Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Saturday, August 31, 2019

کیاہم گونگے، بہرے، اندھےاورہماری عقلوں پر تالے، دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں

مرزا انور بیگ/صداٸے وقت
=========================
کشمیر کو یرغمال بنائے ہوئے تقریباً ایک ماہ ہونے جا رہا ہے لیکن ہماری قیادت کی طرف سے کچھ معذرت خواہانہ بیان سے آگے کچھ سامنے نہیں آیا۔ ایسا لگتا ہے امت مسلمہ کی ہوا پوری طرح اکھڑ چکی ہے۔ اور یہ بات لازمی بھی ہے۔ ایک صدی سے علماء صرف مینڈھے لڑاتے آۓ ہیں اور آج بھی اس سے پوری طرح دستبردار نہیں ہوۓ ہیں کیونکہ معاملہ حلوے پراٹھے کا بھی ہے۔
علماء کا اتحاد نظر بھی آیا تو ملت کے درد کا نہیں بلکہ اپنی روٹی بوٹی کے لئے یک طرفہ فیصلہ صادر کیا گیا کہ قربانی کی کھالوں کے صحیح دام اگر نہیں آرہے ہیں تو اس کا بھگتان قوم کرے ان کی جھولی میں دو سو روپے ڈال کر کھال اپنے گلے میں لٹکاۓ پھرے یہ تھا وہ خودغرضآنہ اتحاد جس کے لئے پوری گرمجوشی سے سبھی جمع ہوۓ۔ امید بندھی تھی کہ کم از کم اسی بہانے متحد ہوۓ ہیں تو آگے چل کر ملت کے مفاد کے لئے بھی ساتھ آئیں گے مگر واۓ ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا۔ کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا والا معاملہ سامنے ہے۔

آج کشمیریوں کے درد میں کوئی زبان کھولنے کی ہمت نہیں کررہا ہے۔ یہ ہے وہ نتیجہ جو امت میں مسلسل اختلافات کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ جب جب امت نے ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کی اور اپنی اپنی راہ چلی ہے اس کی ہوا قرآنی فرمان کے مطابق اکھڑتی رہی ہے۔
جنگ احد میں آپسی اختلاف کے کچھ لوگوں کو پیٹھ پھیر کر جاتے ہی جو نقصان مسلمان فوج کو اٹھانا پڑا اور جس نے جیتی ہوئی جنگ کو شکست کے نقشے میں بدل دیا تھا اس کی وجہ سے مسلمانوں کی جو ہوا اکھڑی تھی اس کے نتیجے میں مشرکینِ کے جس طرح حوصلے بلند ہوۓ تھے کہ وہ اس کا فائدہ اٹھا کر بار بار مدینہ کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ مگر وہاں ایک بیدار قیادت موجود تھی جس نے بہت جلد اس رخنہ پر قابو پا لیا۔
آج تو بیدار قیادت بھی نہیں ہے اور اوپر سے اختلافات کے پلندے کے پلندے سروں پر لدے ہوئے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جب بھی ہم ایک دوسرے کی طرف پیٹھ کریں گے ایک دوسرے کی صورت دیکھنا پسند نہ کریں گے ہماری ہوا اکھاڑ دی جائے گی جیسی کہ آج نظر آ رہی ہے اور یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ تم آپس میں اختلاف کرو گے تو تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔ اس لئے ان حالات میں کیا کریں کچھ نہیں سوجھ رہا ہے۔ جو بات باطل پر لازم آتی تھی ہم پر ثبت ہورہی ہے کہ ہم گونگے بہرے اندھے ہو بیٹھے ہیں۔ ہماری عقلوں پر تالے اور دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں۔
آج بھی ہمارے منبروں سے وہی دقیانوسی تقریریں جاری ہیں۔ وہی تسبح کے دانوں سے جنت کی شجرکاری ہورہی ہے۔ قرآن للکار رہا ہے کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم کم زوروں کے لئے اپنے گھروں سے نہیں نکلتے۔ تمہیں بیوائیں ، بچے اور ضعیف آواز دے رہے ہیں ان کی سدائیں تمہارے کانوں تک کیوں نہیں پہنچتی ، تمہیں تو حکم تھا کہ ظالم کا ہاتھ پکڑ لو، اس کا پنجہ مروڑ دو۔ تم آج بھی کرتے پاجامہ کے جائز ناجائز میں الجھے ہوئے ہو۔ تم نے یہ بھی نہ سنا کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔ تم نے صرف اتنا ہی سنا ہے کہ کچھ نہیں کرسکتے تو دل میں برا سمجھو مگر تمھارے نزدیک برائی صرف جوا شراب ہی ہے اور داڑھی کی ناپ تول کرتے پاجامے کی اونچائی نیچائی اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ تم نے ظالم اور مظلوم کے رشتے کو گناہ جانا ہی نہیں اسی لئے اطمینان سے اپنے اپنے حجروں میں بیٹھے فقہی لن ترانیوں میں داد وصول رہے ہو۔
یاد رکھو اس ظلم کے خلاف اگر زبان نہیں کھلی تو پھر بروز قیامت ہی کھلے گی اور چاروناچار کھلے گی مگر لاحاصل ہوگی۔
آپ جس دستور کی دہائی دے کر خاموش بیٹھے ہیں وہ دستور بھی اور محمد الرسول اللہ کا لایا ہوا دستور بھی اس بات کی اجازت ہی نہیں حکم دے رہا ہے کہ اب بھی وقت ہے اٹھو اور ان نہتے بے بس انسانوں کو اس ظلم سے نجات دلاؤ ورنہ یہ اژدہے تمہیں بھی نہیں چھوڑنے والے۔ گیدڑ جب ہڈیاں نگل سکتا ہے تو نرم بوٹیاں نگلنا اس کے لئے کوئی مشکل کام نہیں۔