Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Monday, September 23, 2019

کشمیر کے بعد کیا ۔۔۔۔۔رام رام رام ؟


از/عمر فراہی ۔۔۔/صداٸے وقت۔
=============================
ارشد مدنی صاحب اور موہن بھاگوت کی ملاقات کے بعد  اب محمود مدنی صاحب جس طرح سے ہوم منسٹر امت شاہ سے ملاقات کرکے متحرک ہوۓ ہیں اور  سوئزر لینڈ کے شہر جنیوا میں  یوروپین پارلیمنٹ کے ممبران کے ساتھ میڈیا کے سامنے بیان بازی کی ہے اقبال نے ان کی پیدائش سے پہلے ہی ان کے اس کردار کی پیشن گوئی کر دی تھی۔

وطن سے وفاداری اپنی جگہ لیکن ارباب اقتدار سے وفاداری محمود مدنی صاحب کے خون میں شامل ہے۔ یقیناً محمود مدنی کو سوئٹزر لینڈ اسی بیان بازی کیلئے ہی لےجایا گیا ہے تاکہ کشمیر کے تعلق سے پوری دنیا کے سامنے وہ ہندوستانی مسلمانوں کی تصویر واضح کرسکیں ۔ویسے یہ کام وہ کانگریس کے دور میں بھی کرتے رہے ہیں۔
مجھے یاد ہے جب پہلی بار امریکی صدر اوبامانے ہندوستان کا دورہ کیا تو پارلیمنٹ میں  مسلمانوں کی نمائندگی کے طور پر جاوید اختر کے نام کو متعارف کرایا گیا تھا ۔سوئزر لینڈ کے جنیوا کی میڈیا کانفرنس میں بھی تو جاوید اختر یا عارف محمد خان اور شاہنواز حسین کو بھیجا جاسکتا تھا ۔مگر ایسا اس لئے نہیں کیا گیا کیونکہ یہاں لمبی داڑھی والے مسلمان کی ضرورت تھی ۔خوش قسمتی سے محمود مدنی جمیعت العلماء کے خوبصورت ٹیگ کے ساتھ  اپنے آباواجداد کی سنہری تاریخ بھی رکھتے ہیں  ۔محمود مدنی کی اسی داڑھی کا استعمال کانگریس نے گوا میں ترون تیجپال کی میڈیا کانفرنس میں بھی کیا تھا جہاں ترون تیجپال کو انہیں کی ایک خاتون ساتھی جرنلسٹ کے ساتھ نازیبا حرکات کے الزام میں جیل جانا پڑا تھا ۔یہ کانفرنس کئی موضوعات پر کئی روز تک جاری تھی جس میں مشہور فلمی شخصیات جیسے کہ امیتابھ بچن وغیرہ بھی شریک ہوۓ تھے ۔اس کانفرنس میں طالبان کے پاکستان میں رہے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو بھی مدعو کیا گیا تھا ۔شاید افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والے حالات کے تناظر پر ملا ضعیف سے ہماری ایجنسیوں کو کوئی خفیہ گفتگو کرنی رہی ہوگی ۔اس موقع پر ملا ضعیف کے سامنے بھی محمود مدنی صاحب کی لمبی داڑھی اور دستار کو مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا گیا تھا ۔یہ بھی یاد رہے کہ محمود مدنی صاحب کو سرخیوں میں رہنے کا بہت شوق ہے ۔وہ وقت بھی ہمیں یاد ہے جب فوربس میگزین نے مدنی کو سو بااثر شخصیات میں شمار کرتے ہوۓ  مسلمانوں کا مضبوط رہنما قرار دیا تھا ۔بد قسمتی سے اسی دوران اسدالدین اویسی صاحب کے چڑھتے سورج نے ان کی شہرت کو دھندلا کر دیا ۔اب امت شاہ کی مہربانی سے سوئزرلینڈ میں کشمیر اور پاکستان کے خلاف حکومت کی حق میں ان کے کردار نے انہیں پھر سے بین الاقوامی شہرت کا حامل بنا دیا ہے ۔ اصل میں بی جے پی حکومت محمود مدنی کو صرف  مسئلہ کشمیر کیلئے ہی استعمال نہیں کر رہی ہے جس کا حل اگر مدنی کی بیان بازیوں سے نکلنا ہوتا تو سرکار وادی میں آٹھ لاکھ فوج تعینات نہ کرتی۔ جو مسئلہ رام مندر کی تعمیر کی شکل میں حل طلب ہے وہ بہت جلد سامنے آنے والا ہے اور بی جے پی کو ایک بار پھر ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہے جو عین موقع پر آرایس کے گناہ کا اخلاقی جواز پیش کر سکیں ۔