہیں کہ عملی صورتحال بدلنے والی نہیں ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ الٹا معاملہ شروع ہو جائے ،شدت پسندی کا اضافہ بھی ہوسکتا ہے ،مین اسٹریم سیاست دانوں کاساتھ بھی علاحدگی پسندوں کو مل بھی سکتا ہے ،گویا بھارت کا جو جزوی عوامی رابطہ ریاست سے تھا وہ بھی ختم ہوسکتا ہے ۔فوجی رابطہ تو ہے لیکن قوت کی زبان کب تک بولی جائیں گی ،اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ لیکن موجودہ ارباب اقتدار کو انسانوں سے زیادہ زمین اور قطعے کی پڑی ہے، جس طرح انسانوں سے زیادہ جانوروں کی اہمیت بڑھ گئی ہے ۔بس آر ایس ایس کے ایک سپنے کو ’’ساہکار ‘‘کرنے کے لیے یہ سب ڈرامہ بازی ہوئی ہے ۔جس میں خود بھارتی دستور کی دھجیاں اڑائی گئی ہے ۔بی جے پی کا کہنا ہے کہ کانگریس نے بھی ان Resolutionsکو ایسی ہی لایا تھا ،اس کا مطلب ہے کہ غلطی ‘ غلطی کے لیے جواز فراہم کر رہی ہے ۔اگر انہوں نے دستور سے کھلواڑ کیا تو آپ کو بھی کیسے جواز مل گیا کہ آپ بھی وہی غلطی دہرائے ۔کسی کی غلطی کو جواز بناکر آپ کی غلطی صحیح نہیں ہو جاتی ۔یہ عجیب منطق ہےکہ دوسرا غلطی کرے تو ہم بھی وہی کریں گے اور سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بھارت میں معاشی بحران کی آمد شروع ہو گئی ہے ،بھارتی تجارتی گھرانوں نے ایک کے بعد ایک دیگرے اس کی دستک سن لی ہے اور حکومت کو توجہ دلائی ہے ،اقتدار کے نشے میں چور ارباب کو بھی یہ آواز سنائی دے رہی ہے جوکہ ان کے غلط رویوں کے نتائج ہے ،اس سے پردہ پوشی کے طور پر ایک’’ بڑی گھٹنا‘‘ بنا کرکشمیر کے مسئلہ کوبعجلت لایا گیا ہے ۔
دوسرے خیال کے مطابق امریکی صدر نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے کشمیر میں ’’حکم ‘‘ (Arbitrator)بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، اس واقعے کو ٹرمپ نے دوبارہ دہرایا ہے ۔جسے بھارتی سیاست میں شاید اسے مداخلت سمجھا جارہا ہوں ۔ہمارے تعلقات امریکہ سے تو بہت خوب ہے لیکن ٹرمپ کا انداز پاکستان کی طرف جھکاؤ کا اشارہ دے رہا ہے، یہ جھکاؤ شاید افغانستان -امریکہ بات چیت کے پس منظر میں ہوں بہرحال اس سے’’ بھارتی کوٹ نیتی ‘‘متاثر ہوتی نظر آتی ہے ۔اس سے پہلےکہ کوئی ’’امریکی فرمان ‘‘ہمارے سرآجائے یہ عجلت کشمیر کو دولخت کر گئی ۔
آخری بات یہ ہے کہ ان تبدیلیوں سے وادی کی شدت پسندی پر کیا اثر پڑیگا ؟گزشتہ کل ایوان بالا میں کچھ ممبران نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے ہم ایک نئی فلسطین کو جنم دے رہے ہے ۔کشمیر پر جتنے بھی ماہر ین لائے گئے ہیں ان سب کی یہی رائے ہے کہ حالات میں درستگی یہ وقت کی بات ہے اور یہ ڈرامہ کسی اور وجہ سے رچاگیا ہے ۔ کل کے احوال کو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہوگا ہم تو بس اندازے ہی لگا سکتے ہیں۔