Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 1, 2019

ماہ محرم الحرام کی حیثیت و اہمیت۔!!!


از/شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی/صداٸے وقت/عاصم طاہر اعظمی۔
=========================
اس وسیع عریض کائنات کے حسن کا راز یہ ہے کہ اس کی تمام اشیاء، رنگ وبو کے اعتبار سے،نفع ونقصان کے لحاظ سے اور صورت و شکل وطول وعرض کے حوالے سے ،ایک دوسرے سے مختلف ہیں، جنس کے اتحاد کے باوجود اسی اختلاف میں ان کا جمال اور ان کی نافعیت اور جامعیت پنہاں ہے، آفتاب میں جو تیزی اور حدت ہے وہ ماہتاب میں نہیں پائی جاتی، ستاروں میں جو جمال نظر آتا ہے۔ دوسرے سیاروں میں وہ تابناکی مفقود ہے،زمین کے سینے پر جہاں شادابیاں،بہاروں کا سماں پیدا کرتی ہیں،اس کی زرخیزیاں پر کیف وروح پرور مناظر وجود میں لاتی ہیں'،وہیں اس سطح ارض کے بے شمار خطے اور علاقے شاداب زندگی سے محروم صحراؤں اور خیابانوں کی شکل میں موجود ہیں،وصف اور رتبےکے لحاظ سے بھی تمام خطوں میں یکسانیت نہیں ہے جو مقام مسجد کے حصے کو حاصل ہے' عام جگہیں اس سے۔محروم ہیں'، حرمین شریفین کو جو امتیازی حیثیت حاصل ہے وہ دوسرے علاقوں
کا مقدر کہاں۔

ٹھیک اسی طرح قدرت نے زمانوں اور لمحات میں بھی انفرادیت کی شان رکھی ہے'،ایک کو  دوسرے پر فوقیت عطا کی ہے'،وصف رتبے اور برکتوں وسعادتوں کی دولت کے لحاظ سے کچھ ایام کو، مہینوں کو ،امتیازی مقام اور انفرادی شان سے سرفراز کیا ہے،
'چنانچہ سال کے بارہ مہینوں میں ذی قعدہ،ذی الحجہ، محرم الحرام،اور ،رجب ،  کے مہینے اپنی ذات کے اعتبار سے دوسرے ماہ پر بڑی فضیلت وحیثیت رکھتے ہیں'،اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا سمندر ان ایام میں جوش میں ہوتاہے،
اس کی برکتوں کی بارشیں ان لمحات میں موسلادھار ہوجاتی ہیں'، توبہ کے دروازے چوپٹ کھل جاتے،مغفرت کی گھٹائیں ہر سو چھا جاتی ہیں۔
اسلام سے پہلے بھی عرب کی ثقافت اور ان کے نظریات میں  یہ مہینے اعلیٰ خصوصیات کے حامل تھے،فتنہ وفساد کی کمی ہوجاتی تھی،ان کی نگاہوں میں بھی یہ ایام انتہائی مقدس اور محترم تھے،جنگیں اور عداوتوں کی گرم بازاری ایک حد تک سرد ہوجایا کرتی تھیں،چونکہ یہ فکر اور نظریہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کی ملت و مذہب کا عکس اور مرور زمانہ کے باعث باقی رہنے والا ہلکا سا نمونہ تھا،اس لئے اسلام نے بھی اس کی حیثیت کو باقی رکھ کر اس کی اصل صورت و شکل کو اُجاگر کیا،
ان عدۃ الشہور عند اللہ اثنا عشر شہرا فی کتاب اللہ یوم خلق السمٰوات والارض منہا أربعۃ حرم،ذالک الدین القیم،فلا تظلموا فیھن انفسکم۔ (التوبہ)
اللہ تعالیٰ کے نزدیک جس دن سے آسمان وزمین کا وجود ہوا ہے' اسی وقت سے سال میں بارہ ہی مہینے ہیں جو اس کی خاص کتاب لوح محفوظ میں درج ہیں، اور انہیں میں چار مہینے محترم اؤر مقدس ہیں'،یہی سیدھی شاہراہ ہے لہٰذا تم ان ایام میں اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو،،
