Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 13, 2019

کتنی بربادی مقدر میں تھی آبادی کے بعد۔


از/شرف الدین عظیم/صداٸے وقت/عاصم طاہر اعظمی۔
=========================
پندرہ اگست کی تاریخ بھارت کے لئے قومی عید کے دن کی حیثیت رکھتی ہے'،پورا ملک  اظہار جذبات کی صد رنگ صدا ؤں سے ہر سوگونج اٹھتا ھے، قومی وملی ترانوں کے نغموں سے وطن کی فضاؤں میں رنگین سماں پیدا ہوجاتاہے، ایوان  اقتدار کی وسیع وعریض سنگی  عمارتوں سے لیکر اسکول وکالج اور مدارس و یونیورسٹیوں کی پیشانیاں ترنگے جھنڈوں سے اس طرح آراستہ ہوجاتی ہیں جیسے کسی شہزادی وقت کے تاج پر طاؤس کے پروں کا کلس،
خوشی ومسرت کے اس سنہرے ماحول میں تاریخ آشنا اذہان جب ماضی کے دشت و صحرا میں سفر کرتے ہیں، عشق و وفا کی خار زار راہوں میں کاروان حریت کے نقش ہائے جنوں پر نظر پڑتی ہے، شمشیر وسناں اور آتش وآہن کی فضاؤں میں صدیوں سے  آزادی کی شمع پر جان ومال کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے آبلہ پا قافلہ جنوں کی فرزانگی وسرفروشی کی صورت میں
شوق شہادت کے مناظر دیکھتے ہیں تو اس پس منظر کی روشنی میں اور موجودہ حالات کے تناظر میں روشنیوں میں نہائی ہوئی ملک کی فضائیں ان گھٹاؤں کی طرح معلوم ہوتی ہیں جن کے اندر موسلادھار شبنمی قطروں کے بجائے بےتاب شعلوں کا سمندر موجزن رہتا ہے، قوس و قزح کے رنگوں میں غرق عمارتیں ان جذام زدہ اجسام کی طرح لگتی ہیں جنہیں سفید کپڑوں میں ملبوس کردیا گیا ہو یا ان سفاک چہروں کے مانند نظر آتی ہیں جن کی جارحیت اور حیوانیت کو مصنوعی غازے سے چھپا دیا 
گیا ہو۔۔

1947ء میں ہندوستان کے افق پر آزادی کا سورج صدیوں پر محیط طویل تاریکیوں کے بعد طلوع ہوا تھا، وہ تاریکیاں۔۔جس میں برطانوی سامراج کے استعماری شکنجوں میں انسانیت اس طرح جکڑ چکی تھی کہ روشنی کی کہیں کرن بھی نظر نہیں آتی تھی،غلامی کے طوق میں پورا ہندوستان سسک رہا تھا،فکر و نظر کی آزادیاں سلب ہوچکی تھیں،سرزمین ہند کا چپہ چپہ انسانوں کے لہو سے سرخ ہوچکا تھا،وقت کے اس سفاک اور حوصلہ شکن ماحول میں ملت اسلامیہ ہند کے فرزندوں  نے سر پر کفن باندھ کر انگریزی غاصبوں کے خلاف آزادی کی مشعل روشن کی،    ایسٹ انڈیا کمپنی کی سازشی ہواؤں میں اپنے لہو کے ذریعے ہر محاذ پر تنہا اسے روشن رکھا،
سترہویں صدی کے اواخر میں تجارت کے حوالے سے ہندوستان میں داخل ہونے والی ایسٹ انڈیا کمپنی 1757تک سیاسی اور اقتصادی لحاظ سےاس قدر مستحکم ہوچکی تھی کہ اس کے کارندے ملک کی اہم اہم سیاسی عہدوں پر فائز ہوچکے تھے مختلف مقامات پر ان کی مکمل حکمرانی ہوچکی تھی اس صورت حال کے خلاف حکومتی پیمانے پر نواب سراج الدولہ نے جنگ کا اعلان کردیا اور بنگال میں پہلی مرتبہ انگریزوں نے کھل کر حکومت پر حملہ کیا اور چند غداروں کی ضمیر فروشی کی بدولت انگریزی فوج نے 1757ء میں نواب سراج الدولہ کو ان کے دارالحکومت مرشد آباد میں شہید کردیا اور پورے بنگال پر قابض ہوگئی ، انگریزوں کی بڑھتی ہوئی طاقت دیکھ کر جنوبی ہند میں حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے آزادی کا محاذ سنبھالا،مختلف میدان کارزار میں انگریزوں کو شکست سے دوچار کیا ،ان کے ناپاک منصوبوں کو خاک آلود اور  ان کی جارحیت و سامراجیت سے ملک کو محفوظ  کرنے کے لئے فرمانروائے میسور نے علاقائی نوابوں راجوں مہاراجوں سے اتحاد کی ان تھک کوشش کی،ان سے رابطے کئے،خلافت عثمانیہ سے اس سلسلے میں خط وکتابت کی مگر کمپنی کی شاطرانہ چالوں کا جال اور سازشی کمندیں تمام محلات اور شاہی قلعوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی تھیں باوجود اس کے اس شیر ہند نے تنہا دشمنوں سے معرکۂ کارزار کو گرم رکھا،وطن کی حفاظت کے لئے اس نے دن کا آرام اور رات کی نیندوں کو قربان کردیا،دو بچوں کو انگریزی یرغمال میں دے دیا،اپنی سلطنت کی زمینوں اور کثیر مقدار میں تاوان کی ادائیگی پر مجبور ہوئے، مگر اب بھی اس بطل حریت کی زندگی میں مصالحت کا کوئی خانہ نہیں تھا ، انگریزوں کی زمیں دوز کارروائیاں تھیں کہ بہت سرعت اور منظم انداز میں جاری تھیں، ضمیر وظرف کی سوداگری کا سلسلہ زوروں پر تھا بالآخران سازشی سرگرمیوں نے اپنا اثر دکھایا اور سرنگا پٹنم کی فیصلہ کن جنگ میں سلطانی فوج کے کمانڈر میر صادق کی غداری نے سلطنت میسور بھی 1799ء میں برطانیہ کے حوالے کر دی،  اب ایسٹ انڈیا کمپنی کو چیلنج کرنے والی کوئی طاقت باقی نہیں تھی،ان کے فتوحات کی سرگرمیاں سیلاب کی طرح بڑھ رہی تھیں۔ہزاروں افراد کو قتل کردیا گیا تھا،علاقائی حکمرانوں نے انگریزوں کی مخالفت کا خیال دل سے نکال دیا تھا، یہ صورت حال جس قدر سنگین اور مایوس کن تھی اسی قدر شرمناک بھی تھی
لیکن اسی خوفناک ماحول میں بر صغیر کے عظیم محدث شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے بنائے ہوئے خاکے میں رنگ بھرنے کے لئے ان کے جانشین شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے 1803ء میں جہاد کا فتویٰ دیا اور 1808ءمیں اپنے بہت سے متوسلین کو معتمد خاص اور معتقد سید احمد شہید کے ساتھ جسونت راؤ ہولکر دوست نواب امیر علی خاں کی فوج میں آپ نے شامل کردیا نواب امیر خاں کی انگریزوں سے مخالفت روش ختم کرنے کی وجہ سے سید صاحب نے ان کی فوج سے علیحدگی اختیار کرلی، اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے خطوط پر انقلابی تحریک کی بنا ڈالی،1818ء میں اپنے معتقد مولانا شاہ اسماعیل شہید اور مولانا عبد الحی کی نگرانی میں
پچاس نفوس پر مشتمل پورے ملک کے ہنگامی دورے کئے، اور مقام بالا کوٹ کے کوہستانی علاقوں کو تحریر کا جنگی مرکز قرار دے کر متعدد جنگیں انگریزوں اور ان کے حمایتی سکھوں سے لڑیں اور 1831ءمیں علاقے کے سرداروں اور نوابوں کی طوطا چشمی سے شکست ہوئی اور اور اپنے اہم رفقاء آزادی کے ساتھ جام شہادت نوش کیا (علمائے ہند کا شاندار ماضی اول )
سید صاحب کی وفات کے بعد انگریزوں کا خیال تھا کہ تحریک فنا ہوجائے گی مگر ان کے متوسلین نے ان کے مشن کو مولانا نصیرالدین مولانا ولایت علی ان
