Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Tuesday, August 13, 2019

واٸے افسوس ! پیر محمد طلحہ بھی رخصت ہو گٸے !

✏ فضیل احمد ناصری /صداٸے وقت
========================
کل کا دن امت مسلمہ پر بہت شاق بن کر گزرا۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا یا کاندھلویؒ کے اکلوتے فرزند حضرت مولانا پیر محمد طلحہ صاحب بھی  دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحوم حضرت شیخ الحدیث کی دوسری اہلیہ کے بطن سے تھے۔ اس بطن سے دو بیٹیاں بھی ہوئیں، جن میں سے ایک مولانا محمد عاقل صاحب مدظلہ سے منسوب تھیں اور دوسری مولانا محمد سلمان مظاہری مدظلہ سے۔ مولانا سلمان صاحب کی اہلیہ حیات ہیں۔
مولانا کا انتقال بلاشبہ ملت اسلامیہ کے لیے صاعقۂ آسمانی اور عظیم ترین خسارہ ہے ۔ ان کے جانے سے خانقاہی دنیا سوگ وار ہو گئی۔ خدا رحمت کند۔
مولانا یوں تو کئی ماہ سے بیمار تھے ۔ نزاکتِ صحت کی خبریں وقفے وقفے سے آتی رہتی تھیں۔ کئی بار ہسپتال سے ایسی ایسی تصویریں بھی جاری ہوئیں، جنہیں دیکھ کر ہر وقت ایک قسم کا دھڑکا لگا رہتا تھا۔ ایک بار تو بغرضِ علاج حجازِ مقدس بھی تشریف لے گئے۔ ان کی خواہش بھی یہی تھی کہ اپنے والد کی طرح جنت البقیع کا حصہ بنیں، مگر پھر صحت مند ہو کر ہندوستان واپس آ گئے۔ اب کی بار بیماری نے انہیں اٹھنے نہیں دیا اور کل 12 اگست 2019 کو عالمِ فانی سے عالمِ 
جاودانی کو کوچ کر گئے۔

*مولانا کی خاص باتیں*
مولانا کاندھلویؒ سے اگرچہ میرا کوئی خصوصی و امتیازی تعلق نہیں تھا، مگر ان سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ طالب علمی کے دور میں دارالعلوم میں میں نے انہیں متعدد بار دیکھا۔ مصافحے کی بھی کئی بار کوشش کی، لیکن طلبہ کے ہجوم نے کامیاب ہونے نہیں دیا۔ اس کے بعد ان کی زیارت احمدآباد میں ہوئی۔ اس وقت میں جامعہ فیضان القرآن میں معلم الصبیانی کرتا۔ مولانا مدرسے میں تشریف لائے تو ملاقات کے ساتھ باتیں بھی ہوئیں۔ اس موقع پر مولانا کے ملفوظات سے بھی  مستفیض ہونے کی سعادت ہاتھ آئی ۔ مولانا نے علمی میدان میں اگرچہ اپنی کوئی یادگار نہیں چھوڑی، مگر خانقاہی حوالے سے قابلِ ذکر یادگاریں چھوڑ گئے ہیں۔ تصوف و سلوک نے مولانا کی علمی حیثیت کو پردۂ خفا میں ڈال دیا۔ حالانکہ وہ بہترین عالم تھے اور علمی مجلسوں کے مقبول ترین بزرگ۔
*سوانحی نقوش*
مولانا کی ولادت مئی 1941 میں ہوئی۔ ان کی مکتبی زندگی مظاہرِ علوم میں گزری۔ وقت آگے بڑھا تو انہوں نے قرآنِ پاک کے حفظ کی سعادت بھی حاصل کی، پھر عربی و فارسی کی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ فارسی کی کتابیں انہوں نے مدرسہ مظاہرعلوم سہارنپور میں ہی پڑھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ ان کے والد گرامی حضرت مولانا زکریا صاحب صاحبؒ کی علمی عظمت و جلالت کا پورے عالم میں سکہ چل رہا تھا۔ مظاہرِ علوم سہارنپور کے لیے ان کی شخصیت ریڑھ کی ہڈی کی حیثيت رکھتی تھی۔ اپنے والد کے زیر سایہ انہوں نے فارسی جماعت کا نصاب پورا کیا۔ عربی تعلیم کا آغاز مدرسہ کاشف العلوم سے کیا۔ یہ مدرسہ الیاسی تحریک کے مرکز نظام الدین میں قائم ہے ۔کل کی طرح آج بھی تعلیم و تعلم کا سلسلہ وہاں برابر جاری ہے ۔ مولانا کی فراغت وہیں سے ہوئی۔