فخر دوعالم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد نے مذکورہ مہینوں کی ان لفظوں میں وضاحت کی ہے،،زمین وآسمان کی تخلیق کے دن سے زمانہ گردش میں ہے سال بارہ مہینوں کا ہے جن میں چار حرمت والے ہیں ذی قعدہ،ذی الحجہ،اور محرم الحرام اور ایک مہینہ رجب ہے'(بخاری رقم الحدیث 3197,مسلم 4383)۔
ماہ محرم کی حرمت وتقدیس کے تقاضے۔
محرم الحرام کے تقدس اور اس کی فضیلت کا تقاضا ہے کہ اس میں طاعتوں کا اہتمام کیا جائے،معصیتوں سے اجتناب کیا جائے،ایثار و ہمدردی اور اخوت ومحبت کا نمونہ پیش کیا جائے،عبادات میں خاص طور سے روزہ رکھنے میں سبقت کی جائے کہ اللہ تعالیٰ کی عنایات سے یہ لمحات لبریز اور معمور ہوتے ہیں، اجر وثواب کی مقدار بڑھ جاتی ہیں،اعمال کی قبولیت کے امکانات وسیع تر ہو جاتے ہیں، گناہوں اور جرائم نیز بدعات وخرافات سے قطعی طور پر دور رہنا چاہیے کہ ان کی وجہ سے ان ایام کا تقدس پامال ہوکر رہ جاتاہے،یہ امر مسلم ہے کہ نعمتوں کی ناقدری محرومیوں کا سبب ہوا کرتی ہے،
نبی کریم ﷺ کا معمول»
مشرکین مکہ سے معاشرے میں اس مہینے میں فضیلتوں کی وجہ سے روزہ رکھنے کا تصور پایا جاتا تھا،اورخصوصا عاشورہ کے دن سماج کے شرفا واہل دانش روزے کا اہتمام کرتے تھے۔اسی دن کعبہ اللہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا،
رسول اکرم ﷺ بھی اس مہینے میں مکی زندگی میں  ہی سے کثرت سے روزے رکھتے تھے جس میں عاشورہ کا روزہ بھی شامل تھا مگر کسی کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے،ہاں اس کی ترغیب مدینہ منورہ آنے کے بعد صحابہ کرام کو دیا کرتے تھے، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے سوال کیا کہ رمضان المبارک کے بعد کس مہینے میں روزہ رکھنا زیادہ ثواب کا باعث ہے تو انہوں نے کہا کہ یہی سوال ایک صاحب نے نبی کریم ﷺ سے کیا تھا اور میں اس مجلس میں موجود تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا،،ان کنت صائما بعد شھر رمضان فصم المحرم فانہ شھر اللہ فیہ یوم تاب اللہ فیہ علی قوم ویتوب فیہ علی قوم آخرین (ترمذی) رمضان کے مہینے کے بعد اگر تم کو روزہ رکھنا ہے تو محرم میں رکھو کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے اس ایک دن ایسا ہے جس میں خدا وندعالم نے ایک قوم کی توبہ قبول فرمائی اور آئندہ بھی ایک قوم کی توبہ قبول کرے گا،،
ایک دوسری روایت میں جو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ ﷺکا ارشاد ہے کہ افضل الصیام بعد صیام شھر رمضان شہر اللہ المحرم (ترمذی) رمضان المبارک کے روزوں کے روزوں کے بعد اگر کسی مہینے کے روزوں کو فضیلت حاصل ہے تو وہ ماہ محرم الحرام ہے،،
مذکورہ روایات یہ بات صاف ہوجاتی ہے کہ اس مہینے میں جہاں اعمال کے لحاظ سے نسبتاً روزے کو اہمیت حاصل ہے وہیں محرم کے ایام کی خصوصیات وافضلیت کسی خارجی عوامل کی بنیاد پر نہیں بلکہ ذاتی اعتبار سے ہے'،
