Sada E Waqt

چیف ایڈیٹر۔۔۔۔ڈاکٹر شرف الدین اعظمی۔۔ ایڈیٹر۔۔۔۔۔۔ مولانا سراج ہاشمی۔

Breaking

متفرق

Sunday, September 15, 2019

عالِم کون ؟؟

از/مرزا انور بیگ/صداٸے وقت/ذراٸع۔
=============================
ایک بڑی بحث یہ چھڑی ہوئی ہے کہ لوگ علماء کے خلاف بدزبانی کرتے ہیں اور یہ بہت بڑا گناہ ہے اور یہ کہ ایسے لوگوں کی قبروں میں ایسے ایسے عذاب ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان کی قبریں جہنم کا گڑھا ہوں گی۔
پھر یہ بھی کہ جس کے نام کے لاحقے "مولانا" ہیں ان پر تنقید و تبصرے تو گویا گناہ عظیم 
سمجھ لیا گیا ہے۔

آج کل چند مولانا حضرات نے ملت اسلامیہ ہند کو عجیب کشمکش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ ان خودساختہ سرداران قوم نے گویا پوری ملت اسلامیہ ہند کو یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے اور اپنی غلط بیانی کو صحیح ثابت کرنے میں خود بھی لگ گئے ہیں اور اپنے حواریوں کو بھی لگا دیا ہے جو ان کے ناقدین پر کفر تک کے فتویٰ لگا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان مولانا حضرات کا شمار ایمانیات میں سے ہے کہ ان کی بات پر جو ایمان نہ لایا وہ کافر ہوگیا۔
ایک صاحب نے راقم کے بارے میں یہاں تک کہہ دیا کہ انھیں لفظ مولانا سے ہی چڑھ ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ مجھے لفظ مولانا سے چڑھ نہیں ہے بلکہ چڑھ اس بات سے ہے کہ یہ مبارک لفظ کیسے کیسے لوگوں پر چسپاں کر دیا جاتا ہے جو اس لقب کے بالکل حقدار نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ جب نا اہل کو ایسے القاب سے نوازا جائے گا تو وہ صرف فتنہ ہی ہوگا۔
اسی طرح اس بات کو بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عالم کون ہے، کس کو عالم کہا جانا چاہیے۔ لیکن ہو یہ رہا ہے کہ جو بچہ بھی کسی مدرسے سے فارغ ہو کر نکلا وہ اپنے کو عالم سمجھ لیتا ہے اور اپنے نام کے ساتھ مولانا جوڑ لیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ اس طرح وہ عالم بن جاتا ہے نہ ہی مولانا۔
لفظ مولانا کے معنی
قرآن وحدیث کی روشنی میں مختصراً یہ کہ دوست، ذمہ دار، سردار اور آقا کے معنی ہوتے ہیں۔
اب جس فرد کا عمل بھی ان معنوں میں ہوگا وہی مولانا کہلانے کا مستحق ہے نہ کہ جو رواج بن گیا ہے کہ مدرسے سے سند لی اور بن گیا مولانا۔
اسی طرح عالم بھی وہ ہرگز نہیں ہے جس نے مدرسہ کی سند حاصل کرلی اور بس اسٹاپ پر کھڑے ہوکر دوسروں سے پوچھے کہ یہ بس کہاں جاۓ گی کیونکہ اسے ہندی یا انگریزی کا بورڈ پڑھنے نہیں آتا۔ کوئی اس مثال سے یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ جس کو ہندی اور انگریزی پڑھنے آگئی وہی عالم ہوا۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عالم حقیقت میں وہی کہلانے کا مستحق ہے جس کو نہ صرف مذہبی علوم کی واقفیت ہو بلکہ عصری علوم سے بھی واقف ہو۔ کارزار جہاں میں ہونق بنا نظر نہ آئے بلکہ لوگ اس کی طرف اس کے علم کی وجہ سے رجوع ہوتے ہوں۔ وہ صائب الرائے ہو۔ عملی میدان میں اس کی دور رس نگاہیں ہوں۔ اس کے ان مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہو۔ وہ بات کی تہہ تک باآسانی پہنچ جاتا ہو۔ وہ صرف کتابی علوم کو روایت کرنے والا نہ ہو بلکہ خود تحقیق و جستجو کرتا ہو۔ معاملات کو مختلف زاویوں سے دیکھتا اور پرکھتا ہو۔ تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر فیصلے کرتا ہو۔ ڈھل مل مزاج نہ ہو بلکہ پختہ اور سنجیدہ مزاج ہو۔ انسانیت کا خیرخواہ ہو۔ رقیق القلب ہو۔ اللہ سے ڈرنے والا، خود احتسابی کرنے والا اور غلطیوں پر رجوع کرنے والا ہو۔ بے خوف و بے باک ہو۔ حق کا گواہ ہو اور بے لوث ہو۔ عجز و انکساری بھی لازمی ہے۔ ان صفات سے جب وہ متصف ہوگا تو عالم کہلانے کا حق دار بھی ہوگا۔ مگر مشاہدہ یہ ہے کہ مدرسے سے نکلتے ہی گردن یوں اکڑتی ہے گویا فالج زدہ ہو۔ ایک ایسے ہی عالم سے سابقہ پڑا اور اس نے کفر کے فتوے لگانے شروع کیے تو آخر میں میں نے دانستہ کہا بھائی تم تو عالم ہو دس لوگوں کو جنت میں اپنی سفارش سے لے جاؤ گے۔ وہ بولے دس کو نہیں ستر70 کو۔
میں مسکرا کر خاموش ہو گیا۔
مرزا انور بیگ