محمود مدنی نے یوں ہی شیواجی کو اورنگ زیب سے بہتر حکمراں نہیں کہا ہے ۔انہون  نے وہ اصل بات کہنے کیلئے فضا تیار کی ہے جو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اگر رام مندر کی تعمیر کیلئے آرڈیننس پاس کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے تو وہ  حکومت کی طرف سے مندر کی تعمیر کے اخلاقی جواز میں بیان دے سکیں جیسا کہ وہ کشمیر کے تعلق سے حکومت کے فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں ۔جو شخص اورنگ زیب کو شیواجی سے بہتر کہہ سکتا ہے اسے یہ کہنے میں کتنا وقت لگے گا کہ بابر حملہ اور تھا اور ممکن ہے مسجد کسی  مندر کو منہدم کر کے بنائی گئی ہو !؟یاد رہے آرایس ایس کے لوگ مسلسل اپنا ہوم ورک کر رہے ہیں ۔ابھی تھوڑے دن پہلے آرایس ایس  شری شری  روی شنکر اور سلمان ندوی صاحب کی ملاقات کروا چکی ہے ۔سلمان ندوی صاحب نے تو مسلمانوں کے سامنے شری شری کے  ملنے کا صاف ارادہ ظاہر کردیا تھاکہ وہ کیا چاہتے ہیں ۔مگر جس طرح آرایس ایس نے چچا بھتیجے دونوں کو کام پر لگا دیا ہے اس ملاقات سے بھاگوت اور امت شاہ کشمیر کا مسئلہ کیسے حل کروا سکتے ہیں جو کہ  ان مولوی صاحبان کی اوقات سے باہر ہے ۔۔بظاہر ہندو مسلم بھائی چارہ اور کشمیر میں امن برقرار رکھنے کی جو بات سامنے آئی ہے اس بات میں بھی کوئی دم نہیں ہے ۔ایک بات طئے ہے کہ بھاگوت اور آرایس ایس کو ملک میں امن و شانتی کے ماحول سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ وہ تو جان بوجھ کر خوف کا ماحول بنا رہے ہیں تاکہ مسلم قائدین دباؤ میں آکر آرایس کے مقصد کو حاصل کرنے میں معاون بن سکیں ۔جس اقتدار کیلئے مسجد میں مورتی رکھوا کر ہندوتوا کے علمبرداروں نے رام مندر کا مسئلہ کھڑا کیا تھا وہ مقصد بھی پورا ہو چکا ہے ۔اب ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہےکہ اگر وہ ان پانچ سالوں میں اپنے ہندو ووٹروں سے مندر بنانے کاوعدہ پورا نہیں کر سکے تو آئندہ اپنا سیاسی وقار کھو سکتے ہیں ۔ مولانا ارشد مدنی بھاگوت اور امت شاہ  اور محمود مدنی کے درمیان گفتگو کا مقصد اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے کہ بابری مسجد کے تعلق سے ابھی بھی وقت ہے کوئی سودے بازی کر لی جائے ورنہ by Hookیا by Crook مندر تو وہیں بنے گا  ۔یاد رہے مندر مسجد کے سلسلے میں اٹل بہاری کی حکومت میں  آرایس ایس کی علی میاں ندوی صاحب سے بھی ملاقات ہو چکی ہے اور کہا جاتا ہے کہ وہ کسی فیصلے پر پہنچ چکے تھے مگر کانگریسی لیڈروں کے اس دباؤ میں کہ مسجد کا کوئی بھی فیصلہ کانگریس حکومت میں ہو تاکہ کانگریس ہی  اس کا سیاسی فائدہ اٹھا سکے علی میاں صاحب کسی فیصلہ کن نتیجے پر نہیں پہنچ سکے ۔خود علی میاں ندوی کی موجودگی میں علں میاں کو خوفزدہ کرنے کیلئے خفیہ ایجنسیوں نے ندوہ پر چھاپہ مارا تھا ۔آرایس ایس نے شری شری اور سلمان ندوی کی ملاقات علی میاں ندوی کے حوالے سے اس امید میں کروائی کہ شاید سلمان ندوی کوئی حل نکال سکیں ۔سلمان ندوی صاحب کو دیگر علماء کو اعتماد میں لیکر اس مسئلے کا حل پیش کرنا تھا مگر انہوں نے جو طریقہ اختیار کیا وہ درست نہیں تھا اور یہ بحث آگے نہ بڑھ سکی ۔