عاشورہ کی فضیلت واہمیت۔
عاشورہ سے مراد محرم الحرام کی دسویں تاریخ ہے کہ دس کے عدد کو عربی لغت میں عشرہ کہا جاتا ہے۔
کفار مکہ میں محرم کے تقدس کے پیشِ نظر عاشورہ کے روزے کا اہتمام موجود تھا سطور بالا میں ذکر کیا جاچکا ہے کہ نبی کریم صلّی اللہ علیہ وسلم بھی اس کا اہتمام کرتے تھے،پھر جب آپ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہاں قوم یہود کو دیکھا کہ وہ بھی عاشورہ کے دن روزہ رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں آپ نے اس کی وجہ دریافت کی تو معلوم ہوا کہ اس تاریخ میں موسی علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل نے بحر قلزم کو عبور کرکے فرعون کے ظلم وستم سے نجات پائی تھی اور فرعون اپنے لشکر کے ساتھ اس میں غرق آب ہوا تھا اس لیے بطورِ شکرانہ اس دن میں یہود روزہ رکھتے ہیں اس اطلاع پر آپ ﷺنے ارشاد فرمایا ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ موسی علیہ السلام کی نجات پر شکرانے کے طور پر روزہ رکھیں،
پھر آپ نے وجوبی طور پر صحابہ کرام کو دسویں محرم کو روزہ رکھنے کا حکم دیا چنانچہ حضرت سلمہ بن اکوع اور ربیع بنت معوذ کی تصریحات کے مطابق رسول اکرم ﷺ نے یوم عاشورہ کی صبح مدینہ منورہ کے اطراف ومضافات میں منادی کروادی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہیں ہے وہ آج کے دن روزہ رکھیں اور جن لوگوں نے کچھ کھا پی لیا ہے وہ بھی دن کے باقی حصوں سے کھانے پینے سے رک جائیں اور روزہ داروں کی طرح رہیں،اس حکم کے بعد فرض کی حیثیت سے اس پر عمل ہرسال ہوتا رہا مگر جب رمضان کا روزہ فرض ہوا تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی (متفق علیہ)
تاہم عاشورہ کے روزے بدستور آپ کے اور آپ اصحاب کرام کے معمولات میں شامل رہے،اس لئے کہ فرضیت اگرچہ منسوخ ہوگئی تھی مگر اس کی تقدیس اور فضیلت علی حالہ باقی تھی،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو کسی فضیلت والے دن کے روزے کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا سوائے اس دن یعنی یوم عاشورہ اور اس ماہ یعنی ماہ رمضان المبارک کے (متفق علیہ)
عبادات میں اشتباہ سے اجتناب»
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق جب رسول اکرم ﷺ نے روزے کا حکم دیا تو کچھ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ اس دن کو یہودی قوم بحیثیت عید شمار کرتی ہے اور روزہ بھی رکھتی ہے کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے کہ ان کی عبادت سے اشتباہ ختم ہوجائے تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا اگلا سال آئے گا تو ہم نویں تاریخ کو شامل کرکے ایک روزے کا
ا ضافہ کرلیں گے مگر اس سے قبل ہی آپ کا وصال ہوگیا (مسلم شریف)
اس روایت کی روشنی میں اب حکم یہی ہے'کہ یہود کی مخالفت میں دو روزے رکھے جائیں یا دسویں کے ساتھ نو تاریخ کو ملائیں یا گیارہویں تاریخ کو شامل کریں،