کے بعد مولانا عنایت علی عظیم آبادی اور ان کے انتقال کے بعد مولانا عبد اللہ غازی کی امارت وقیادت میں پورے جوش وخروش سے زندہ رکھا
اور انیسویں صدی کے اختتام تک یہ تحریک استعماریت کے خلاف کفن بردوش ہوکر سد سکندری بن کر کھڑی رہی،
1857ءکی جنگ میں جہاں اور بے شمار دانشوران قوم و ملت اور عوام نے حصہ لیکر اپنی جان کی بازی لگائی،سامراجیت کے خلاف سینہ سپر ہوئے،اور آزادی کی شاہراہوں پر لہو پیش پیش کرکے بے مثال فداکاری کا ثبوت دیا وہیں اس تحریر کے نظریات سے متاثر اور اس کے تربیت یافتہ ہزاروں افراد نے سامراجی طاقتوں کو زیر وزبر کرنے کے جذبات سے سرشار معرکہ حریت میں حصہ لیا اور وطن کی ناموس پر قربان ہوگئے،
انہیں افراد میں نمایاں مقام حاصل کرنے والی حزب اللہ اکابر دیوبند کی جماعت ہے'جس نے دہلی میں انگریزوں سے جنگ کے دوران حجۃ الاسلام امام قاسم نانوتوی کی قیادت میں تھانہ بھون اور شاملی کے میدانوں میں برٹش دستوں اور ان کی کمین گاہوں پر حملے کرکے ان علاقوں سے بے دخل کردیا،یہ اور بات ہے'کہ دہلی میں ہندوستانیوں کی ناکامی کے بعد یہاں بھی فتح شکست میں اس لیے بدل گئی کہ برٹش فوج کا دوسرا دستہ پورے سامان حرب کے ساتھ مقام جنگ پر پہنچ چکا تھا۔ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے کہ آزادی کی شاہراہوں پر سفر کرنے والوں میں خال خال ہی غیر مسلم تھے اس لیے بھی کہ انہیں وطن کی طرف کسی دوسرے ملک کی نگاہ کا اٹھنا گوارا نہیں تھا اور اس لیے بھی حکومتیں قوم مسلم ہی کی مٹ رہی تھیں جس کی حفاظت کا جذبہ فطرت کے عین مطابق تھا،مگر اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی نصف النہار کی طرح عیاں ہے'کہ
1857اور اس کے بعد عموماً سرفروشانہ قافلوں کی قیادت علماء کے طبقے نے کی ہے'یہی وجہ تھی کہ
دشمنوں نے سب سے لرزہ خیز جو انتقام لیا ہے اسی طبقے سے لیا ہے'اسے جو رپورٹ ملی تھی اس میں بتایا گیا تھا کہ جب اس ملک میں علما کی جماعت موجود رہے گی اطمینان کے ساتھ برطانوی فرمانروائی ممکن نہیں ہے'اس وقت کے حالات کا مشاہدہ کرنے والے ڈاکٹر ٹامسن نے اپنی یاداشت میں جو کچھ لکھا ہے وہ پڑھنے کے لائق ہے'اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سامراجی طاقتوں نے کس طرح ظلم وبربریت کا وحشیانہ کھیل کھیلا ہے'اور کس قدر جواں مردی کا علماء نے مظاہرہ کیا ہے'نیز کتنی کثیر ان کی تعداد میدان جنگ میں شریک تھی 1864سے 1867تک ہندستان کی تاریخ کے بڑے المناک سال ہیں ان تین سالوں میں تقریباً چودہ ہزار علماء کو انگریزوں نے پھانسی کے تختے پر لٹکایا اس مؤرخ نے لکھاہے کہ دلی کے چاندنی چوک سے پشاور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا جس پر علماء کی گردنیں نہ لٹکی ہوئی ہوں علما کو خنزیر کی کھالوں میں بند کرکے جلتے ہوئے تنور میں ڈال دیا گیا،لاہور کی جامع مسجد کے صحن میں پھانسی کا پھندا تیار کرکے ایک اک دن میں اسی اسی علماء کو پھانسی دی گئی،مزید اس کے شہادت ہے کہ،،میں دلی کے ایک خیمے میں ٹھہرا تھا مجھے مردار کے جلنے کی بدبو محسوس ہوئی میں نے پیچھے جاکر دیکھا تو آگ کے شعلے بلند تھے ان چالیس