اب اگر ارشد مدنی اور محمود مدنی صاحب سے ملاقات کا سلسلہ آگے بڑھا ہے تو یاد رہے کہ اس سلسلے میں آرایس کے سربراہ غالباً سدرشن اور اسد مدنی صاحب کی بھی ماضی میں ملاقات ہو چکی ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ دونوں بھی کسی حل تک پہنچ چکے تھے مگر اسد مدنی صاحب نے بابری مسجد تحریک سے جڑے ہوۓ دیگر قائدین کے جارحانہ رخ کو دیکھتے ہوۓ اپنی دستار کو بچا لینے میں ہی عافیت سمجھی ۔یاد رہے آرایس ایس ایک نظریاتی تحریک ہے اور اس کے پاس علی میاں اور اسد مدنی سے ہوئی گفتگو کے دستاویزات بھی یقیناً موجود ہونگے کیونکہ وہ اپنے نصب العین کیلئے اپنے  ہوم ورک میں کوتاہی نہیں کرتے ۔یہ بھی یاد رہے کہ جو نظریاتی تھے وہ تبلیغی ہو گئے ۔ان کے پاس نہ نصب العین ہے نہ ہوم ورک ۔شاید مولوی ابھی حب علی اور بغض معاویہ رضی اللہ عنہم کی سنجیدہ اور فیصلہ کن بحث کا ہوم ورک تیار کرنے میں مصروف ہے  !
آرایس ایس کے لوگ علی میاں اور اسد مدنی صاحب سے ہوئی گفتگو کے اسی ہوم ورک اور تاریخی حوالے سے ان کے رشتے دار مسلم قائدین سے رابطے اور ملاقات کا سلسلہ قائم رکھے ہوۓ ہیں ۔
ہمارا خیال ہے کہ بی جے پی کو جس طرح پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی ہے اور جس طرح اس نے تین طلاق بل اور یو اے پی اے میں ترمیم کی بل کو دونوں ایوانوں سے پاس کروا لیا اور کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے میں بھی اسے کسی اڑچن کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور تینوں بل کو اپوزیشن کی حمایت حاصل رہی اگر بی جے پی عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے رام مندر کی تعمیر کیلئے آرڈیننس پیش کرتی ہے تو یقیناً یہ بل بھی پاس ہو جاۓ گا اور مسلمان اپنے جمہوری حق کا استعمال کرتے ہوئے احتجاج اور مظاہرہ کرکے خوش ہونے کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتے لیکن بی جے پی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بغیر ایسا نہیں کرسکتی ۔یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد فیصلہ مندر کے حق میں آیا تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں لیکن مسجد کے حق میں آیا تو بھی بی جے پی کو ہندوؤں سے رام مندر کی تعمیر کے اپنے وعدے پر عمل کرنا ہی ہے چاہے اسے عوامی ضمیر کو مطمئن کرنے کیلئے پارلیمنٹ میں آرڈیننس ہی کیوں نہ لانا پڑے ۔لیکن آرایس ایس بھی چاہتی ہے جہاں تک ہو سکے رام مندر کا مسئت مسلمانوں کی رضا مندی سے حل ہو جائے کیونکہ آرایس ایس کے لوگ بھی دنیا کے سامنے اپنا اخلاقی وقار کھو کر پوری طرح بے شرم نہیں ہونا چاہتے ۔یہ بات بھی مد نظر رہے کہ اس بار سپریم کورٹ بھی جلد بازی میں ہے تیرہ اکتوبر تک بحث مکمل ہو جانا ہے اور کوئی انہونی نہ ہوئی تو دسمبر سے پہلے فیصلہ بھی آجانا ہے ۔سپریم کورٹ کے جج بھی نہیں چاہتے کہ انہیں افضل گرو کے فیصلے کے بعد پھر دوبارہ اکثریت کے ضمیر کو مطمئن کرنے کی نظیر پیش کرکے  کوئی فیصلہ دینا پڑے ۔اسی لئے کورٹ نے یہ تجویز بھی رکھی ہے کہ فیصلے کی سنوائی کے دوران بھی اگر دونوں فریق آپس میں کوئی حل تلاش کر لیں تو کورٹ اس حل پر ہی فیصلہ صادر کردے گا۔بہرحال فیصلہ جو بھی ہو  رام گڑھ کے بہادروں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مندر تو وہیں بنے گا کیوں کہ یہ پروشوتم بھگوان رام کی آستھا کا معاملہ ہے اور پھر  رام للا زیادہ دنوں تک کھلے آسمان میں ایک معمولی خیمے میں کیسے رہ سکتے !!