عاشورہ سے وابستہ رسوم کی حقیقت»
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد زریں سے یوم عاشورہ میں سادگی اور غیر متعینہ عبادات کے علاوہ دو سو سال تک رسم رواج کا تصور نہیں تھا اور نہ ھی اسلام میں اور آپ کی تعلیمات واعمال میں اس کی گنجائش تھی کہ اسلام کی حقیقی تصویر انتہائی سادہ اور فطرت کے عین مطابق ہے ،لیکن ہجرت نبوی صلی االلہ علیہ وسلم کے ساٹھ سال بعد ملت اسلامیہ کے سروں سے کربلا کے میدان میں اہل بیت پر ظلم وجفا اور نواسہ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی صورت میں قیامت گذر گئی،
یقیناً یہ حادثہ تاریخ کا اندوہناک اور جانکاہ سانحہ تھا اس سے پہلے بھی فرزندان اسلام اور جاں نثاران رسالت پر قیامت آشنا لرزہ خیز اور جگر خراش طوفان آئے،ان کے لہو سے عرب وعجم کی سر زمینیں لالہ زار ہوئیں،خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کو اسی ماہ کی پہلی تاریخ میں ابو لولو فیروز مجوسی نے عین نماز کی حالت میں بے دردی سے شہید کیا،امیر المؤمنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر میں قید کرکے عرصہ حیات تنگ کیا گیا بالآخر انہیں خون میں نہلا کر شہادت کی منزلوں پر پہونچا دیا گیا، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت تاریخ کا وہ المناک باب ہے'جس نے رسول اکرم کے رنج وغم اور اظہار درد کو جلی حرفوں میں محفوظ کیا ہے،حضرت علی کو خوارج نے ہمیشہ ستایا اور انہیں ظلما شہید کردیا گیا،
باوجود شہادت کی یہ داستان اس قدر مخفی اور پوشیدہ ہے کہ قوم کے خواص بھی اس سے ناآشنا ہیں،اس کے برعکس مخصوص نظریے کے حامل روافض کے مسلسل پروپیگنڈوں کے نتیجے میں دنیا نے صرف کربلا کی داستان کو یاد رکھا اور آج بھی وہ عاشورہ کی فضیلت شہادت حسین ہی کے کردار سے جانتی ہے کہ اور اس تصور پر یقین رکھتی ہے کہ عاشورہ کی تمام فضیلتیں اسی ایک واقعے سے وابستہ ہے'
یہی وجہ ہے کہ شیعی مذہب کے علاوہ خود ان لوگوں کے یہاں جو سنیت کے ٹھیکیدار اور عشق رسالت کے دعویدار ہیں ۔وہ تمام رسومات رائج ہیں جو شیعت کا شعار ہیں،ستم یہ ہے کہ اہل حق کی اچھی خاصی تعداد بھی ان خرافات میں مبتلا ہے'،جو سراسر اسلام اور اسلامی تعلیمات سے متصادم اور منحرف ہیں،یہ افعال و اعمال اس قدر اجنبی اور نامانوس اور شرکیہ اعمال سے ہم آہنگ ہیں کہ ان کی وجہ سے اسلام کا چہرہ بالکل مسخ ہوکر رہ گیا ہے'،اس کی اصل حقیقت ان پروپیگنڈوں میں،اشتعال انگیز نعروں اور تقریروں میں روپوش ہوکر رہ گئی ہے،