علماء کو کپڑے اتار کر جھونک دیا گیا اس کے بعد پھر چالیس علماء کے کپڑے میرے سامنے اتارے گئے اور کہا گیا اے مولویو جس طرح تم سے پہلے تمہارے ساتھیوں کو آگ کی غذا بنایا گیا ہے تمہیں بھی اسی طرح اس میں جھونک دیا جائے گا مگر یہ کہ تم اقرار کر لو کہ تم ستاون کی جنگ میں شریک نہیں تھے تو تمہیں آزاد کردیا جائے گا،اس گواہ نے قسم کھاتے ہوئے کہا کہ میں نے دیکھا کہ تمام علما اس آگ میں ڈال دئیے گئے مگر ایک بھی ان میں ایسا نہیں تھا جس نے انگریزوں کے سامنے گردن جھکائی ہو (تحریک آزادی میں مسلمانوں کا کردار،اسیر ادروی)
دارالعلوم دیوبند کے عظیم فرزند مولانا محمود حسن دیوبندی کی تحریک ریشمی رومال آزادی کی راہ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے'جس کا دائرہ ہندوستان سے لیکر افغانستان حجاز اور ترکی تک پھیلا ہوا تھا اس تحریک نے برطانوی سامراج کی نیندیں اڑادیں، مگر شریف مکہ جو حجاز کا گورنر تھا اس نے برطانیہ کی وفاداری میں اس منصوبے پر پانی پھیر دیا،اسی تحریک کے انکشاف پر شیخ الہند کو تین سال تک شیخ الاسلام حسین احمد مدنی اور دوسرے رفقاء کے ساتھ بحر روم جزیرہ مالٹا میں قید کیا گیا،
جس قدر سامراج کی سفاکیت بڑھتی تھی آزادی کے کارواں رد عمل کے طور پر اسی شدت کے ساتھ بڑھتا اور تیز گام ہوتا رہا، 1919میں تحریک خلافت قائم ہوئی جس کے روح رواں مولانا محمد علی جوہر اور ان کے بھائی مولانا شوکت علی  تھے ان کی قیادت میں ایک طرف خلافتِ عثمانیہ کے تحفظ کی تدبیریں تھیں اور دوسری طرف ملک کی آزادی کی سرگرمیاں بھی تھیں جو شعلہ بار تقریروں اور اردو انگریزی زبانوں میں انقلاب آفریں تحریریں بھی تھیں جو کامریڈ اخبار اور دیگر اخبارات کے ذریعے ہر سو بیداری کی لہر پیدا کررہی تھیں انہیں مضامین اور رسالوں کی وجہ سے تاج برطانیہ نے اس مجاہد جلیل کو طویل مدت تک زنداں کے حوالے کیا مگر ان کے جذبات کے بے تاب شعلوں کو سرد نہ کرسکی،پنڈت جواہر لال نہرو نے ایک موقع پر کہا تھا کہ،،جب آزاد ہندوستان کی تاریخ لکھی جائے گی تو مولانا محمد علی جوہر کا نام سنہرے حرفوں میں لکھا جائے گا،یہ الگ بات کے کہ وقت کی گردش نے ان کے نام کو سیاہ حرفوں میں بھی گوارا نہ کیا،
1919میں ہی خلافت کمیٹی کے ممبران کے ذریعے جمعیت علماء ہند کا قیام عمل میں آیا جس نے شیخ الہند اور ان کے شاگرد رشید مولانا حسین احمد مدنی مفتی کفایت اللہ دہلوی،مولانا أحمد سعید دہلوی علامہ سید سلیمان ندوی مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے قائدانہ کرداروں نے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑادی،
