Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 31, 2019

ہجرت کا پیغام !!!


از/ انیس حماد ندوی خیرآبادی/صداٸے وقت۔
=========================
یوں تو سیرت ایک سدا بہار موضوع ہے ہر ایک نے اس گلستان کی بقدر استطاعت سیاحی کی ہے صرف واقعہ ہجرت کو سپرد قرطاس کرنے کا اہم اور واحد مقصد دو پہلوؤں کو اجاگر کرنا اور دو گوشوں پر روشنی ڈالنا ہے۔ اس واقعہ میں ایک پہلو تو وہ ہے جو عقل و فہم سے ماوراء اور صرف اور صرف توکل علی اللہ اور نصرت الہی کا مظہر ہے۔اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسان کو وسعت و طاقت بھر تدبیر و اسباب اختیار کرنے چاہیے یا کشتی حیات کو بیچ منجدھار میں پھنسا دیکھ ٬ دامن امید کو ہاتھ سے چھوڑ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانا چاہیے ۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وسل علیہ وسلم کا جانی دشمنوں کی سنگینوں اور خون آشام تلواروں چھاؤں میں صحیح و سالم دولت کدہ سے نکلنا اور غار میں پناہ گزیں ہونا ، کفار مکہ کی غار ثور تک رسائی اور ان کی آہٹ سے ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی گھبراہٹ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بایں الفاظ گویا ہونا "لا تحزن ان اللہ معنا" ، سراقہ بن جعشم کا اپنے تعاقب میں آنا اور لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتا دیکھ آپ کے چہرہ انور پر کسی طرح کا خوف و ہراس نہ پایا جانا کس طاقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں اور دوسری طرف تین روز غار ثور میں دوران قیام عبداللہ بن ابی بکر دیر رات تک آپ کے ساتھ رہتے اور سحر کے وقت رخصت ہوتے اور اہل مکہ کے ساتھ صبح کرتے ہیں ، اور وہاں مکہ کے اندر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف رچی جانے والی سازشوں کا جائزہ لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام خبریں روزانہ بہم پہنچاتے ہیں، ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ غار ثور کے قرب و جوار میں بکریاں چرایا کرتے ہیں اور عشاء کے کچھ بعد غار ثور کے پاس گزرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دودھ پلاتے ہیں ، اور دیر رات گئے اندھیرے میں مکہ کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں، اور مقررہ وقت پر رہنما اور گائیڈ کا آموجود ہونا تو اس چھوٹےسے قافلہ کا سوئے منزل کوچ کرنا حکمت عملی اور منصوبہ بندی کی ایک اچھوتی مثال نہیں تو اور کیا ہے کہ دشمنوں کو ان تمام کارروائیوں کی بھنک تک نہیں لگتی اور وہ اپنی ہی بوٹیاں نوچ کھسوٹ کر چپ رہتے ہیں۔ لیکن آج ہم اپنے گردوپیش ہی نہیں پورے عالم اسلام پر نظر ڈالتے ہیں تو اپنے آپ کو ان دو صفتوں سے یکسر خالی پاتے ہیں۔ توکل علی اللہ کا پوچھنا ہی کیا ہر شخص خود اپنااحتساب کر سکتا ہے کی وہ کتنا اللہ پر بھروسہ کرتا ہے۔ ہماری منصوبہ بندیوں کا عالم تو یہ ہے جب بھی کوئی افتاد اور مصیبت سے دوچار ہوتے ہیں تو اس کے تدارک اور انسداد کے لیے نہ جانے کتنی تنظیمیں اور انجمنیں قائم کر ڈالتے ہیں اور احتجاج کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع کر دیتے ہیں۔تجدید عزم وارادہ بھی ہر ایک نئے اسلوب اور نئے
طرز میں کرتا ہوا نظر آتا ہے،

لیکن پھر ہمارا سارا جوش و خروش سرد پڑ جاتا ہے ، اور وہ سمندر کے جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے ، پھر وہی بے چارگی اور مظلومیت کا رونا، یہ کسی سیاسی پارٹی سے امید لگائے بیٹھے ہیں اور کبھی سراپا امید و التجا بنے فلاں صاحب کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے ہیں شاید ہمارے حق میں کوئی فیصلہ کردیں۔
شاید ہماری حالت زار اور ناگفتہ بہ حال پر ترس کھا کر عنایت و نوازش کا اعلان ہی کردیں۔اگر توکل علی اللہ سے خالی اور حکمت عملی اور منصوبہ بندی سے بے نیاز ہمارا یہی طرز حیات رہا تو پھر خلافت ارضی کے فرض سے عہدہ براں ہو چکے ہیں! کسی قوم کے مستقبل کو سنوارنے کے لیے آسمان سے فرشتے نہیں آیا کرتے بلکہ وہ قوم اور فرزندان قوم آگے بڑھ کر خود اپنا اور اپنی قوم کا مستقبل سنوراتے اور سجاتے ہیں۔اپنے ملک و ملت کی تقدیر کا نوشتہ خود اپنے خون جگر سے تحریر کرتے ہیں.