ان بدعات وخرافات میں مرکزی تصور اور عقیدہ یہ ہے کہ یہ مہینہ اور خصوصا عاشورہ کی تاریخ منحوس ہے،اس مہینے میں شادی بیاہ اور دیگر مسرتوں کی تقریبات یکلخت موقوف ہوجاتی ہیں،پورا مہینہ سوگ میں گذارا جاتاہے،نئے کپڑوں پر پابندی رہتی ہے،چولہے الٹ دئیے جاتے ہیں،چپل جوتے پہننا جرم قرار پاتا ہے،کاروبار یا دیگر سرگرمیاں روک دی جاتی ہیں،ملازمت ترک کرکے اچھی خاصی تعداد شہروں سے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتی ہے اس میں اس قدر اہتمام ہوتاہے کہ عیدین میں بھی نہیں ہوتاہے، حضرت حسین کے نام پر جگہ جگہ سبیلیں لگائی جاتی ہیں،روڈ پر کھچڑے کی بے شمار دیگیں چڑھ جاتی ہیں، مخصوص جلوس نکالا جاتا ہے جس میں یہ عقیدہ ہوتاہے کہ اس پر فرشتوں کی سواری حاضر ہوتی ہے،تعزیہ داری میں لاکھوں روپے برباد کئے جاتے ہیں،اس کی بلند تعمیرات میں مقابلہ آرائی ہوتی ہے،تعزیہ میں حضرت حسین اور ان کے رفقاء کے مجسمے تیار کئے جاتے ہیں،ان سے نذریں کی جاتی ہیں،فریادوں کا سلسلہ قائم ہوتاہے، مرادیں مانگی جاتی ہیں، نیاز کے پکوان چڑھا ئے جاتے ہیں،ان کا طواف کیا جاتا ہے،
غرض صرف تعزیہ کے نام پر جس قدر بدعات کا طوفان بپا ہوتاہے وہ ہندو مت کے مشرکانہ رسوم و رواج سے اگر زیادہ نہیں تو کسی طرح کم بھی نہیں ہے کہ نواسہ رسول کے سوگ کے نام ہر وہ عمل کیا جاتاہے جو توحید وسنت کے خلاف اور مشرکانہ مذاہب کے مماثل ہے، جب کہ اسلام میں کسی کی وفات پر تین دن سے زیادہ سوگ کا تصور نہیں ہے صرف خواتین کے چار مہینے دس دن تک شوہر کی وفات پر سوگ کا حکم ہے'،
دوسرے اسلام کا یہ انقلابی عقیدہ ہے کہ خدا کی راہوں میں جانوں کو نثار کرنے شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوتے ہیں ان کے درجات اس قدر بلند اور فلک رسا ہوتے ہیں کہ موت ظاہرا تو ان پر واقع ہوتی ہے مگر حقیقت میں وہ ان کی زندگی پر اثر انداز نہیں ہوپاتی ہے'،وہ جس طرح دنیا میں زندہ رہتے ہیں اسی طرح عالم برزخ میں بھی باحیات ہوتے ہیں،ایک روایت کے مطابق ان کی ارواح روشن قندیل کی صورت میں جنت الفردوس کے گلزاروں میں ادھر ادھر ٹہلتی رہتی ہیں،،
قران کریم نے بڑے واضح اسلوب میں شہیدوں کی موت کی تردید کی ہے اور ان کی زندگی کی گواہی دی ہے،،
لا تقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء عند ربھم یرزقون،، اللہ کے راستے میں شہید ہونے والوں کو مردہ نہ کہو ان کا وجود تو زندگی کے سرمائے سے معمور ہے اور اللہ تعالیٰ کے پاس سے انہیں رزق دیا جاتا ہے،،
رب کریم کے اس اعلان کے بعد ایک دانشمند اور سلیم طبیعت کے حامل شخص کے نزدیک حضرت حسین اور ان کے رفقاء کی یاد میں رنج وغم کی محفلوں،ماتمی مجلسوں،مرثیہ خوانی اور سینہ کوبی کے جلوسوں کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے،اور تعزیہ داری اور اس کے جلوسوں کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے؟ جس میں دیوالی ،دسہرے اور گنپتی کی مورتیوں کی عبادتوں کی طرح شان سے  بت پرستی کا راستہ ہموار کیا جاتا ہے،برصغیر کاروان حدیث کے سالار اول حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ان شرکیہ اعمال پر درد کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے،،اے بنی آدم ۔تم نے اسلام کو بدل ڈالنے کی بہت سی رسمیں اپنا رکھی ہیں،
مثلاً تم دسویں محرم کو باطل قسم کے اجتماع کرتے ہو،