*مولانا کا خاندان*
مولانا کاندھلویؒ کا خاندان بڑا علمی اور تاریخی ہے ۔ وہ نسباً صدیقی تھے۔ ان کے جد اعلی میں ایک نام  مفتی الہی بخشؒ کا آتا ہے ۔ یہ وہی بزرگ ہیں جنہوں نے خواب میں مثنوی مولائے روم خود اس کے مصنف مولانا جلال الدین رومیؒ سے پڑھی اور مولانا ہی کے حکم پر مثنوی کا چھٹا دفتر پیر محمد والی مسجد تھانہ بھون میں لکھا، یہ وہی مسجد ہے، جس میں خانقاہ امدادیہ اشرفیہ واقع ہے۔ مولانا کے خاندان میں اہلِ علم و فضل کی آج بھی فراوانی ہے ۔ مولانا کے دادا مولانا محمد یحیٰی کاندھلویؒ خود ایک بڑے عالم اور صاحبِ کمالات بزرگ تھے۔ قطب الاقطاب مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کے شاگردِ رشید اور مظاہرِ علوم سہارن پور کے ممتاز استاذ ۔ بانئ جماعت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ان کے حقیقی نانا تھے اور مولانا محمد یوسف حقیقی ماموں۔ عجیب بات یہ کہ مولانا یوسفؒ ان کے ڈبل بہنوئی بھی تھے، جو ان کی دو سوتیلی بہنوں کے شوہر رہے۔
*پیر طلحہ کہے جانے کی وجہ*
مولانا مرحوم بجائے مولانا محمد طلحہ کے پیر محمد طلحہ کے نام سے متعارف تھے۔ ان کے اس لقب کے پیچھے ایک تاریخی واقعہ پنہاں ہے۔ شیخ الاسلام و المسلمین حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا صاحب سے ملاقات کے لیے مظاہر علوم سہارنپور وقتاً فوقتاً آتے رہتے ۔ ایک دفعہ مولانا مدنیً تانگہ سے اترے تو دیکھا کہ چھوٹے طلحہ اپنے ہمجولیوں کے ہمراہ  پیری مریدی کھیل رہے ہیں۔ خود پیر بن کر ساتھیوں کو بیعت کر رہے تھے کہ اچانک شیخ الاسلامؒ نے از راہِ مزاح کہا: پیر صاحب! مجھے بھی بیعت کر لیجیے۔ انہوں نے بھی ان کی درخواست مسترد نہ کی اور بیعت کر کے چھوڑا۔ اس کے بعد حضرت مدنیؒ انہیں پیر طلحہ کہہ کر پکارنے لگے۔

*الیاسی تحریک کے ممبران سے ناراضگی*
احمد آباد میں میں نے دیکھا کہ الیاسی تحریک سے وابستہ افراد ان سے ملاقات کے لیے آتے تو انہیں سخت ڈانٹ پلاتے اور کہتے کہ تم لوگوں نے *فضائلِ اعمال* کو اتنا آگے بڑھا دیا ہے کہ میرے والد کی ساری کتابیں ایک دم چھپ کر رہ گئیں۔ والد صاحب نے *اوجز المسالک* جیسی کتاب بھی لکھی ہے، اسے کون پڑھے گا؟ ۔