ان کے سرفروشانہ کرداروں کے ذریعے،انقلابی تجویزوں کے ذریعے،ترک مولات کے فتوؤں اور فلک شگاف نعروں کے ذریعے وسیع وعریض حویلیوں سے لیکر دیہات کے جھونپڑے  بھی آزادی کے آوازے سے گونج اٹھے،8/9جولائی1921میں کراچی کی کانفرنس 1932/میں لاہور کی کانفرنس اور ملک کے دیگر شہروں کے احتجاجی اجلاس ۔قوم مسلم کے قائدین کی جوانمردی،جاں سپاری،حب الوطنی،اور بے مثال قربانیوں کے گواہ ہیں جس میں مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا حسین احمد مدنی،مولانا محمد علی جوہر کی زبانوں نے بندوقوں کی گولیوں، موت کی وادیوں،اور بربریت کے شعلوں سے بے پرواہ برطانوی اقتدار،اس کے نظام ہائے سلطنت،اس کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر کے سرفروشی تاریخ رقم کی تھی،مولانا ابوالکلام آزاد کے وجود میں حریت وطن کی آگ اس شان سے دہک رہی تھی کہ قید کے دوران شریک حیات کا انتقال ہوجاتاہے اور گورمنٹ کی طرف محدود رہائی کی پیش کش ہوتی ہے'مگر قوم کے اس فرزند نے یہ کہ کر کہ مجھے غاصب سلطنت کے احسان کی ضرورت نہیں ہے ہماری ملاقات اب آخرت پر موقوف ہے'،،
مولانا حسین احمد مدنی مولانا نثار اور دیگر رفقاء کی زندگیوں کا اکثر حصہ جیل کی تاریکیوں میں گذر گیا مگر انہوں نے آزادی کے حوالے سے اپنے ہدف سے ایک انچ بھی ہٹنا گوارا نہیں کیا۔یہاں تک کہ  بزم جنوں کے ان دیوانوں نے اس شدت اور اس جذبے اور جوانمردی کے ساتھ اس راہ میں اپنے لہو کی قربانیاں پیش کیں کہ ان کی گرمیوں سے غلامی کا طوق پگھل گیا اس کی ایک اک کڑیاں ٹوٹ گئیں،ہندستان آزادی کے احساس کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا۔ غرض کاروان آزادی کے سالار اول سراج الدولہ سے لیکر 1947تک کی صبح تک اگر آخری دور میں جہاں گاندھی جی،بال گنگا دھر تلک،گوکھلے ،موتی لال نہرو،سردار پٹیل، ڈاکٹر راجندر پرساد،جواہر لال نہرو،راج گوپال اچاریہ،لالہ لاجپت رائے اور پین چند پال وغیرہ نے جد و جہد کی ہے'،ملک کے گیسوئے برہم کو درست کرنے کی کوششیں کی ہیں'تو وہیں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ،سید احمد شہید،شاہ اسماعیل شہید، مولانا محمود حسن دیوبندی ،مولا نا حسین احمد مدنی،مولانا ابوالکلام آزاد،مولانا محمد علی جوہر مولانا شوکت علی،مولاناحسرت موہانی،حکیم اجمل خان،ڈاکٹر انصاری، خان عبدالغفار خان،آصف علی،رفیع احمد قدوائی،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی،مولانا سید میاں دیوبندی،ڈاکٹر ذاکر حسین،وغیرہ کی قربانیاں بھی کسی طرح کم نہیں تھیں بلکہ انصاف یہ ہے'کہ مسلمانوں نے آزادی کے لئے جس قدر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے،تختہ دار کو چوما ہے'،زندانوں کا طویل طویل مدتوں تک استقبال کیا ہے، برطانوی سامراج کے تشدد وبہیمیت کا سامنا کیا ہے'،وطن کو خیرباد کہا ہے'،گھروں اور جائیدادوں سےجس تعداد میں محرومیاں برداشت کی ہیں دوسری اقوام ان قربانیوں کا عشر عشیر بھی نہیں آزادی کی تاریخ میں نہیں مل سکتی،
لیکن یہ کیسی وقت کی ستم ظریفی ہے کہ  حریت کی سنگلاخ راہوں پر لہو لہو اور آبلہ پا کاروان آزادی کی تن تنہا ڈھائی سو سالہ مسافت طے کرنے کے بعد جب منزل سامنے آئی تو تمام خوابوں کی تعبیریں منافق اور حوصلہ شکن ہوگئیں، جمہوریت کا آئین مرتب ہوا،مگر اسی جمہوریت کی آڑ میں انہیں شہیدان آزادی اور کاروان آزادی کی نسلوں کے استحصال میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی،