بہت سے لوگوں نے اس مقدس دن کو ماتم ونوحہ کے لئے مخصوص کرلیا ہے،حالانکہ اللہ تعالیٰ ہی کی مشیت کے حادثے رونما ہوتے ہیں سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اس دن بے شک قتل کئے گئے مگر وہ کون سا دن ہے جس میں کوئی نہ کوئی اللہ کا نیک بندہ فوت نہ ہوا ہو،تاہم باوجود اس کے انھوں نے مظلومانہ شہادت کے سانحہ کو کھیل کود کی چیز بنا لیا،ماتم کو عید کے تہوار کی طرح بنالیا،گویا اس دن زیادہ کھانا پینا فرض ہے،اور نمازوں کا تمہیں کوئی خیال نہیں جو فرض عین ہے ان کو تم نے ضائع کردیا،یہ لوگ انہیں من گھڑت کاموں میں مشغول رہتے ہیں نمازوں کی توفیق انہیں ملتی ہی نہیں،،(تفہیمات الٰہیہ برقی مضمون آصف عثمانی)
خود اسلام میں سختی سے ماتم ونوحہ،سوگواری کی مجلسوں اور ان کے مثل تمام کرداروں کی مذمت کی گئی ہے ،اور ان پر عمل پیرا لوگوں کو اسلام کی صف سے خارج شمار کیا گیا ہے ،رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے،،جوشخص رخساروں پر طمانچہ مارے،گریبانوں کو چاک کرکے چیخے چلائے،گریہ وزاری اور بے محابا واویلا کرے،مصیبت کے وقت ہلاکت اور موت کی تمنا کرے،وہ ہم سے نہیں ہے (بخاری1296)
خلاصہ یہ کہ یوم عاشورہ انتہائی فضیلت واہمیت کا حامل ہے اس لیے نہیں کہ اس تاریخ کو کربلا کا سانحہ پیش آیا ہے'بلکہ اس لیے کہ یہ خداوند عالم نے ابتدا ہی میں اسے اپنی رحمتوں اور برکتوں کا مورد بنایا ہے،امتیازی خصوصیات سے نوازا ہے،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت اس تاریخ میں واقع ہونے کی وجہ سے مزید معزز اور معظم ہوگئی،ان تعلیمات کی روشنی میں اس لمحے کو منحوس سمجھنا اور مصائب وآلام کا دن تصور کرنا،دنیا کا اور کوئی مذہب ہو تو ہو،اسلام نہیں ہوسکتا جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے آیا ہے اس لیے کہ وقت اور زمانے،اللہ ہی کی مخلوق ہیں اور خیر وشر زمانے کے اچھے برے ہونے پر موقوف نہیں ہیں یہی وجہ ہے آپ نے نحوست کا الزام لگا کر زمانوں کو گالی دینے سے منع کیا ہے کہ برائی اور بھلائی تو خداوند عالم کے ہاتھ میں ہے (بخاری5827)
آخری بات یہ ہے کہ جس طرح مذکورہ شرکیہ اعمال وافعال خدا کے غضب کا سبب ہیں اسی طرح تماشائی کی حیثیت سے ان مجالس میں،پروگراموں میں،دعوتوں میں،اور دوسری ماتمی محفلوں میں شریک ہونا بھی جرم ہے کہ اس کے ذریعے جہاں بدعات وخرافات  کی تائید زبان حال سے ہوتی ہے،  وہیں ان کی رونقوں میں اضافہ بھی ہوتاہے،ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے،پس کلام الٰہی ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان،،گناہ وبغاوت پر کسی طرح کی معاونت نہ کرو،، کی روشنی میں بلا تامل کہا جاسکتا ہے کہ ان غیر اسلامی کرداروں میں کسی طرح کی شرکت جائز اور درست نہیں بلکہ ناجائز اور حرام ہے۔۔
اثر خانہ۔۔۔۔شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار شواجی نگر گوونڈی ممبئی
رابطہ نمبر 8767438283