جماعت میں پھیلے شدید افراط و تفریط پر وہ بہت سخت ناراض تھے اور گاہے بہ گاہے اس پر تبصرے بھی کرتے۔ یہ بھی دیکھا کہ اپنی دعاؤں میں الیاسی تحریک کے موجودہ ذمے دار جناب مولانا سعد کاندھلوی صاحب کا نام لے کر کہتے کہ اللہ! امت کو سعد کے فتنے سے محفوظ فرما! مولانا زبیر صاحبؒ کے انتقال کے بعد ہمارے جامعہ سے ایک وفد تعزیت کے لیے نظام الدین گیا تھا۔ اس موقعے پر جہاں دیگر اکابرِ تحریکِ الیاسی سے ملاقات رہی، وہیں پیر طلحہ صاحب سے بھی نیاز حاصل کرنے کی سعادت میسر آئی۔ پیر صاحب کو دیکھا کہ مغموم بیٹھے ہیں۔ غم مولانا زبیر صاحب کی رحلت کا نہیں، بلکہ اس فتنے کا تھا، جو فی الوقت بل میں تھا، مگر پیر روشن ضمیر کی نگاہیں اسے دیکھ رہی تھیں۔ کہہ رہے تھے کہ اللہ جانے اب اس مرکز کا کیا ہوگا؟ میں حیران تھا کہ بظاہر تشویش کی ایسی کوئی وجہ نہ تھی، مگر پیر صاحب نے فتنے کو جیسا دیکھا تھا، ویسا ہی ظاہر ہوا۔ آج الیاسی تحریک ایک دوسرے کے درپے ہے اور فتوے بازی کر رہی ہے تو میرا دل انہیں سلامِ عقیدت پیش کر رہا ہے۔
*مہمان نوازی کا مثالی ذوق*
مولانا کی ضیافت بڑی مثالی تھی۔ ان کا دسترخوان ہر وقت کشادہ اور تنور ہمہ دم گرم رہتا۔ ملنے کے لیے کوئی جائے تو مجال نہیں تھی کہ بغیر کھائے واپس آئے۔ ایک دفعہ ممبئی سے میرے پاس مہمان آئے تو میں نے انہیں سہارن پور کا بھی سفر کرایا۔ پیر صاحب سے بھی ملاقات کرائی۔ مہمان کا ٹکٹ رات کا ہی تھا اور ہم ملاقات کے لیے بعدِ عصر گئے تھے۔ تقریباً 15 منٹ کے بعد ہم نے اجازت لینی چاہی تو انہوں نے کھا کر جانے کا کہا۔ ہم بضد ہوئے اور ٹکٹ کا حوالہ دیا تو اتنا ناراض ہوئے کہ وداعی مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے اپنا ہاتھ ہی نہ دیا۔ ہم مجبور تھے۔ بغیر مصافحے کے ہی واپس آ گئے ۔
*نسبتِ بُکائی*
ہم جتنی دیر وہاں بیٹھے رہے، ان کے ملفوظات سے مستفید ہوتے رہے ۔ ایک صاحب کتاب پڑھتے اور پیر صاحب کہیں کہیں مضمون پر تبصرہ کرتے۔ کوئی مضمون تعلق مع اللہ کا آتا تو اتنا روتے کہ دیکھنے والے کو ترس آ جاتا۔ مولانا کو بلاشبہ نسبتِ بکائی حاصل تھی۔ احادیث میں ایسے شخص کے لیے عرش کے سائے کا وعدہ ہے جس کی آنکھیں اللہ کے ذکر سے رو پڑیں۔ ہم جتنی دیر بیٹھے رہے، ان کی اداؤں سے سبق لیتے رہے۔ ان کا گریہ دیکھ کر حاضرین کی طبیعت پر روحانی اثر پڑتا۔
*خانقاہِ خلیلیہ کی رونق چلی گئی*
مولانا جس مکان میں اپنی خانقاہ چلاتے تھے، یہ کچا گھر کہلاتا ہے۔ یہ مکان ان کے دادا حضرت مولانا یحییٰ کاندھلویؒ نے خریدا تھا۔ یہ مکان پہلے دن جس حال پر تھا، آج بھی اسی حال پر ہے۔ ان کے دادا اور والد ہمیشہ اسی گھر میں رہے۔ اس کے بالائی حصے کو ان کے والد حضرت شیخ الحدیث نے دارالتصنیف بنا دیا تھا۔ فضائلِ اعمال سمیت ساری کتابیں یہیں لکھی گئیں۔ پیر صاحب نے بھی اسی مکان کو اخیر تک اپنا مسکن رکھا اور خانقاہی امور بھی یہیں سے چلائے۔ کچا گھر اب خانقاہِ خلیلیہ بھی کہلاتا ہے۔ پیر صاحب جب مسلسل بیمار رہنے لگے تو اپنے بہنوئی اور خلیفہ مولانا سید محمد سلمان مظاہری کو اس کا منتظم بنا دیا۔ کچا گھر اب بھی موجود ہے۔ خانقاہ ان شاءاللہ آئندہ بھی چلے گی، مگر جگر گوشۂ شیخ الحدیث اب کسی کو نہ ملے گا۔ آہ کہ یہ عظیم انسان بھی اپنے دادا کے ساتھ سہارن پور کے حاجی کمال شاہ قبرستان میں سو رہا ہے۔ یہ سناٹا بھی اب امت کو جھیلنا پڑے گا۔