فرقہ پرستی کا پودا کھڑا ہوا حکومت پروش کرتی رہی،ملک دوٹکڑے ہوا اور مسلمان اقلیت میں ہوکر بے یارومددگار ہوگئے نہ ان کے لیے کوئی قانون نہ ان کے تحفظ کی کوئ ضمانت،نہ ان کی تعلیم کا کوئی نظم،اور نہ ہی ان معاشیات کا کوئی انتظام، فسادات کے ذریعے ان کی معیشت کو برباد کردیا گیا، عصبیت کے زیر اثر سیاسی ایوانوں سے لیکر عام اداروں تک ان کی نمائندگی صفر کردی گئی، فرقہ وارانہ مزاج کی تنظیموں کو اس قدر شہ دی گئی کہ وہ ناقابل شکست قوت بن کر سیاہ وسفید کی مالک بن گئی،
پھر کیا تھا پوری فضا اسلام مخالف پروپیگنڈوں سے مسموم ہوگئی، اسلامی قانون پر شب خون مارا گیا،منصوبہ بند طریقے سے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر اغواء کر کے پوری زندگی تباہ کردی گئی،قوم کو ہر لحاظ سے ہراساں کیا گیا ستم یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ بربریت اور احسان فراموشی کا سلوک سیکولر کی علمبردار جماعت کے عہد میں ہوتا رہا ہے'جس بنیادوں کے استحکام میں مسلمان قائدین نے اپنے جانوں کی بازی لگا دی تھی،
جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی،سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی۔
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن،یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں۔
دنیا کے کسی ملک نے اس قوم کے ساتھ ایسی بدترین قسم کی احسان فراموشی نہیں کی ہوگی، اس کے ساتھ عصبیت کا سلوک نہیں کیا ہوگا جس کے آباؤ اجداد کا لہو اس سرزمین کے سینے میں جذب ہو،
لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی پارٹیوں نے اسی قوم کا زندگی کے ہر شعبے میں دیدہ و دانستہ استحصال کیا ہے جس کے اسلاف کے خون سے اس سرزمین کا ذرہ ذرہ لہو رنگ ہے'۔
لیکن باوجود اس کے مسلم دشمنی اور انتہا پسندی کے جنون میں فسطائی طاقتوں نے اسلامی تشخص،اسلامی علامتوں کے مٹانے میں مسلمانوں کو ہراساں کرکے
انہیں خود اعتمادی سے محروم کرنے میں،  مسلمانوں کو اقتصادی سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے بے وزن اور بے دست وپا کرنے میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے'،
  ماب لینچنگ کا معاملہ ہو یا معصوم نوجوانوں کی گرفتاریاں،
  گائے کے ذبیحہ کا مسئلہ ہو یا اسلامی قوانین کی تحریف کا تمام مراحل میں حکومت کے اقدامات سے واضح ہے'کہ ملک مکمل طور پر انتہا پسندی کی راہ پر جاچکا ھے، جمہوریت کا خون کرکے نازی ازم کی ہوائیں پورے ملک پر مسلط ہوچکی ہیں،
  ایسی دلخراش اور خوفناک صورت حال میں زخم زخم قلب و ذہن اور لہو لہو اجسام کس طرح وجود میں سرشاری کی کیفیت لائے، ملک کی ہفت رنگ فضاؤں میں ظاہراً چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں ایک لمحے کے لیے بکھر سکتی ہیں مگر وہ احساسات اور وہ جذبات جن میں کیف وانبساط کی لہریں موجزن رہتی ہیں انہیں ظلم وجبر کے پیدا نہیں کیا جاسکتا۔
کتنی بربادی مقدر میں تھی آبادی کے بعد۔
کیا بتائیں ہم پہ کیا گذری ہے آزادی کے بعد
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی