Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 13, 2019

یوم آزادی کے موقع پر۔۔۔۔۔۔۔۔آزادی بھارت کے باشندوں کا ایک دیرینہ خواب تھا۔

آزادی، بھارت کے باشندوں کا ایک دیرینہ خواب تھا جو جہد مسلسل اور طویل جنگ کے بعد شرمندہ تعبیر ہوا!

 محمد سیف الاسلام مدنی!/صداٸے وقت۔
=========================
۱۵/اگست بھارت کی تاریخ کا عظیم ترین دن ہے اس دن پورے ملک میں،جشن آزادی منایا جاتا ہے، بھارت کے باشندے جانتے ہیں کہ ۱۵/ اگست ہی وہ تاریخ ہے جب بھارت انگریزوں کی حکومت سے آزاد ہوا تھا، بھارت کی تاریخ بہت قدیم ہے،
مغلوں کے دور حکومت کے بعد بھارت پر دھیرے دھیرے انگریزوں نے قبضہ کرلیا، یہاں کے باشندوں کو غلام بنالیا گیا، انکے ساتھ ظلم و زیادتی کی ایسی داستاں رقم کی گئی،  جن میں زیادہ تر مسلمان تھے، ایسا تشدد کیا گیا، جس پر خود منصف مزاج انگریز، مورخین بھی خاموش نہ رہ سکے اور کہہ گئے کہ جو ظلم بھارت کے باشندوں کے ساتھ کیا گیا،ایسا ظلم حقوق انسانیت سے عاری اور ہیومینٹی کے خلاف ہے!
ایک طویل جدوجہد اور صدیوں کے جنگ کے بعد اس ملک کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد 
کرالیاگیا!

یہ ایک تاریخی حقیقت اور ناقابل  فراموش سچائی ہے کہ مسلمانوں نے ہی سب سے پہلے اور سب سے زیادہ اس ملک کو آزاد کرانے کی کوشش کی، اور اپنی آنکھوں میں اپنے پیارے وطن کی آزادی کے خواب سجائے، اور اس بات کو محسوس کیا، کہ جس ہندوستان سے ہماری قدیم تاریخ وابستہ ہے،
جہاں ہمارے آباء و اجداد صدیوں سے رہتے چلے آرہے ہیں،  جہاں ہماری حکومت رہی ہے، اور ملک کو امن وامان کے ساتھ ہم نے چلایا، آج وہ ہندوستان انگریزوں کے قبضہ میں ہے، غلامی کبھی مسلمانوں کو راس نہ آئی اسی جذبہ کو لےکر، سب سے پہلے مسلمانان وطن آگے بڑھے،  سخت ترین اذیتوں کو جھیلا، خطرناک سزاؤں کو برادشت کیا، طرح طرح کی مصیبتوں سے دوچار ہوئے، حالات و آزمائشوں میں گرفتار ہوئے، لیکن برابر آزادی کا نعرہ لگاتے رہے اور ہر ہندوستانی کو بیدار کرتے رہے، کبھی میدان سے راہ  فرار اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی موقع پر ملک ووطن کی محبت میں کمی آنے دی،
ایک عظیم مؤرخ رقم طراز ہیں کہ:ہمارے آباء و اجداد نے ہندوستان کی عظمت اور آزادی کو پامال کرنے والی اس سفید فام قوم کو اپنے رگوں کے خون کے آخری قطرے تک برادشت نہیں کیا، ہندوستان میں بسنے والی ہندوستانی قوم جو مختلف مذاہب اور مکتبہ  فکر کی تہذیب اور تمدن کے مختلف ومتضاد عناصر کو لے کر وجود میں آئی تھی، اس کی عزت و حرمت بچانے کے لئے پہلے پہل ہم نے خود اپنی ذات کوقربانی کے لئے پیش کیا،
مسلمان ہند اور برادران وطن کی مشترکہ جد وجہد سے انگریزوں کازوال شروع ہوا،حکومت برطانیہ کا لارڈمیکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کاایک پروگرام بنایا،اس نے کہا:”میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجوایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگامگردماغ گورایعنی انگریزکی طرح سوچے گا ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے الله تعالیٰ نے چندشخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمه الله کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء
اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمه الله نے ایک تحریک چلائی،جس کوتحریک دیوبندکہاجاتاہے،جگہ جگہ مدرسہ قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقاء (حاجی عابدحسین دیوبندی رحمه الله ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی رحمه الله ، مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمه الله اورمولانارفیع الدین رحمه الله وغیرہم)کی مددسے۱۵  محرم ۱۲۸۳ھ مطابق ۳۰مئی ۱۸۶۶ء جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دارالعلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ”ازہرہند“کہلائی اورجسے دارالعلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمه الله  ”دارالعلوم دیوبندہندوستان میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے،دارالعلوم دیوبند نے ایسے وقت میں ہندوستانی مسلمانوں کے اسلامی شناخت کو تحفظ فراہم کیا، اور پورے ملک میں، اسلام کی ہوائیں چلائی بالآخر ۱۸۵۷ کی ناکامی کے بعد ہندو مسلم اور تمام برادران وطن نے مل کر انگریزوں کے خلاف علم بغاوت بلند کی، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ، جتنی قربانیاں مسلمانوں نے دی ہے کسی اور طبقہ نے اتنی قربانی نہیں دی، جتنا مسلمانوں نے اپنا خون بہایا ہے، اغیار نے اتنا اپنا پسینہ بھی نہیں بہایا ہوگا،  سنہ ۱۹۴۷ ء میں ہندوستان آزاد ہوگیا، دہلی کے ریڈ فورٹ پر ترنگا، لہرادیا گیا، اور بھارت کے باشندوں کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا،
بھارت آزاد ہوگیا آج بھارت کی آزادی کو ۷۲ سال ہوگئے یہ ایک لمبی مسافت ہے جس دوران قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ رقم ہوتی ہے ملک تو آزاد ہوگیا لیکن جو آزادی کا معنیٰ تھا جس نظریہ پر ملک کو آزاد کرایاگیا تھا، آزادی کے فوراً بعد ہی اس نظریے کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں،
دہلی کے اندر مسلم کش فسادات ہوئے پورے ملک کی فضاء مسموم کردی گئی، تقسیم کا زخم ابھی بھرا بھی نہ تھا کہ پورے ملک کے اندر ہندو مسلم نفرتوں کی فضاء چلا دی گئی جب ایک منصف مزاج تجزیہ نگار بھارت کے ان بہتر سالوں کا تجزیہ کرتا ہے تو بلاشبھ یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس ملک کی اکثریت کی جانب سے ہمیشہ اقلیتوں پر اور بالخصوص مسلمانوں پر
مظالم ڈھائے گئے، انکی معیشت کو تباہ کیا گیا انکی امیج کو گندہ کیا گیا، انکی نسل کشی کی گئی موجودہ سرکار میں ایک طبقہ اکثر اس ملک کو ہندو راشٹ کی نظر سے دیکھنے لگا ہے، نت نئے مسائل پیدا کرکے مسلمانوں کو پریشان کیا جارہا ہے انکے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے، کیا اسی لئے آزادی دلائی گئی تھی کہ ملک کے مختلف طبقوں کو پریشان کیا جائے انکو بے قصور جیلوں کے اندر ڈال دیا جائے انکو سر راہ ہجوم کے ذریعہ پر تشدد طریقے پر ہلاک کردیا جائے ریپ اور قتل کے مجرمین کی پشت پناہی کی جائے قانون کے ساتھ کھلواڑ کیا جائے نفرتوں کو پرموٹ کیا جائے اقلیتوں کو انکے حقوق سے محروم کیا جائے! یہ چند سوال ہیں جو بھارت میں اقلیتوں کے مستقبل پر سوال کھڑے کرتے ہیں کہ آخر اس ملک میں کب امن وامان کو ہوا چلےگی انصاف اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی!
آزادی کا حقیقی جشن تو اسی وقت منایا جائےگا، جب ہمارا ملک خانہ جنگی سے نکل کر بین المذاہب رواداری کو عام کرےگا، اقلیتوں کو انکے حقوق دئے جائیں گے، مجرموں کو سزا دی جائے گی اور قانون کی بالادستی قائم ہوگی میں درخواست کرتا ہوں بھارت کے اصحاب اقتدار سے کہ وہ ملک کے موجودہ صورت حال کی نزاکت کو سمجھیں اور ایسی حرکتوں سے باز آئیں جس سے ہمارے ملک کی بنیادیں کمزور ہوتی ہے!